شعائردین كسے کہتے ہیں؟

شعائردین كسے کہتے ہیں؟

شعائردین كسے کہتے ہیں؟

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی


ایک اہم سوال یہ ہے کہ شعائردین سے کیا مرادہے؟ کیوں کہ شعارکی خصوصی اہمیت ہے اورجوباتیں دوسری قوموں کے مذہبی شعارمیں شامل ہوں، ان کواختیارکرنا تشبہ کی سنگین صورت ہے، جیسے آج کل بہت سے تعلیمی اداروں میں وندے ماترم پڑھوایا جاتاہے، بائبل یا گیتا سے دعائیہ کلمات پڑھوائے جاتے ہیں، سرسوتی نامی دیوی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر سلام کیا جاتا ہے، پیشانی پرمسلمان لیڈرس بھی قشقہ لگواتے ہیں، ہندودیویوں اوردیوتاؤں کے نام کے نعرے لگوائے جاتے ہیں، مشنری اسکولوں میں ان کے عقائد کے مطابق حضرت مسیح کے سامنے ہاتھ جوڑکرکھڑاہواجاتا ہے یاکسی قدر سرجھکایاجاتا ہے، کیایہ سب شعائر کفرمیں داخل ہیں؟

اس سوال کے جواب کے لئے ہم لغوی تعریف سے شروع کریں گے؛ چنانچہ ’’شعائر‘‘جمع ہے’’ شعیرۃ ‘‘کی،اس کے کئی معنی بیان کئے گئے ہیں:

۱)علامت۔

۲)بیت اللہ کوبھیجے جانے والے ہدی کے جانور۔

۳)شریعت کے مامورات۔المعجم الوسیط میں ہے:(الشعیرۃ): ماندب الشرعُ إلیه وأمر بالقیام به، والبدنة ونحوها مما یهدی لبیت الله، والعلامة، (ج) شعائر(المعجم الوسیط، ص:۴۸۵،النهایة فی غریب الأثر، ص: ۴۸۲)

۴)حج کے خالص افعال اورمناسک، فیومی لکھتے ہیں:(الشعائر) أعلام الحج وأفعاله الواحدۃ(المصباح المنیرللفیومی، ص:۳۱۵)، لسان العرب میں ہے: وشعارالحج: مناسکه وعلاماته وآثارہ وأعماله(لسان العرب، ص:۲۲۷۶)

۵)ہروہ چیز، جسے اللہ کی اطاعت کی نشانی قراردی جائے، لسان میں ہے:وکل ماجعل عَلَماً لطاعة الله عزوجل،کالوقوف، والطواف، والسعی،والرمی،والذبح وغیرذلك(لسان العرب،ص:۲۲۷۶)، ماہر لغت ازہری لکھتے ہیں: وقال الزجاج: شعائر الله یعنی بها جمیع متعبدات الله التی أشعرها الله، أی جعلها أعلاماً لنا، وهی کل ماکان من موقف، أومسعیً، أوذبح، وإنماقیل شعائرالله لکل علم مماتعبد به؛ لأن قولهم شعرت به: علمته، فلهذا سمیت الأعلام التی هی متعبدات الله شعائر(تهذیب اللغة: ۱ /۴۱۷،أحکام القرآن للجصاص:۳ /۳۱۵)، البحرالمدید میں ہے:و{شعائر الله}:أعلام دينه، جمع شعيرة أو شعارة، والشعيرة: كل ما كان معلماً لقربان يتقرب به إلى الله تعالى، من دعاء أو صلاة أو أداء فرض أو ذبيحة.(البحرالمدید:۱/ ۱۸۸)

ابن عربی نے بھی تین قول نقل کئے ہیں: الْمَسْأَلَةُ الْأُولَى {شَعَائِرَ}: وَزْنُهَا فَعَائِلُ، وَاحِدَتُهَا شَعِيرَةٌ؛ فِيهَا قَوْلَانِ: أَحَدُهُمَا: أَنَّهُ الْهَدْيُ.الثَّانِي: أَنَّهُ كُلُّ مُتَعَبَّدٍ؛ مِنْهَا الْحَرَامُ فِي قَوْلِ السُّدِّيِّ، وَمِنْهَا اجْتِنَابُ سَخَطِ اللَّهِ فِي قَوْلِ عَطَاءٍ. وَمِنْهَا مَنَاسِكُ الْحَجِّ فِي قَوْلِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَمُجَاهِدٍ. (أحکام القرآن لابن العربی: ۲ /۱۹)

عطابن أبی رباح کہتے ہیں: اس سے مراد تمام مامورات اورتمام منہیات ہیں:قال عطاء بن أبي رباح "شعائر الله" جميع ما أمر به أو نهى عنه وهذا هو القول الراجح الذي تقدم(المحررالوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز، برتفسیر سورۂ مائدہ:۲:۱ /۱۴۶)

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اس بابت رقم طراز ہیں:

وأعنی بالشعائرأموراً ظاهرۃ محسوسة جعلت لیعبد الله بها، واختصت به حتی صار تعظیماً عندهم تعظیماً لله، والتفریط فی جنبها تفریطاً فی جنب الله، ورکِّزذلك فی صمیم قلوبهم لایخرج منه إلا أن تقطع قلوبهم(حجة اللہ البالغة، باب تعظیم شعائر اللہ:۱/ ۱۳۳)’’میرے نزدیک شعائر سے وہ محسوس اور ظاہری امورمراد ہیں، جواللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے خاص ہیں؛ بل کہ ان کی تعظیم، اللہ کی تعظیم اوران میں کوتاہی، اللہ کے ساتھ کوتاہی متصورہوتاہےاوریہ چیز ان کے دلوں میں اس طرح رچ بس گئی ہوکہ دل کے ٹکڑے ہونا گواراہو؛ لیکن یہ نہ نکلیں‘‘۔

مفتی شفیع دیوبندیؒ لکھتے ہیں:’’شعائر شعیرۃ کی جمع ہے، جس کے معنی علامت کے ہیں، جوچیزیںکسی خاص مذہب یاجماعت کی علامات خاص سمجھی جاتی ہوں، وہ اس کے شعائر کہلاتے ہیں، شعائر اسلام ان خاص احکام کانام ہے، جوعرف میں مسلمان ہونے کی علامت سمجھے جاتے ہیں، حج کے اکثراحکام ایسے ہی ہیں‘‘۔ (معارف القرآن، سورہ حج:۳۲: ۶ /۲۶۳)

مولانامودودیؒ اس کی مزیدوضاحت کرتے ہوئےرقم طراز ہیں:’’ہر وہ چیز جو کسی مسلک یا عقیدے یا طرز فکر و عمل یا کسی نظام کی نمائندگی کرتی ہو وہ اس کا ”شعار“ کہلائے گی، کیوں کہ وہ اس کے لیے علامت یا نشانی کا کام دیتی ہے۔ سرکاری جھنڈے، فوج اور پولیس وغیرہ کے یونیفارم، سکے، نوٹ اور اسٹامپ حکومتوں کے شعائر ہیں اور وہ اپنے محکوموں سے، بل کہ جن جن پر ان کا زور چلے، سب سے ان کے احترام کا مطالبہ کرتی ہیں۔ گرجا اور قربان گاہ اور صلیب مسیحیت کے شعائر ہیں، چوٹی اور زنار اور مندر برہمنیت کے شعائر ہیں، کیس اور کڑا اور کرپان وغیرہ سکھ مذہب کے شعائر ہیں، ہتھوڑا اور درانتی اشتراکیت کا شعار ہیں، سواستیکا آریہ نسل پرستی کا شعار ہے، یہ سب مسلک اپنے اپنے پیرووں سے اپنے ان شعائر کے احترام کا مطالبہ کرتے ہیں، اگر کوئی شخص کسی نظام کے شعائر میں سے کسی شعار کی توہین کرتا ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ دراصل اس نظام کے خلاف دشمنی رکھتا ہے، اور اگر وہ توہین کرنے والا خود اسی نظام سے تعلق رکھتا ہو تو اس کا یہ فعل اپنے نظام سے ارتداد اور بغاوت کا ہم معنی ہے، ”شعائر اللہ“ سے مراد وہ تمام علامات یا نشانیاں ہیں جو شرک و کفر اور دہریت کے بالمقابل خالص خدا پرستی کے مسلک کی نمائندگی کرتی ہوں، ایسی علامات جہاں جس مسلک اور جس نظام میں بھی پائی جائیں مسلمان ان کے احترام پر مامور ہیں، بشرطیکہ ان کا نفسیاتی پس منظر خالص خدا پرستانہ ہو، کسی مشرکانہ یا کافرانہ تخیل کی آلودگی سے انہیں ناپاک نہ کردیا گیا ہو۔ (تفہیم القرآن:۱/ ۴۳۸)

ان تمام اقوال کوسامنے رکھنے سے شعائر کی یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ اس سے مراد:’’کسی بھی قوم، مذہب، جماعت اورملک کی ایسی خاص علامت، عقیدہ، منہج وطرزفکراور نظام، جس سےایسی خصوصیت اورامتیازنمایاں ہو، جودوسرے سےممتازکردے، تووہ شعائرکہلائیں گے‘‘۔

اس لحاظ سے سوال میں مذکورسارے اموروہ ہیں، جوکسی نہ کسی مذہب کاشعارہیں، لہٰذا ان امورکوعام حالات میں انجام دینا درست نہیں ہے؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

﴿یَآ أیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا﴾(آل عمران:۱۵۶)

اے ایمان والو!تم نہ ہو (جاوٴ)ان کی طرح جو کافر ہوئے۔

اسی طرح ایک حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ليس منا من تشبه بغيرنا، لا تشبهوا باليهود ولا بالنصاري، فإن تسليم اليهود الإشارة بالأصابع وتسليم النصارى الإشارة بالأكف(سنن الترمذی، حدیث نمبر:۲۶۹۵)

البتہ خاص احوال میں، جن میں جان کاخطرہ ہو، دل سے ناپسندکرتے ہوئے انجام دینے کی گنجائش ہوگی، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: إلامن أکرہ وقلبه مطمئن بالإیمان۔ ہذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب!

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی