حضورﷺ کی بعثت کے چنداہم مقاصد

حضورﷺ کی بعثت کے چنداہم مقاصد

حضورﷺ کی بعثت کے چنداہم مقاصد

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی


اس کائنات میں موجود ہرشیٔ کواللہ تعالیٰ نے کسی نہ کسی مقصد کے تحت وجود بخشا ہے، خواہ ہمیں وہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے، بے مقصدکسی بھی چیزکی تخلیق نہیں ہوئی ہے، خود اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے: وَمَا خَلَقْنَا السَّمَائَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا بَاطِلاََ۔ (ص:۲۷)’’ہم نے زمین، آسمان اوران کے درمیان کی چیزوں کو بے مقصد پیدا نہیں کیا‘‘، توانبیاء کرام علیہم السلام، جواللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات میں اشرف ترین مخلوق: انسانوں میں بھی اشرف، اعظم، اعلی اور ارفع ہے، انھیں کیوں کربے مقصد اس دنیا میں وہ بھیجتا؟پھر افضل الانبیاء حضرت محمدمصطفیﷺ کوبھی ظاہرہے کہ بے مقصداس دنیائے آب وگل میں نہیں بھیجا گیا، مقصد کے تحت بھیجا گیاہے، لہٰذا آیئے! ہم نبی کریم ﷺ کی بعثت کے چنداہم مقاصد کوقرآنی آیات واحادیث کی روشنی میں جانتے چلیں:

اللہ کومعبود ماننے کی دعوت

نبیوں کواس دنیا میں بھیجنے کاسب سے پہلامقصد یہ ہوتا ہے کہ راہ گم کردہ لوگوں کوواپس راہِ راست پرلایا جائے، انھیں بتایا جائے کہ اللہ ہی معبود حقیقی ہے، اس کے سواکوئی معبود نہیں، جن اشیاء کومعبود بنا لیا گیا ہے، وہ سب نیست ونابودہونے والی چیزیں ہیں، نبیوں کی پہلی دعوت یہی ہوتی تھی، سورۂ نحل میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں پرکئے ہوئے احسانات کوشمارکرنے کے بعد فرمایا:إِلَہُکُمْ إِلَہٌ وَاحِدٌ فَالَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُونَ بِالآخِرَۃِ قُلُوبُہُم مُّنکِرَۃٌ وَہُم مُّسْتَکْبِرُونَ(النحل:۲۲)’’تمہارا معبود تو اکیلا اللہ ہے تو جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، اُن کے دل اِنکار کر رہے ہیں اور وہ سرکش ہو رہے ہیں‘‘، یہی بات نبی کریم ﷺکی زبانی کہلائی گئی کہ:قُلْ إِنَّمَا یُوحَی إِلَیَّ أَنَّمَا إِلَہُکُمْ إِلَہٌ وَاحِدٌ فَہَلْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ(الأنبیاء:۱۰۸، الکہف:۱۱۰، فصلت:۶)’’کہہ دو کہ مجھ پر (اللہ کی طرف سے) یہ وحی آتی ہے کہ تم سب کا معبود اللہ واحد ہے تو تمہیں چاہئے کہ فرماں بردار ہو جاؤ‘‘، نبی کریم ﷺ نے اپنے اس مقصد کااعلان کوہِ صفا پرچڑھ کراول وہلہ میں ہی کردیا تھا، آپﷺ نے تمام لوگوں کوجمع کرکے فرمایا تھا: أیہا الناس! قولوا لاإلٰہ إلااللہ تفلحوا۔’’اے لوگو! لاالٰہ الااللہ کہہ لو، کامیاب ہوجاؤگے‘‘۔

اللہ کی عبادت کی دعوت

اس دنیا میں جتنے بھی نبی آئے، ان تمام کابنیادی مقصدیہ تھا کہ شیطان نے جن انسانوں کواللہ کی عبادت سے کاٹ کراپنی اوربتوں کی عبادت میں مشغول کردیاہے، انھیں اللہ کی عبادت کی طرف واپس لایاجائے، قرآن مجیدمیں فرمایاگیاہے: وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ أمَّۃِِ رَسُوْلاً أنِ اعْبُدُوْا اللّٰہَ۔(النحل:۳۶)’’ہم نے ہرقوم میں رسول بھیجا کہ (وہ اعلان کرے کہ) تم لوگ اللہ کی عبادت کرو‘‘، یہی کام نبی کریم ﷺ نے کیا، نبی کریم ﷺ کی بعثت کا ایک مقصد یہی تھا کہ لوگ ایک اللہ کی عبادت کرنے والے بن جائیں اورمعبودانِ باطل کی عبادت ترک کردیں؛ چنانچہ جب عبدالقیس کا وفدآپ کی خدمت میں حاضرہوا توآپﷺ نے جن چار باتوں کا انھیں حکم دیاتھا، ان میں سے پہلی بات ’’ایک اللہ کی عبادت‘‘ تھی، اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: آمرکم بأربع، وأنہاکم بأربع، اعبدوا اللہ ولاتشرکوا بہ شیئاً۔(صحیح مسلم، باب،حدیث نمبر:۲۶) ’’میں تمہیں چارچیزوں کاحکم دیتاہوں اورچار چیزوں سے روکتا ہوں: اللہ کی عبادت کرواوراس کے ساتھ کسی چیزکوشریک مت کرو‘‘۔

تلاوتِ آیات

نبی کریم ﷺکی بعثت کاایک اہم مقصد’’قرآنی آیات کی تلاوت‘‘ ہے، بعثت کے اس مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:ھُوَ الْذِیْ بَعَثَ فِیْ الأُمِّیِّیْنَ رَسُوْلاً مِنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِم آیَاتِہِ…(الجمعۃ:۲)’’وہی ہے، جس نے امیوں میں انھیں میں سے ایک رسول کوبھیجا، جوان پر قرآن کی آیات کی تلاوت کرتا ہے…‘‘، یہ مقصد بہت اہم ہے؛ بل کہ بعثت نبویﷺ کے اولین مقاصد میں سے ہے؛ کیوں کہ نبی کریم ﷺکوجس امت اورقوم کی طرف مبعوث کیاگیاتھا، وہ ’’امی‘‘ کے لقب سے معروف ہے، یعنی جسے نہ پڑھنا آتا تھا اورنہ لکھنا، ایسی قوم کواللہ تعالیٰ نے تعلیمی اعتبارسے بلند کرنے کا ارادہ فرمایا، یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نبیﷺ کے پاس جوسب سے پہلی وحی آئی، اس کا پہلا کلمہ ہی ’’اقرأ‘‘ ہے، تلاوتِ آیات کا پہلا مرحلہ’’اقرأ‘‘ ہے، پھر اس کے بعد دوسرا مرحلہ’’تلاوتِ آیات‘‘ ہے، یعنی ’’پڑھنا اور پڑھ کردوسروں کوسنانا‘‘، گویا نبی کریم ﷺ کی بعثت کے مقاصد میں سے یہ ہے کہ امت کو’’تعلیم وتعلم‘‘ اور’’درس وتدریس‘‘ سے جوڑا جائے، جوترقی کی پہلی منزل ہے۔

تزکیۂ نفس

رسول اللہﷺ کی بعثت کا ایک اہم مقصد’’تزکیۂ نفس‘‘ ہے، تزکیہ کے معنی’’پاک وصاف کرنے‘‘ کے آتے ہیں، یعنی انسانوں کے قلوب کے اندر کفروشرک، فسق وفجور، اثم و معصیت، بغض وعناد، حقد وحسد، کذب وغیبت اور بخل وطمع کی جوگندگیاں ہیں، ان کوکھرچ کرپھینک دیاجائے اورمصفی و مجلّٰی کردیاجائے؛ تاکہ فکروسوچ کے اندرنکھارپیدا ہو، بعثت کے اس مقصد کو قرآن مجید کی کئی آیات میں واضح کیاگیاہے؛ چنانچہ ایک جگہ ارشاد ہے:لَقَدْ مَنَّ اللّہُ عَلَی الْمُؤمِنِیْنَ إِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِہِمْ یَتْلُو عَلَیْْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَإِن کَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِیْ ضَلالٍ مُّبِیْنِِ(آل عمران:۱۶۴)’’اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا ہے کہ اُن میں انہیں میں سے ایک پیغمبر بھیجا جو اُن کو اللہ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتا اور ان کو پاک کرتا اور (اللہ کی) کتاب اور دانائی سکھاتا ہے، اور پہلے تو یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے‘‘، کئی احادیث میں بھی اس تزکیۂ نفس پرروشنی ڈالی گئی ہے؛ چنانچہ ایک حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے اس طرح دعا مانگی ہے:اللهم آت نفسی تقواها، وزکہها أنت خیرمن زکاها۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر:۲۷۲۲)’’اے اللہ! میرے نفس میں تقوی پیدا فرما اوراس کوپاک وصاف کردے، توبہترین پاک وصاف کرنے والا ہے‘‘، یہ تزکیۂ نفس بھی ’’اقرأ‘‘ اور’’یتلو آیاتہ‘‘ سے جڑا ہوا ہے کہ ان کے بغیر تزکیہ بہت مشکل ہے۔

تعلیمِ کتاب

رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا ایک مقصد’’تعلیم ِکتاب‘‘ بھی ہے، یعنی جس کتاب کی آیات کی تلاوت کرکے لوگوں کوسناتے ہیں، اسی کتاب کی تعلیم بھی لوگوں کودینا ہے، اس کے معانی اورمفاہیم کوواضح کرنا ہے، اس کی اجمال وابہام کو دور کرنا ہے، اس کے متنوں کی تفسیر کرنی ہے، مراد خداوندی کو سمجھانا اور آیاتِ قرآنی کی تشریح کرنی ہے؛ کیوں کہ یہ کتاب طاقوں میں سجانے کی چیز نہیں؛ بل کہ غوروفکرکرنے کی چیز ہے اورجب تک اس کی تعلیم نہیں دی جائے گی، غوروفکر درست طریقہ پرنہیں ہوسکتی، اس مقصد کوقرآن مجید کی کئی آیات میں بتایاگیا ہے؛چنانچہ ارشاد ہے:وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ (الجمعۃ: ۲)’’اوروہ انھیں کتاب(قرآن) کی تعلیم دیتا ہے‘‘، ظاہرہے کہ یہ تعلیم کتاب ’’تدبرقرآن‘‘ کے لئے ہے؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:أَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ القُرْآنَ(النساء:۸۲) ’’کیا وہ لوگ قرآن میں غورنہیں کرتے‘‘، نیزتعلیم کتاب کاایک بہترطریقہ عملی تطبیق بھی ہے؛ چنانچہ قرآن کاحکم ہے:أَقِیْمُوْا الصَّلوٰۃَ(نماز قائم کرو)؛ لیکن کہیں قرآن میں اس اقامتِ صلاۃ کا طریقۂ کارمذکورنہیں، یہ نبی ﷺ کے عمل سے معلوم ہوا کہ اقامت صلاۃ کاطریقہ کیاہے؟

تعلیمِ حکمت

نبی کریم ﷺ کی بعثت کا ایک اہم مقصد’’تعلیم حکمت‘‘ بھی ہے، اب سوال ہے کہ حکمت کسے کہتے ہیں: علامہ آلوسیؒ نے اس کی کئی تفسیریں لکھی ہیں:(۱) حقائق الکتاب ودقائقہ: یعنی کتاب اللہ کے اسرارورموزاورحقائق ومعارف- (۲) السنۃ المبینۃ: دوسری تفسیریہ ہے کہ اس سے مراد آپ ﷺ کی سنت ہے کہ کتاب اللہ کواس سے مستغنی ہوکرسمجھا نہیں جاسکتا- (۳)الفقہ فی الدین: یعنی اس سے مراد تفقہ فی الدین(دین کی سمجھ) حاصل کرنا ہے، جوایمان کے بعد سب سے بڑی دولت ہے- (۴) ماتکمل بہ النفوس: یعنی اس سے مرادوہ علوم ہیں، جن کی وجہ سے انسانوں کے نفوس مطیع وفرماں بردار بن جائیں اوریہ اسی وقت ہوسکتا ہے، جب اللہ کی معرفت حاصل ہوگی- (۵) وضع الشیٔ مواضعہا: یعنی حکمت یہ ہے کہ ہرچیز کواس کی درست جگہ پررکھا جائے(روح المعانی:۱/ ۳۸۷)، حکمت کی تمام تفاسیر ایک ساتھ بھی مراد لے سکتے ہیں، گویااللہ کے رسولﷺ کی بعثت کا ایک اہم مقصد’’کتاب اللہ کے اسرارو رموزاورحقائق ومعارف بیان کرنا، کتاب اللہ کوسمجھنے کے لئے سنت کی طرف رجوع کرنا، تفقہ فی الدین کی تعلیم دینا، انسانوں کوایسے علوم سے آراستہ کرنا، جوانھیں معرفتِ خداوندی سے روشناس کرادے اورہرچیزکواس کی صحیح جگہ پر رکھنے کی تعلیم دینا‘‘وغیرہ ہے۔

تاریکی سے روشنی کی طرف نکالنا

رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا ایک اہم مقصدیہ بھی ہے کہ لوگوں کوتاریکی سے روشنی کی طرف نکالیں، یہ تاریکی کفرو شرک کی تاریکی، گناہ ومعصیت کی تاریکی، بغض وعناد کی تاریکی، کذب وبہتان کی تاریکی وغیرہ ہیں، ان تاریکیوں سے لوگوں کونکال کرایمان واسلام کی روشنی، نیکی وصلاح کی روشنی، محبت والفت کی روشنی اورصدق وصفا کی روشنی کی طرف لانا ہے، قرآن مجید نے اس کواس طرح بیان کیا ہے: رَسُولاً یَتْلُو عَلَیْْکُمْ آیَاتِ اللَّہِ مُبَیِّنَاتٍ لِّیُخْرِجَ الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ(الطلاق:۱۱)’’(اوراپنے) پیغمبر(بھی بھیجے ہیں)جو تمہارے سامنے اللہ کی واضح المطالب آیتیں پڑھتے ہیں تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور عملِ نیک کرتے رہے ہیں ان کو اندھیرے سے نکال کر روشنی میں لے آئے‘‘۔

عدل وانصاف

نبی کریم ﷺ کوکی بعثت ایک ایسے معاشرہ میں ہوئی، جہاں طاقت ور، کمزوروں کوکھاجانے کی کوشش کرتاتھا، لہٰذا بعثت نبوی کا ایک مقصد یہ بھی قرار پایا کہ لوگوں کے مابین عدل وانصاف کے ساتھ فیصلے کئے جائیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَیْْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاکَ اللّہُ وَلاَ تَکُن لِّلْخَآئِنِیْنَ خَصِیْماً(النساء:۱۰۵)’’(اے پیغمبر!)ہم نے تم پر سچی کتاب نازل کی ہے؛ تاکہ اللہ کی ہدایات کے مطابق لوگوں کے مقدمات کا فیصلہ کرو اور (دیکھو) دغا بازوں کی حمایت میں کبھی بحث نہ کرنا‘‘، یہ وہ مقصدہے، جس نے دبے کچلے لوگوں کوان کاجائزحق دلایا، ورنہ حقدار کوحق کہاں ملتا تھا؟

تبشیروانذار

رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا ایک مقصدان لوگوں کوخوش خبری سناناہے، جواللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے احکام پرعمل پیرا ہوتے ہیں اورجولوگ ان احکام سے روگردانی کرتے ہیں، ان کو دردناک عذاب سے ڈراناہے؛ تاکہ وہ حق کے راستے کوچن سکیں، اللہ تعالیٰ کاارشادہے:وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا مُبَشِّراً وَنَذِیْرا(الفرقان:۵۶) ’’اور ہم نے آپ کو خوش خبری سنانے اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا‘‘، دوسری جگہ ہے:وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا کَافَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْراً وَنَذِیْراً وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُون(سبأ:۲۸) ’’اور (اے محمد ﷺ!) ہم نے تم کو تمام لوگوں کے لئے خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے‘‘۔

اتمامِ حجت

نبی کریم ﷺ کی بعثت ایک مقصدیہ بھی ہے کہ لوگوں پراتمام حجت کردی جائے؛ تاکہ لوگ قیامت کے دن یہ عذرپیش نہ کرسکیں کہ ہم تو ناواقف تھے، ہمیں کسی نے کبھی تنبیہ نہیں کی، ہمیں کسی نے بتایا ہی نہیں کہ ایک اللہ کی عبادت کرنی ہے، اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:رُسُلاً مُّبَشِّرِیْنَ وَمُنذِرِیْنَ لِئَلاَّ یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّہِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَکَانَ اللّہُ عَزِیْزاً حَکِیْماً(النساء:۱۶۵)’’خوش خبری سنانے اورڈرانے والے رسول (بھیجے)؛ تاکہ رسولوں کے بعد لوگوں کے لئے اللہ پرحجت ہوجائے اوراللہ زبردست حکمت والاہے‘‘، لہٰذا رسولوں کی آمد کے ساتھ حجت تمام ہوچکی ہے، اب کوئی عذر قابل قبول نہ ہوگا۔

محاسن اخلاق کی تکمیل

آپ ﷺ کی بعثت کا ایک اہم مقصد ’’محاسن اخلاق کی تکمیل‘‘ ہے؛ کیوں کہ یہی وہ چیزہے، جوانسان کوانسانیت کے اعلی مقام پرفائز کرتی ہے، اس کے اندرتمام طرح کے خیرو صلاح، دینداری، فضل ومروء ت اوراحسان وعدل داخل ہوجاتے ہیں، اسی لئے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:بعثت لأتمم حسن الأخلاق۔(المؤطا للإمام مالک، حدیث نمبر:۲۶۵۵)’’حسن اخلاق کی تکمیل کے لئے مجھے بھیجاگیا ہے‘‘، دوسری حدیث میں ہے: إنما بعثت لأتمم صالح الأخلاق۔(جامع الأحادیث للسیوطی، حدیث نمبر:۸۸۹۱) ’’میں اچھے اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجاگیا ہوں‘‘۔

یہ ہیں وہ بنیادی مقاصد، جن کی تکمیل کے لئے اللہ کے رسول ﷺ کواس دنیا میں مبعوث کیاگیا، اب نبی کی امت کوبھی چاہئے کہ وہ ان امورکی انجام دہی میں اپنے آپ کولگائے اوراس کے لئے کسی ملامت گرکی ملامت کی پرواہ نہ کرے، اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے، آمین!

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی