تھے جوگراں قیمت کبھی، اب ہیں متاعِ کس مخر

تھے جوگراں قیمت کبھی، اب ہیں متاعِ کس مخر

تھے جوگراں قیمت کبھی، اب ہیں متاعِ کس مخر

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

اِس وسیع وعریض دنیا میں مختلف تہذیب وتمدن اورمتفرق زبان وبیان کی حامل قومیں رہتی بستی ہیں۔اُن قوموں میں سے ہر ایک میں کوئی نہ کوئی ایسی علامت موجود ہوتی ہے، جو اُس قوم کے لئے شناخت کا ذریعہ بنتی ہے۔اُس علامت کی حفاظت کے لئے وہ قومیں مختلف تدابیر اختیارکرتی ہیں۔اِس کے لئے ترغیبی اعمال کے ساتھ ساتھ ترہیبی امورتک انجام دے ڈالنے میں ادنیٰ پس وپیش سے کام نہیں لیتیں۔ پھر قوم کا ہرفرد اپنے بعد والی نسل کو اِس کی حفاظت کی وصیت بھی کرتاجاتاہے۔

اِس علامت کی حفاظت اورباقی رکھنے کے طریقے بھی اُس کی ذات کے اعتبار سے اپنائے جاتے ہیں؛ چنانچہ کبھی اُس کو تمثال کا پیکرعطاکر کے راستوں اورچوراستوں میں نصب کردیا جاتاہے؛ تاکہ راہ گزرتے ہرفردِبشرکوہروقت حفاظت کی دعوت دیتارہے۔کبھی پمفلٹ اوربک لیٹ کی صورت میں اُس کی تقسیم عمل میں لائی جاتی ہے؛ تاکہ پڑھالکھاطبقہ(جومعاشرہ کا کریم سمجھے جاتا ہے اورپورے معاشرہ پرجن کی گرفت مضبوط قسم کی ہوتی ہے)اپنے ذہن سے کسی طرح اِس کو محونہ کرسکے؛ بل کہ بے پڑھے لکھے لوگوں کو بھی اِس کی حفاظت کی ذمہ داری سے آگاہی کرتا رہے اورکبھی اُس عمل درآمدگی کو لازم بنایاجاتاہے؛ تاکہ یکساں طورپرپڑھے بے پڑھے، بچے بوڑھے، جوان ادھیڑاورمردوزن سبھوں پراُس کی اہمیت اورفوقیت واشگاف ہوجائے اورسب اُس کی حفاظت کو اپنافرضِ منصبی تصورکرنے لگیں۔

پہلی علامت:نماز

من حیث القوم ہم مسلمانوں کی بھی کئی علامتیں اور شناختیں ہیں اوریہ زمینی اورمخلوق کے ذہن کی اُپچ بھی نہیں؛ بل کہ آسمانی اورخالق کی طرف سے عطاکردہ ہیں، جن کی عدم حفاظت کی وجہ سے قومیتِ اسلامی کے دھارے سے ہی رشتہ کے ختم اوراُس کے دائرہ سے خارج ہونے کی وعید سنائی گئی ہے۔ اُن علامتوں میں سے ایک علامت’’نماز ‘‘ہے، جس کی حفاظت اورادائے گی قوم کہ ہرمکلف فرد پرلازم ہے۔ عدم ادائے گی اورعدم حفاظت کی صورت میں کبھی تو’مال واولاد‘ کے ہلاک ہونے کے بقدرنقصان کی بات کہی گئی ہے اورکبھی اِس علامت کو اسلامی اورغیراسلامی قومیت کے درمیان مابہ الامتیاز صفت قراردے کر’’قومیت‘‘سے اخراج کی طرف اشارہ کیا گیاہے۔

دوسری علامت:دھوکہ نہ دینا

انھیں علامتوں میں سے ایک ’’دھوکہ نہ دینا‘‘ ہے۔یہ ایک ایسی علامت ہے، جس کی وجہ سے نہ جانے کتنے بے ایمان لوگ دائرۂ ایمان میں ماضی میں بھی داخل ہوچکے ہیں اورآج بھی داخل ہورہے ہیں۔اِس علامت کی حفاظت نہ کرنے پر بھی اسلامی قومیت کے دھارے سے رشتہ کے ختم ہونے کی وعید سنائی گئی ہے۔

تیسری علامت:جھوٹ نہ بولنا

قومی علامتوں میں سے ایک ’’جھوٹ نہ بولنا‘‘بھی ہے۔ یہ ایک ایسی صفت ہے، جس کے اندرتعدی پائی جاتی ہے اور انسان ایک دروغ کے نتیجہ میں کئی کئی ممنوعہ چیزوں کا ارتکاب کربیٹھتاہے۔ اِس صفت سے دوری اختیاری نہ کرنے والے کے لئے ’’اللہ کی لعنت‘‘ کی وعید بتلائی گئی ہے۔

چوتھی علامت:غیبت نہ کرنا

مسلمانوں کے اُنھیں قومی علامتوں میں سے ایک ’’غیبت نہ کرنا‘‘بھی ہے۔یہ ایک ایسی صفت ہے، جس کو’گناہِ بے لذت‘ کے نام سے تعبیرکرسکتے ہیں۔اِس میں لگے رہنے والے کو تو ادنیٰ فائدہ نہیں ہوتا، تاہم جس کی معکوسی تعریف کی جارہی ہے، اُسے مفت میں بے شمارثواب مل جاتاہے۔اِس صفت میں ملوث رہنے والے کی تشبیہ ایسے شخص سے دی گئی ہے، جو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے والاہواورظاہرہے کہ اِس صفت کی شناعت کے لئے اِس سے بڑھ کراورکچھ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں؛ کیوں کہ قباحت اورشناعت کی یہ آخری تشبیہ ہے۔

پانچویں علامت:چغلخوری نہ کرنا

اسلامی قومیت کی ایک اہم علامت ’’چغلخوری نہ کرنا‘‘ بھی ہے۔ اِس کے ذریعہ سے ایک انسان لوگوں کے بنے بنائے تعلقات کے درمیان دراڑپیدا کردیتاہے اوردوآپسی روابط رکھنے والے کے مابین آتشِ نزاع بھڑکا دیتاہے، جس کی وجہ سے برسوں کی یاری بیزاری میں اورسالوں کی دوستی دشمنی میں بدل جاتی ہے اورظاہرہے کہ جس دین نے دلوں کے جوڑنے کا کام سرانجام دیاہو، وہ قلوب کے توڑنے کے کام سے کیسے خوش ہوسکتاہے؟ یہی وجہ ہے کہ ایسے شخص کے بارے میں زبانِ نبوت کا یہ فرمان واردہواہے کہ’’قیامت کے دن وہ اِس حال میں آئے گاکہ اُس کے دوآگ کے چہرے ہوں گے‘‘۔

یہ ہماری اسلامی قومیت کی وہ علامتیں ہیں، جن کی حفاظت کرکے ہمارے اسلاف اوجِ ثریا تک پہنچے اوردنیا کے اِس گوشے سے لے کر اُس گوشے تک اپنی قومیت کا علم لہرایا؛ لیکن آج ہم اپنی قومیت کی بقاکی جنگ صرف اِس لئے لڑنے پر مجبورہیں کہ ہم  اِن کی حفاظت سے دست کش ہوچکے ہیں اوراپنی اِن علامتوں کا خود اپنے ہاتھوں گلاگھونٹ رہے ہیں، نتیجۃً ہم بازارکی بے قیمت سامان بن کرزندگی بسرکرنے پر مجبورہے، سچ ہی کہاہے:

بدلی زمانہ کی ہوا، ایسا تغیرآگیا

تھے جوگراں قیمت کبھی، اب ہیں متاعِ کس مخر 

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی