لباس وپوشاک اورزیب وزینت میں تشبہ

لباس وپوشاک اورزیب وزینت میں تشبہ

لباس وپوشاک اورزیب وزینت میں تشبہ

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

آج کل بہت سارے امور ایسے ہیں، جو مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیرمسلم بھی انجام دیتے ہیں، یہ لباس وپوشاک میں بھی ہے اور دیگر زیب وزینت کے امور میں بھی، مثلاً:ساڑی، دھوتی، ٹائی، ہاتھ میں ڈوری، خواتین کے لئے سیندور، ٹکلی (بندی)، آنکھوں میں لینس وغیرہ کا استعمال تو اب سوال یہ ہے کہ ان امور کا کیا حکم ہوگا؟

اس سوال کے جواب سے پہلے یہ اصول سمجھ لیناچاہئے کہ ایسا لباس، جوساترہو، کسی دوسری قوم کےلئےاس طرح مخصوص نہ ہوکہ ان کے علاوہ لوگ استعمال ہی نہ کرتے ہوں، (مردوں کے حق میں)عورتوں سے مشابہ اور(عورتوں کے حق میں) مردوں مشابہ و مخصوص نہ ہو، اس رنگ کا نہ ہو، جس کی ممانعت وارد ہوئی ہو، ایساچست نہ ہوکہ مستور اعضاء نمایاں ہوجاتے ہوں، توایسے لباس کے استعمال میں حرج نہیں، اب ساڑی کا مسئلہ ہے، یہ کسی مخصوص قوم کالباس نہیں ہے؛ بل کہ علاقائی لباس ہے؛ اس لئے جن علاقوں میں یے مروج ہو، ان علاقوں میں اس کے استعمال میں حرج نہیں، استاذگرمی قدر حضرت مولاناخالدسیف اللہ رحمانی مدظلہ لکھتے ہیں: ’’ساڑی چوں کہ اب غیرمسلموں کامخصوص لباس باقی نہ رہا؛ بل کہ ہندوستان کے مشرقی اورجنوبی علاقوں میں عام طورپرمسلم خواتین بھی ساڑی پہنتی ہیں، لہٰذا مسلم خواتین ساڑی پہن سکتی ہیں‘‘۔(کتاب الفتاوی:۶ /۹۱)

مفتی اعظم ہندمفتی کفایت اللہ نوراللہ مرقدہ لکھتے ہیں: ’’جہاں مسلمان عورتوں کے لئے اپنے لباس میں ساڑھی داخل ہو، وہاں جائز ہے اورجہاں مسلمانوں میں ساڑھی مروج نہ ہو، صرف غیرمسلم عورتوں کے لباس میں داخل ہو، وہاں مکروہ ہے‘‘۔ (کفایت المفتی:۹ /۱۷۰)

دھوتی کا مسئلہ بھی ایساہی کچھ ہے، جہاں مسلمانوں میں مروج ہواور اس طرح لپیٹا جاتاہو کہ سترمکمل طورپرچھپ جاتاہو، وہاں اس کے پہننے کی گنجائش ہوگی اورجہاں ایسانہ ہوگا،وہاں گنجائش نہ ہوگی، مفتی کفایت اللہ ؒ لکھتے ہیں:’’دھوتی باندھنے کی وہ صورت، جس میںغیرمسلموں کی مشابہت ہو یا سترکھلا رہے یا کھلا رہنے کا احتمال ہو، ناجائزہے‘‘۔(کفایت المفتی:۹ /۱۶۷)

جہاں تک ہاتھ میں ڈوری باندھنے کی بات ہے تواس کی دوصورتیں ہیں:

۱)بطورتعویذ کے باندھے۔

۲) بلاضرورت باندھے۔

پہلی صورت میں اس وقت باندھنے کی گنجائش ہوگی، جب کہ قرآن پاک پڑھ کراس پردم کردیاگیاہواوربذات خوداس کو مؤثرحقیقی نہ سمجھاجاتا ہو؛ چنانچہ بنوری ٹاؤن کے ایک فتوی میں ہے:’’..... البتہ اگر کسی بھی رنگ کے دھاگے پر قرآنِ پاک پڑھ کر پھونکنے کے بعد اسے بطورِ تعویذ ہاتھ وغیرہ پر باندھا یا پہنا جائے تو یہ جائز ہوگا، لیکن جہاں اشتباہ ہو یا لوگوں کا عقیدہ خراب ہونے یا بدگمانی میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو تو اس سے اجتناب کرنا چاہیے‘‘۔ (https://www.banuri.edu.pk عنوان فتوی: کالے دھاگے پر قرآن پاک پڑھ کر پھونکنے کے بعد اسے پہننے یا ہاتھ وغیرہ پر باندھنے کا حکم)

رہی بات دوسری صورت کی، جیساکہ آج کل مزارات سے دھاگے لاکر باندھتے ہیں تواس کی گنجائش نہیں ہے، جس کی سب سے بڑی وجہ’’تشبہ بالغیر‘‘ ہے، ایک غیرمسلم بھی اپنے تیرتھ استھانوں سے اس طرح کے دھاگے لاکرباندھتے ہیں، دوسرے اس وجہ سے کہ غیروں کے ایک مذہبی تہوار ’’رکشابندھن‘‘ سے مشابہ ہے، اورحدیث میں اس جیسی مشابہت کومنع قراردیاگیا ہے؛ چنانچہ حدیث میں ہے: ليس منا من تشبه بغيرنا(سنن الترمذی، حدیث نمبر:۲۶۹۵)’’وہ ہم میں سے نہیں، جودوسرے مذہب والوں کی مشابہت اختیارکرے‘‘۔

یہاں یہ بات بھی یادرکھنے کی ہے کہ ہاتھ میں غیروں کی طرح دھاگہ باندھنے کارواج ہمارے خوش عقیدہ بھائیوں میں ہے؛ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ان کے یہاں بھی اس کی ممانعت کا فتوی دیاگیاہے؛ چنانچہ فتاوی مرکز تربیت افتاء میں ہے: ’’اجمیرشریف یا کسی بھی جگہ کادھاگہ ہاتھ میں باندھنا جائز نہیں کہ اس میں مشرکین سے مشابہت ہے وہ بھی اپنے تیرتھ استھانوں سے اسی قسم کے دھاگے لاکر باندھتےہیں نیز ان کا ایک تہوار رکشا بندھن ہے جس میں اسی قسم کے دھاگے باندھے جاتےہیں اور تشبہ بالغیر ناجائز وگناہ ہے‘‘۔( فتاوی مرکز تربیت افتاء: ۲ /۴۲۶)

اسی سے جڑاہوا ایک مسئلہ ہاتھ میں کڑا وغیرہ پہننے کا ہے تواس کی بھی دوصورتیں ہیں:

۱)پیتل تانبے کا کڑا بطورعلاج پہنے۔

۲) بلاضرورت بطورفیشن کے کڑا پہنے۔

پہلی صورت میں کڑا پہننے کی گنجائش اس صورت میں ہوگی، جب کہ اس کاکوئی متبادل نہ ہو، مثلاً: انگوٹھی سے کام نہ چلے؛ کیوں کہ علاج ایک انسانی ضرورت ہے اورضرورت کے وقت ممنوعات سے استفادہ کی گنجائش ہوتی ہے؛ چنانچہ اصولِ فقہ کا ایک اصول ہے: الضرورات تبیح المحظورات۔ (الأشباہ والنظائر:۲ / ۹۴)

جہاں تک دوسری صورت کا تعلق ہے تو’’مشابہت‘‘ کی وجہ سے اس کی گنجائش نہیں، ایک غیروں سے مشابہت ہے اوردوسرے عورتوں سے مشابہت ہے اوردونوں کی شریعت میں ممانعت وارد ہوئی ہے۔

سیندورغیروں کاخالص مذہبی رسم ہے؛ اس لئے مشابہت کی وجہ سے اس کااستعمال درست نہیں، نیزسیندورضرررساں بھی ہے؛ چنانچہ ویکی پیڈیا میں ہے:’’کیمیائی طور پر یہ پارہ یا سیسہ کے مرکبات سے بنا ہوتا ہے؛ اس لیے اسے خطرناک بھی تصور کیا جاتا ہے‘‘، جب کہ قرآن نے کہا ہے: لاتلقوا بأیدیکم إلی التہلکۃ(البقرۃ:۱۹۵)؛ البتہ ٹکلی(بندی) کے استعمال کی دوصورتیں ہیں:

۱)ہندوانہ عقیدہ (یعنی یہ تیسری آنکھ ہے اوراس کے ذریعہ سے وہ چیزیں بھی دیکھی جاسکتی ہیں، جوقدرتی آنکھوں سے نہیں دیکھی جاسکتی)کے ساتھ استعمال، تویہ درست نہیں۔

۲) مطلق زیب وزینت کے خیال سے استعمال، جیساکہ آج کل بہت ساری مسلم خواتین کرتی ہیں تواس کی گنجائش ہونی چاہئے، ایک تواس لئے کہ زیب وزینت کے طورپریہ معروف ہے اورالمعروف کالمشروط کااصول مسلم ہے، دوسرے اس لئے کہ اس کااستعمال عام ہے اورجب کسی چیز کااستعمال عام ہوجائے اورشرعی لحاظ سے اس کے اندرکوئی قباحت نہ ہو تواس کے استعمال کی گنجائش رہتی ہے۔

جہاں تک آنکھوں میں مختلف رنگوں کے لینس لگانے کی بات ہے تواس کی گنجائش ہے؛ کیوں کہ یہ ایک زینت کی شیٔ ہے اورشریعت کے خلاف بھی نہیں ہے؛ البتہ چندچیزوں کاخیال رکھناضروری ہے، جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بنوری ٹاؤن کے فتوی میں ہے:’’لینز اگر طبی اعتبار سے نقصان دہ نہ ہو، اور اس کو پہن کر نامحرموں کے سامنے زیب وزینت کا اظہار نہ کیا جائے، اور نہ فخر ومباہات  مقصود ہو ، اور نہ ہی فساق وفجار عورتوں کی نقالی کا قصد ہو تو  اس کا لگانا جائز ہے۔فقط واللہ اعلم‘‘(https://www.banuri.edu.pkعنوان فتوی: آنکھوں میں لینز لگانا)

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی