واستو کی رعایت اوردروزہ وگاڑی پرلیمو اور مرچ لگانا

واستو کی رعایت اوردروزہ وگاڑی پرلیمو اور مرچ لگانا

واستو کی رعایت اوردروزہ وگاڑی پرلیمو اور مرچ لگانا

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی


آج کل بہت سارے لوگ مکانات کی تعمیر میں ہندوؤں کے تصور کے مطابق واستو کی رعایت کرتے ہیں، اسی طرح مکان کے دروازوں اورنئی خریدی گئی گاڑیوں پرلیموں اور مرچ کا ہار بنا کرلٹکاتے ہیں،تو کیایہ سب تشبہ میں داخل ہوگا؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہمارے ملک کے غیرمسلموں کے اندرتوہم پرستی ، سعد ونحس اور بدشگونی وغیرہ سب سے زیادہ پائی جاتی ہے اور ان کے درمیان رہتے رہتے دینی تعلیم سے محروم مسلمان بھی ان باتوں کے شکارنظرآتے ہیں،انھیں توہم پرستی میں سے مکانات کی تعمیرمیں واستوکی رعایت ، مکان کے دروازوں اور نئی خریدی گئی گاڑیوں پرلیموں اور مرچ کاہاربناکرلٹکانابھی ہے، ظاہرہے کہ یہ امور خالص ہندوانہ توہمات میں سے ہے، جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، اللہ کےرسولﷺ نےواضح طورپرفرمایاہے کہ نحوست اگرہوتی توتین چیزوں میں ہوتی:

إِنَّمَا الشُّؤْمُ فِي ثَلَاثَةٍ: فِي الْفَرَسِ وَالْمَرْأَةِ وَالدَّارِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر:۲۸۵۸)۔

نحوست تین چیزوں میں ہوتی ہے: گھوڑے میں، عورت میں اورگھر میں۔

لیکن چوں کہ نحوست کوئی چیز ہی نہیں ہے؛ اس لئے ان تین چیزوں میں بھی نہیں ہے؛ چنانچہ مسند احمدکی روایت میں ہے:

إن يك من الشؤم شيء حق ففي المرأة والفرس والدار(مسنداحمد، حدیث نمبر: ۵۵۷۵) 

اگرنحوست ہوتی توعورت، گھوڑے اورگھر میں ہوتی۔

ایک مسلمان کوان توہمات سے پاک رہناچاہئے اورتمام امورمیں مؤثرحقیقی اللہ تعالیٰ کوسمجھناچاہئے، قرآن مجیدنے اس کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا:

وَإِن يَمْسَسْكَ اللّهُ بِضُرٍّ فَلاَ كَاشِفَ لَهُ إِلاَّ هُوَ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلاَ رَآدَّ لِفَضْلِهِ يُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ.(يونس:107)

اور اگر اللہ تمہیں کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اسے دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تمہارے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمائے تو کوئی اس کے فضل کو ردّ کرنے والا نہیں۔ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اپنا فضل پہنچاتا ہے، اور وہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔

اسی طرح دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُواْ عَن كَثِيرٍ.(الشُّوْرٰی: 30)

اور جو مصیبت بھی تم کو پہنچتی ہے تو اُس (بد اعمالی) کے سبب سے ہی (پہنچتی ہے) جو تمہارے ہاتھوں نے کمائی ہوتی ہے حالانکہ بہت سی(کوتاہیوں) سے تو وہ درگزر بھی فرما دیتا ہے۔

ایک اورآیت میں ہے:

مَا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّهِ وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِكَ.(النساء:79) (اے انسان! اپنی تربیت یوں کر کہ) جب تجھے کوئی بھلائی پہنچے تو (سمجھ کہ) وہ اللہ کی طرف سے ہے (اسے اپنے حسنِ تدبیر کی طرف منسوب نہ کر)، اور جب تجھے کوئی برائی پہنچے تو (سمجھ کہ) وہ تیری اپنی طرف سے ہے (یعنی اسے اپنی خرابئ نفس کی طرف منسوب کر)۔

نیز حدیث میں ہے، اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:

لاَ عَدْوَى، وَلاَ طِيَرَةَ، وَيُعْجِبُنِى الْفَأْلُ، قَالُوا: وَمَا الْفَأْلُ؟ قَالَ: كَلِمَةٌ طَيِّبَةٌ.(صحيح البخاری، کتاب الطب، باب الطير:5776)

چھوت لگناکوئی چیزنہیں اور بدشگونی (کی کوئی حقیقت) نہیں ہے؛ البتہ نیک فال مجھے پسندہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نےعرض کیا: نیک فال کیا ہے؟ حضوراکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اچھی بات منہ سے نکالنا یا کسی سے اچھی بات سن لینا۔

ان تمام آیات واحادیث سے معلوم ہوا کہ مؤثربالذات حقیقی طورپراللہ ہے، اب اگرکوئی دوسری چیز کومؤثر سمجھے تواس میں شرک بھی ہے، اورشرک تشبہ سے بھی بڑھ کرگناہ ہے؛ اس لئے ان جیسی چیزوں سے بچناضروری ہے۔ 

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی