مذہبی امورمیں تشبہ

مذہبی امورمیں تشبہ

مذہبی امورمیں تشبہ

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

رسول اللہ ﷺ نے تشبہ کی بعض ایسی قسموں سے منع فرمایا ہے، جن میں مذہبی امورمیں تشبہ پایا جاتا ہے، جیسے آپﷺ نے یہودیوں کے تشبہ سے بچنے کے لئے افطارمیں عجلت کاحکم دیاہے، اب سوال یہ ہے کہ مذہبی امورمیں تشبہ سے کیا مراد ہے؟ ہمارے ملک میں بہت سے دین سے ناواقف نوجوان برادران وطن کے ساتھ ہولی کھیلتے ہیں، دیوالی میں پٹاخے پھوڑتے ہیں، کرسمس میں شریک ہوجاتے ہیں، ہندو بھائیوں کے تہواروں میں بھی شریک ہوتے ہیں، جیسےوہ اپنے گھروں میں زعفرانی جھنڈے لگاتے ہیں، مسلمان بھی رنگ کی تبدیلی کے ساتھ جھنڈے لگاتے ہیں، یوگا کرتے ہیں، ملاقات کے لئے نمستے کہا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ، کیا ان افعال کاشمارمذہب کے اعتبارسے تشبہ میں ہوگا؟

اس سوال کے جواب کے لئے ہمیں پہلےمذہب کی تعریف جاننی چاہئے؛ چنانچہ المعجم الوجیز میں ہے:(المذهب): الطریقة، و: المعتقد الذی یُذهب إلیه(المعجم الوجیز،ص:۲۴۷،المعجم الوسیط،ص: ۳۱۷)

لیکن اس سے زیادہ واضح الفاظ میں اس ’’قومی انگریزی اردو لغت‘‘ میں اس کی تعریف مذکور ہے، جس کوپاکستان کے مقتدرہ قومی زبان نے شائع کیا ہے، اس میں لکھا ہے:

’’مافوق الفطرت قوت کو اطاعت، عزت اور عبادت کے لیے با اختیار تسلیم کرنے کا عمل؛ اس قسم کی مختار قوت کو تسلیم کرنے والوں کا یہ احساس یا روحانی رویہ اور اس کا ان کی زندگی اور طرز زیست سے اظہار؛ متبرک/مقدس رسوم و رواج یا اعمال کے سر انجام دیے جانے کا عمل؛ اعلیٰ ترین ہستی (خدائے واحد و مطلق) یا ایک یا زیادہ دیوتاؤں پر ایمان لانے اور ان کی عبادت کا ایک مخصوص نظام؛ کسی مذہبی تنظیم/فرقےکے ارکان کا طرز زندگی؛ (کسی بھی چیز سے) وفاداری اورباضمیرہونے کاعمل‘‘۔(قومی انگریزی اردو لغت، ص: ۱۶۶۶)

اس تعریف سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ’’ مافوق الفطرت قوت پرایمان، اس کی اطاعت اورعبادت، اس کے نام پرکئے جانے والے رسوم ورواج اور اعمال‘‘، یہ سب مذہبی امورمیں شمارہوتے ہیں۔

اب اگرکوئی ان چیزوں میں غیرکی مشابہت اختیارکرے تو یہ مشابہت ’’مذہبی امورمیں تشبہ‘‘ کہلائے گا، اب اس ضمن میں چند رسوم ورواج سوال میں مذکورہیں، ان میں سےتمام غیرمسلموں کےمکمل یاجزوی طورپر مذہبی امور ہیں اورمذہبی امور میں تشبہ نادرست ہے، ایک توحدیث ’’من تشبه بقوم فهو منهم‘‘ کی وجہ سے، دوسرے تعاون علی الاثم ہونے کی وجہ سے، جب کہ قرآن نےصراحتاًاس سے منع کررکھا ہے، ارشادباری تعالیٰ ہے: وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (المائدة/2)، تیسرے اس لئے کہ ان میں سے اکثرامورمیں فضول خرچی اور اسراف ہوتا ہے، جس سے قرآن نے منع قراردیاہے، ارشادہے: إِنَّ الْمُبَذِّرِینَ کَانُوا إِخْوَانَ الشَّیَاطِینِ(الإسراء:۲۷)، نیزان میں شرک یا شرک کا شائبہ بھی ہے اور دونوں ممنوع ہیں،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ(الحج:۳۰)

تمام نبیوں کی دعوت یہی تھی کہ ایک اللہ کی عبادت کرو، اس کے سواکسی کی عبادت نہ کرو:يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ (اعراف:۸۵)، ایک دوسری آیت میں ہے:وَٱعْبُدُواْ ٱللَّهَ وَلَا تُشْرِكُواْ بِهِۦ شَيْـًٔا ۖ(النساء:36)

ایک دوسری آیت میں ہےکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سےفرمایا:وَقَالَ الْمَسِيحُ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اعْبُدُواْ اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ(المائدۃ:۷۲)

اسی طرح حدیث میں ہے، ابوہیاج کہتے ہیں:قال لي علي بن أبي طالب: ألا أبعثك ‏على ما بعثني عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم:"أن لا تدع تمثالا إلا طمسته ، ‏ولا قبراً مشرفا إلا سويته".‏(مسلم،حدیث نمبر:969)  

ایک دوسری روایت میں ہے:عن عمرو بن عبسة أنه قال للنبي صلى الله عليه وسلم:وبأي شيء ‏أرسلك؟ قال:"أرسلني بصلة الأرحام، وكسر الأوثان، وأن يوحد الله لا يشرك ‏به شيء".‏(مسلم (832)

علامہ ابن تیمیہؒ اس بابت لکھتے ہیں:"وهذا الحديث أقل أحواله أنه يقتضي تحريم التشبه بهم ، وإن كان ظاهره يقتضي كفر المتشبِّه بهم ، كما في قوله:(وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ).فقد يحمل هذا على التشبه المطلق فإنه يوجب الكفر، ويقتضي تحريم أبعاض ذلك، وقد يحمل على أنه صار منهم في القدر المشترك الذي شابههم فيه، فإن كان كفراً أو معصية أو شعاراً للكفر أو للمعصية كان حكمه كذلك. وبكل حال، فهو يقتضي تحريم التشبه بهم بعلة كونه تشبهاً [أي:تحريم التشبه بهم من أجل أنه تشبه، لا لسبب آخر]"انتهى.(اقتضاء الصراط المستقیم:۱ٌ/ ۲۷۰)

مذکورہ آیات واحادیث اورعبارات سے معلوم ہوا کہ مذہبی امورمیں تشبہ ناجائزاورنادرست ہے۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی