مے خانہ سے مسجد تک

مے خانہ سے مسجد تک

مے خانہ سے مسجد تک

(ایک نوجوان کی حقیقی کہانی، جس میں ہمارے لئے درس عبرت ہے)

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

وہ بار(BAR)میں ملازم تھا، خوش تھا، مگن تھا، دنیاجہان سے غافل تھا، اپنی زندگی میں مست مولیٰ تھا، باربھی کہاں کا؟ بیچوں(Beaches) کے لئے مشہور، ہندوستان کا خوبصورت علاقہ، جہاں کا نام سن کرہی شباب وشراب اورکباب کے رسیا افراد کے منھ میں پانی آجاتا ہے ، جہاں کی سڑکوں پرجوانی ابلتی ہوئی نظر آتی ہے، جہاں کے حسن وجمال سے لطف اندوز ہونے کے لئے ہندوستان کے ہی نہیں؛ بل کہ بیرونِ ہند کے سیاح بھی آتے ہیں، لطف اندوز ہوتے ہیں، اچھل کود کرتے ہیں، دھماچوکڑی مچاتے ہیں، خرمستیاں کرتے ہیں،سی فوڈسے کام ودہن کی شکم سیری کے ساتھ ساتھ چشمۂ زہارسے بھی سیرابی حاصل کرتے ہیں، عام نظریہ تویہی ہے کہ یوروپ اورگوا میں کوئی خاص فرق نہیں ہے؛ لیکن ظاہرہے کہ تشبیہ ضمنی ہے، ورنہ فرق توبہت کچھ ہے، سب سے بڑا فرق تویہی ہے کہ یہ’’بھارت ‘‘ میں ہے۔

یہاں کے بارمیں وہ چائنیز فوڈ بناتا تھا، لوگوں کو سرو کرتا تھا، کھلاتاتھا، کماتاتھا، اڑاتاتھا، بارمیں آنے والی حسیناؤوں کی ننگی ٹانگیں؛ بل کہ برہنہ جسم سے محظوظ ہوتاتھا، آنکھوں کی راستے سے دل تک کوسرور پہنچاتا تھا، پھرقسمت اسے ’’یاجوجی ماجوجی‘‘ شہر’’ممبئی‘‘ لے آئی، جہاں کی چکا چوند ملک ہی میں نہیں؛ بل کہ ملک کے باہربھی مشہورہے، اس کی آنکھیں بھی چندھیاگئیں اوروہ بھی یہاں کی رنگینیوں میں گم ہوگیا، آنکھوں میں غفلت کا اوزونی پردہ پڑارہا اوروہ اپنے مالک وخالق سے غافل رہا، یہی سلسلۂ روزوشب سالوں تک چلتا رہا، پھرایک دن وہ بیمارہوا توگھرکی دہلیزیادآئی، ماں کی آغوش نے اسے اپنی طرف کھینچا اورپھروہ چکاچونداوررنگینی سے نکل کراپنی جائے پیدائش واپس پلٹ آیا اوریہیں پرسامانِ زندگی کے لئے تگ ودوکرنے لگا، پھر…

پھرگھڑی وہ آئی، جس نے ملک ہی کونہیں؛ بل کہ پوری دنیاکوایک قیدخانہ میں تبدیل کردیا، ہوکاعالم، اللہ رے سناٹا، آواز نہیں آتی، مذہبی لوگوں نے خیال کیاکہ بس اب قیامت آچکی ہے، نفسانفسی کاعالم ہے،راستے بند، گاڑیاں بند، ہوائی جہاز کا سفرممنوع ،ملنا جلنا، سلام مصافحہ سب بند، کلام بھی دور دور سے، افغان شاعرامیرجان صبوری کانغمہ پڑھا جانے لگا:

شہرخالی، جادہ خالی، کوچہ خالی، خانہ خالی

جام خالی، سُفرہ خالی، ساغر و پیمانہ خالی

کوچ کردہ، دستہ دستہ، آشنایان، عندلیبان

باغ خالی، باغچہ خالی، شاخہ خالی، لانہ خالی

اعظم ندوی نے ا س گھڑی کی کچھ تصویرکشی اس طرح کی ہے:

تھم گئی دنیا، سہم کررہ گئی طاقت تمام

اس بلائے جاں سے ہے اک سرگرانی آج کل

ہوگئیں خالی جہازوں سے فضائیں چار سو

ریل محرومِ تماشائے روانی آج کل

یہ کورونا کا زمانہ فتنہ ساماں ہوگیا

مردِ مؤمن پر نگاہِ ’’زعفرانی‘‘ آج کل

ایسے زمانہ میں کچھ اللہ کے بندے، جوبہت ساروں کی طرح کورونا کی وجہ سے اپنے گھرنہیں جاسکے تھے، ان کی ملاقات اس جوان سے ہوئی، یہ بار کاملازم، جسے دین کی نہ سمجھ تھی، نہ دین کی تعلیم، اس جوان کودین سمجھاناشروع کیا، کہتے ہیں کہ کورونا نے جہاں بہت ساروں کواجاڑا، وہیں بہت ساروں کوسدھارا ، انھیں سدھرنے والوں میں یہ دبلاپتلا، کام کی دھن کاپکا، جوان بھی تھا، اسے بھی اب سمجھ آنے لگاکہ اب تک کی جورنگین زندگی تھی، وہ دراصل رنگین نہیں؛ بل کہ شب دیجورکی طرح تاریک تھی اوراگراس تاریکی کودورنہ کیا گیا توبعدکی زندگی تاریک ترین ہوجائے گی، اب اس نے کچھ دین سیکھنا شروع کیا، نمازکاطریقہ سیکھا، پھرنماز کا پابند بنا، پنچ وقتہ نماز جماعت کے ساتھ اداکرنے والابن گیا، رات گزارنے کے لئے اس نے مسجد کا انتخاب کیا، رات مسجد میں گزرتی، تہجدکے لئے وہ بیدارہوتا، اللہ کے سامنے سجدہ ریز رہتا،اللہ سے اپنی سابقہ زندگی کی معافی مانگتا، جب دین کی سمجھ آئی توحلال کمائی پربھی توجہ ہوئی، کوئی کام شروع کرنے سے پہلے علماء سے مشورہ کرتا۔

آج کے سائنسی ترقی کے زمانہ میں نہ جانے کتنے ایپ نکل آئے ہیں، جہاں قماراورجواکی شکل میں پیسے بنائے جاتے ہیں، بہت سارے جوان ان میں پیسے لگاتے ہیں، پھرکماتے بھی ہیں اورگنواتے بھی ہیں، دوسروں کوبھی اس میں جوڑتے ہیں، ’’ہم توڈوبے ہیں، تم کوبھی لے ڈوبیں گے‘‘ پرعمل پیراہوتے ہیں، اس نوجوان نے اس طرح کے ایپ میں پیسے لگانے سے قبل علماء سے مشورہ کرنا ضروری سمجھا، دودن کے بعدہی پتہ چلا کہ جتنے لوگوں نے اس ایپ میں رقم لگائی تھی، ان سب کے ہاتھ سے طوطے اڑگئے ہیں اوریہ نوجوان ان علماء کا شکرگزارہوا، جنھوں نے پیسے لگانے سے منع کیا تھا۔

جب دین سے تعلق ہواتوعلماء سے بھی تعلق خاطر ہوا، قریب کے مدرسہ کے طلبہ سے بھی محبت پیداہوئی، اٹھنابیٹھنا انھیں کے ساتھ ہونے لگا، ظاہر ہے کہ اس کااثراس کی زندگی پرپڑا؛ کیوں کہ خود حدیث میں ہے:’’نیک اوربرے دوست کی مثال مشک بیچنے والے اوربھٹی پھونکنے والے کی مانند ہے، مشک بیچنے والا یاتوتمہیں تحفۃً عطردے گا، یا تم خریدوگے یا پھروہاں جاکراچھی خوشبوملے گی، جب کہ بھٹی پھونکنے والے کے پاس جانے سے یاتوتمہارا کپڑا جلے گا، یاپھربدبوناک میں جائے گی‘‘(متفق علیہ)، اس نے حتی المقدور دین پرچلنے کی کوشش کی، گویا فرمان نبیﷺ اس پرصادق آیا کہ:(ایک)بندہ دوزخ میں لے جانے والا کام کرتارہتا ہے؛ حالاں کہ وہ خوداہل جنت میں سے ہوتا ہے، (جب کہ دوسرا)بندہ جنت والے کام کرتا رہتاہے؛ حالاں کہ وہ اہل جہنم میں سے ہوتا ہے، اعمال کا اعتبار خاتمہ پرہوتاہے‘‘(مسنداحمد)۔

اللہ تعالیٰ نے اس نوجوان کواہل جنت کی فہرست میں لکھ رکھا تھا، اسی لئے آخری وقت میں اسے اہل جنت کے اعمال کی توفیق دی، ورنہ کون کہہ سکتا تھاکہ ایک بارکاملازم ، مے خانہ سے مسجد کی طرف لوٹ کرآئے گا؛ لیکن یہ توبس توفیق الٰہی ہے، وہ جسے چاہتا ہے، دیتا ہے اورجسے دیتاہے، وہ کامیاب ہوجاتا ہے، یہ نوجوان اب اس دنیامیں نہیں رہا؛ لیکن اپنے پیچھے ہمارے لئے درس عبرت چھوڑ گیاکہ اپنے اعمال پرنہ اتراؤ اورکسی کے برے عمل کودیکھ کر اس سے نفرت نہ کرو، کہیں ایساتونہیں کہ وہ اہل جنت میں سے ہو؟ یہ نوجوان کوئی اور نہیں؛ ’’ہمارے سلیم بھائی‘‘(کنڈلور، کرناٹک) ہیں، یہ کہانی ان کی زندگی کی حقیقت پرمبنی کہانی ہے، چندماہ کی بیماری کے بعدوہ ۴/ ستمبر ۲۰۲۴ء کوہم سے رخصت ہوگئے اوراس دنیامیں جاپہنچے، جہاں جانے کے بعدکوئی واپس نہیں آتا ہے، اللہ ان کی مغفرت فرمائے، ان کے نیک اعمال کوقبول فرمائے، ان کے سیئات کو حسنات میں مبدل فرمائے، آمین یارب العالمین!

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی