تحفظ اوقاف کی کوشش میں اختلاف: چہ معنی دارد؟

تحفظ اوقاف کی کوشش میں اختلاف: چہ معنی دارد؟

تحفظ اوقاف کی کوشش میں اختلاف: چہ معنی دارد؟

محمد جمیل اخترجلیلی ندوی


تقریباً ایک مہینہ سے تحفظ اوقاف کے سلسلہ میں کوششیں ہورہی ہیں، مسلم تنظیموں، بالخصوص مسلم پرسنل لاء بورڈ کی طرف سے کی جارہی کوششیں قابل مبارک باد ہیں، اورمسلم قوم بھی قابل مبارک بادہے کہ ان تنظیموں کی آواز پرانھوں نے لبیک کہا، اوقاف کا تعلق چوں کہ پرسنل لاء سے ہے؛ اس لئے مسلم پرسنل لاء بورڈ براہ راست اس کوشش میں لگ گئی اوریہ اس پرفرض بھی تھا؛ لیکن امارت شرعیہ، جمعیۃ علماء ہند، ادارۂ شرعیہ، جمعیۃ علماء اہل حدیث ، جماعت اسلامی اورملک کی دیگرتنظیموں نے بھی اس کوشش میں حصہ لیا ہے، ایک کوشش تومیل کرنے کی تھی، جس کے تعلق سے ساری تنظیموں کی طرف سے اپیل کی گئی اورخاطرخواہ اس کافائدہ بھی ہوا؛ لیکن اس سے کم، جتنے کی امید تھی؛ لیکن پھربھی اس کوشش کو ایک ’’کامیاب کوشش‘‘ سے تعبیرکیا جاسکتا ہے۔

دوسری کوشش، جوابھی جاری ہے، وہ ہے مختلف علاقوں میں اجلاس اورپروگرام کرکے عوام کووقف کی حقیقت اور وقف بل ۲۴ء کی سنگینی سے آگاہ کرناہے، یہ کوشش بھی ملک کے اِس کونہ سے لے کراُس کونہ تک جاری ہے، اس سلسلہ میں خصوصیت کے ساتھ مسلم پرسنل لاء بورڈ پیش پیش ہے؛ تاہم امارت شرعیہ بہار،جھارکھنڈ، اڈیشہ، بنگال بھی پیچھے نہیں ہے، ابھی حال ہی میں پٹنہ میں ایک زبردست اجلاس اس تعلق سے منعقد ہوا، جس میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی اور حکومت کویہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ اس بل کے تعلق سے ہم بیدارہیں اورہم اپنے پرسنل لاء پرہونے والے حملوں پر خاموش نہیں بیٹھیں گے۔

ابھی اس تعلق سے جھارکھنڈ میں کوششیں چل رہی ہیں اورملک کے پڑھے لکھے مسلم طبقہ کی نگاہ اس طرف لگی ہوئی ہے، وجہ صاف ہے کہ جھارکھنڈ میں اوقاف کے تحفظ کے تعلق سے تین دن کے آگے پیچھے سے ایک ہی شہررانچی میں دو پروگرام منعقد ہورہے ہیں، ایک۳/اکتوبرکوامارت شرعیہ کی سرپرستی میں عبدالرزاق انصاری ایجوکیشنل اینڈ کلچرل سینٹر اربا کے زیرانتظام ’’عبدالرزاق ہینڈلوم کمپلیکس، اربا، رانچی‘‘ میں، جب کہ دوسرا ۶/اکتوبرکوآل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ کے زیراہتمام ’’حج ہاؤس، کڈرو، رانچی‘‘میں، اب ظاہرہے کہ ایک ہی عنوان پر دودوپروگرام اوروہ بھی ایک ہی شہرمیں، ہرآدمی سوچنے پرمجبورہے کہ ماجرا کیاہے؟ سوچنے والی بات بھی ہے، اگرایک پروگرام پہلے سے طے تھا تو دوسرے پروگرام کو یہاں نہیں کرناچاہئے تھا، کسی اورشہرکاانتخاب کرلیا جاتا تو مناسب بات ہوتی؛ لیکن افسوس! تحفظ اوقاف کاپروگرام کررہے ہیں؛ لیکن اختلاف کے ساتھ ۔

پروگرام اوراجلاس کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم اپنی ایکتائی کامظاہرہ کریں اورحکومت کویہ باورکرانے کی کوشش کریں کہ اس معاملہ میں ہم سب ایک ہیں؛ لیکن اُف اللہ! یہاں توانتشارکی شکل پیداہوچکی ہے۔

آج ہرتنظیم اوراس کے افراد اس بات کے دعویدار ہیں کہ ہم قوم کے لئے مخلص ہیں، قومی فائدہ کے لئے کام کرتے ہیں،للہ کرتے ہیں؛ لیکن ان امورکودیکھ کر ایسا نہیں لگتا؛ بل کہ ایسا لگتا ہے کہ ہرایک اپنی اناکے زیراثرکام کرنے کاعادی ہے، قومی مفاد کے لئے کام کرنا کوئی آسان نہیں ہے، پتہ ماری کاکام ہے، نفس کومارناپڑتا ہے، انا کوکچلنا پڑتا ہے، تاریخ کے صفحات میں یہ بات درج ہے کہ حضرت خالدبن ولید فتح فتح کر رہے ہیں، ان کے حوصلے آسمانوں کوچھورہے ہیں؛ حتی کہ لوگوں کو یہ یقین ہوگیا ہے کہ جس جنگ میں حضرت خالدبن ولید رہیں، اس میں جیت یقینی ہے، عین ایسے عروج کے زمانہ میں امیرالمؤمین حضرت عمرؓ ان کوسپہ لاری سے معزول کردیتے ہیں، وہ خاموشی کے ساتھ اس معزولی کوقبول کرلیتے ہیں، اس وقت ان کےفالوراورفین لاکھوں کی تعدادمیں تھے، وہ چاہتے توحضرت عمرؓ کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی ایک ٹیم تیار کرتے اورکسی دوسرے محاذ پرجنگ کے لئے چلے جاتے، وہ چاہتے تولوگوں کو اکسا سکتے تھے؛ لیکن چوں کہ وہ واقعی یہ جنگیں للہ کررہے تھے، وہ اللہ کے لئے مخلص تھے، وہ قومی مفاد کوسامنے رکھ کا فیصلہ لینے والے تھے؛ اس لئے انھوں نے ایسا نہیں کیا، یہاں دیکھئے توہرایک مخلص ہونے کا دعویدارہے، ہرکوئی قومی مفاد کے لئے کام کرنے کامدعی ہے؛ لیکن جب کبھی ایساموقع آتا ہے، جہاں ان کے اخلاص کی پرکھ ہوسکتی ہے، سب کے سب پھسل جاتے ہیں، اسی کے نتیجہ ہے کہ ہمارے کئی ادارے؛ بل کہ اسلامی اوردین سے تعلق رکھنے والے ادارے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکربکھرچکے ہیں، جس کی وجہ سے من حیث القوم خسارہ اورنقصان بھی ہوا؛ لیکن چوں کہ بات انا کی ہے، بات خود لذتی کی ہے، بات نفس پرستی کی ہے؛ بل کہ قوم کے نام پرقوم کوبے وقوف بنانے کی ہے؛ اس لئے کوئی بھی اپنے دعوی سے ایک انچ ہٹنے کے لئے تیارنہیں؛ حتی کہ وہ ادارے، جہاں عوام کے تنازعات کوسلجھایاجاتا ہے، جب خود ان کے آپس کے جھگڑے وجود میں آتے ہیں تووہ بقول ان کے: ’’طاغوت‘‘ کے درپرجا کراستغاثہ کرتے ہیں اوروہاں کے فیصلہ پرراضی برضا رہتے ہیں، سوچئے! خوب سوچئے! کیا یہ للہ ہے؟ کیا یہ اخلاص کے ساتھ ہے؟ کیا یہ قوم کے مفاد میں ہے؟

بات گرچہ کڑوی ہے؛ لیکن ہمیں اپنے گریبان میں منھ ڈال کردیکھنا ہی ہوگا، ہمیں اس تعلق سے سوچنا ہی ہوگا، اگرنہیں سوچیں گے توظاہرہے کہ دومتحارب گروپ وجود میں آئیں گے، جیساکہ اس وقت جھارکھنڈ میں آچکا ہے، پھردونوں میں زبانی اورقلمی جنگ چھڑے گی، جیساکہ اس وقت ہورہا ہے، پھرایک وقت آئے گا کہ ہاتھاپائی کی نوبت آجائے گی، جیسا کہ تبلیغی جماعت کے ساتھیوں میں ہوچکا ہے، خدارا! سوچئے! کیا یہ وقت آپسی انتشارکا ہے؟ کیا یہ وقت اختلاف کاہے؟ کیا یہ وقت قوم کودوگروہوں کے بانٹنے کاہے؟ یایہ وقت اتحاد کا ہے، یہ وقت اتفاق کا ہے، قوم کوجوڑے رکھنے کاوقت ہے؟ کیا گروہ علماء اور دانشوران قوم میں کوئی بھی ’’رجل رشید‘‘ نہیں ہے؟ یادرکھئے! آپ کی ہر حرکت پردشمن کی نظرہے، وہ آپ کے اس چپقلش سے بغلیں بجارہا ہے، وہ خوش ہورہا ہے اورتالیاں بجارہا ہے کہ ایسی قوم ہم سے مقابلہ کی صلاحیت نہیں رکھتی، ایسی قوم، جوجذباتی ہو، جوصم بکم عمی کی طرح اپنے ہم خیال آواز پرلپک پڑتی ہو، جس کواکساکرکبھی بھی کسی بھی رخ پر ڈالا جاسکتا ہو، ایسی قوم حقیقت میں ذہنی طورپرغلام ہی ہوتی ہے اورغلام ذہنیت رکھنے والی قوم آزاد مردوں سے مقابلہ نہیں کرسکتے۔

اس وقت اہل جھارکھنڈ کواورخصوصیت کے ساتھ علماء اوردنشوران قوم کو سوچنے اورفکرکرنے کی ضرورت ہے، اتحاد کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے، دواورچارخیموں میں بٹنے کی چنداں ضرورت نہیں، ہم توبارہا اس کا مشاہدہ کرچکے ہیں کہ سیاسی پارٹی کاایک فرد، اپنی قوم کافائدہ دیکھ کراپنے مخالف پارٹی کے حق میں بیٹھ جاتاہے، ہم تودین والے ہیں، ہم تودین کے نام پرلوگوں کوجمع کرتے ہیں، لوگوں سے دین کے نام پرچندہ کرتے ہیں، پھرہمیں کیا ہوجاتا ہے کہ ہم بے سوچے سمجھے قوم کے اثاثہ کوپانی کی طرح بہادیتے ہیں، اس وقت دو پروگرام ہورہے ہیں، عوام کے سامنے اس سے یہ بات کھل کر آگئی ہے کہ جب ان میں آپس میں نااتفاقی ہے توپھریہ اوقاف کا تحفظ کیسے کریں گے؟ پھراس پربھی غورکرنے کی ضرورت ہے کہ کیااس کی وجہ سے قوم کاسرمایہ ضائع نہیں ہورہا ہے؟ اسی سرمایہ سے کوئی اورکام کیا جاسکتاہے، بہرحال! اس وقت ہرپڑھے لکھے فردکے ذہن میں ایک ہی سوال ہے کہ: تحفظ اوقاف کی کوشش میں اختلاف:چہ معنی دارد؟؟؟

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی