تہذیبی وقومی امورمیں تشبہ

تہذیبی وقومی امورمیں تشبہ

تہذیبی وقومی امورمیں تشبہ

(قسط :۱)
محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

اس عنوان کے تحت سب سے پہلا سوال ذہن میں یہ آتا ہے کہ تہذیب کا اطلاق کن چیزوں پرہوگا، جو مذہب کا حصہ نہیں سمجھی جائیں گی؟

اس کاجواب یے ہے کہ تہذیب عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے کئی معانی آتے ہیں:

(۱)کھجورکے درخت کی چھال اتارکرصاف کرنا(۲)کلام کومہذب وشائستہ بنانا۔

(۳)کتاب کوغیرضروری اضافات وزوائد سے پاک کرنا اور اس کی تلخیص کرنا۔

    (۴)بچہ کی اچھی تربیت کرنا، المعجم الوجیز میں ہے:(هذب) النخلة: نقّی عنها اللیف، والکلام: خلّصه مما یشینه عند البلغاء، ویقال: هذب الکتاب: حذف مافیه من حشو وفضول، والصبی: ربّاہ تربیة صالحة خالصة من الشوائب(المعجم الوجیز، ص:۶۴۷، المعجم الوسیط، ص:۹۷۹)

انگریزی میں اس کے لئےلفظ (Culture) استعمال ہوتا ہے، یہ لاطینی لفظ ہے، جس کے معنی ’’کاشت کاری اور زراعت‘‘ کے آتے ہیں، ایک مدت تک یہ لفظ اسی معنی میں مستعمل ہوتا رہا، پھر’’عقلی نشوونما‘‘ کے معنی میں استعمال ہوا، ۱۸۷۱ء میں ایڈورڈ برنٹ ٹیلور(Edward Burnett Tylor)نےاپنی کتاب (Primitive Culture) اس کی ایک جامع تعریف لکھی ہے، وہ لکھتے ہیں:

CULTURE or Civilization, taken in its wide ethnographic sense, is that complex whole which includes knowledge, belief, art, morals, law, custom, and any other capabilities and habits acquired by man as a member of society.(Primitive Culture,Chapter-1, P.No:16)

ثقافت یا تہذیب، اس کے وسیع معنوں میں وہ مرکب ہے، جس میں علم، عقیدہ، فن، اخلاق، قانون، رسم و رواج اور معاشرے کے ایک رکن کے طور پر انسان کی طرف سے حاصل کردہ دیگر صلاحیتیں اور عادات شامل ہیں۔

آج کل تہذیب کا جو معنی اور مفہوم ہے، وہ ایڈورڈ کی تعریف سے ملتا جلتا ہے؛ چنانچہ سرسید احمد خاں لکھتے ہیں: ’’اس سے مراد ہے انسان کے تمام افعال ارادی، اخلاق اور معاملات اورمعاشرت اورتمدن اور طریقۂ تمدن اورصرف اوقات اورعلوم اورہرقسم کے فنون وہنرکو اعلی درجہ کی عمدگی پر پہنچانا اوران کو نہایت خوش اسلوبی سے برتنا، جس سے اصلی خوشی اورجسمانی خوبی ہوتی اورتمکین ووقار اورقدرومنزلت حاصل کی جاتی ہے اوروحشیانہ پن اورانسانیت میں تمیز نظرآتی ہے‘‘۔(داستان تاریخ اردو،از:حامدحسن قاری، ص:۳۵۴)

عربی زبان آج اس تہذیب کے لئے لفظ ’’ثقافت‘‘ اورلفظ ’’حضارۃ‘‘ کا استعمال عام ہے اورموجودہ زمانہ کی تہذیب کے تعلق سے علامہ یوسف القرضاویؒ لکھتے ہیں: 

لکل حضارۃ جسم وروح، کالإنسان تماماً، فجسم الحضارۃ یتمثل فی منجزاتها المادیة من العمارات والمصانع  والآلات، وکل ماینبیٔ عن رفاهیة العیش ومتاع الحیاۃالدنیاوزینتها، أماروح الحضارۃ : فهومجموعة العقائد والمفاهیم والقیم والآداب والتقالید التی تتجسد فی سلوک الأفراد والجماعات وعلاقاتهم بعضهم ببعض، ونظرتهم إلی الدین والحیاۃ والکون والإنسان والفرد والمجتمع۔(الإنسان ومستقبل الحضارۃ:وجهة نظرإسلامیة، ص:۳۲۱)

’’انسانی جسم کی طرح ہر تہذیب کا ایک جسم ہوتا اور ایک روح ہوتی ہے، لہٰذا کسی تہذیب کا جسم اس کی عمارتوں، کارخانوں اور مشینوں کی مادی کامیابیوں اور ہر وہ چیز، جو زندگی کے آرام اور دنیاوی زندگی کی لذتوں کی نشاندہی کرتا ہے(وہ اس کا جسم ہے)،جہاں تک تہذیب کی روح کا تعلق ہے تووہ عقائد، تصورات، اقدار، آداب اور روایات کا وہ مجموعہ ہے، جو افراد اور گروہوں کے رویے، ان کے آپسی تعلقات، اور مذہب، زندگی، کائنات، انسان، فرد، اور معاشرہ کے بابت ان کے نقطۂ نظرمیں مجسم ہے‘‘۔

تہذیب کے مذکورہ ہیولیٰ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مذہب کا حصہ نہ سمجھی جانے والی تہذیب کا اطلاق’’مذہبی اموراورمذہبی شعارکے علاوہ ایجادات وانتظامات اورایسی عادت ومعاشرت اورایسا شعار، جواس قدررائج ہوجائےکہ وجہ امتیاز ختم ہوجائے‘‘پرہوگا۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی