ابوجانؒ:ان کا اٹھنا نہیں ہے حشر سے کم (تیسری وآخری قسط)

ابوجانؒ:ان کا اٹھنا نہیں ہے حشر سے کم

ابوجانؒ:ان کا اٹھنا نہیں ہے حشر سے کم

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

(تیسری وآخری قسط)

تربیت کایہ پہلوبھی قابل عمل ہے کہ جب ہم لوگ مدرسہ حسینیہ پلاول ہزاریباغ میں زیرتعلیم تھے، وہ مہینہ دومہینے میں ضرورآتے، جب آتے تو خوب سارا کھانے پینے کا سامان لاتے، ستو، ہارلکس، بسکٹس، چھوہارے ، نمکی(نمک پارے)، مچر (دالموٹ) وغیرہ، کھانے پینے کے سامان میں فراوانی کرتے، ایک ہوٹل میں بھی یومیہ دوروپے کے حساب ماہانہ پیسے دے رکھے تھے، وہاں جاکرتقریباً روزانہ ڈُھسکا کباب کھاتے تھے ہم لوگ؛ لیکن ہاتھ میں پیسے نہیں کے برابردیتے تھے، ان کا ماننا تھا کہ پیسے کی وجہ سے لڑکے برباد ہوجائیں گے، ہاں! کچھ پیسے اساتذہ کودے رکھتے کہ وقت ضرورت کام آسکے، اس وقت ہم لوگوں کوغصہ بھی آتا تھا؛ کیوں کہ ہمارے ساتھیوں کوان کے والد زمانہ کے لحاظ سے اچھے خاصے پیسے دیتے تھے؛ لیکن اللہ جانتا ہے، ہمارے وہ ساتھی آج ہم سے بہت جدا ہیں، وہ حافظ بھی ہیں اورعالم بھی ؛ لیکن راہیں الگ الگ ہیں، والد صاحب کے اس عمل نےہی ہمیں اس لائق بنایا کہ آج ہم کچھ لکھ پڑھ سکیں۔

عفو ودر گزر کی صفت سے بھی وہ متصف تھے، ایک مرتبہ کی بات ہے، ایک غیر مسلم لڑکے نے سائیکل سے میرا ایکسیڈینٹ کردیا، سخت چوٹیں آئی تھیں مجھے، میرے بڑے بہنوئی نے اس کی سائیکل چھین کر رکھ لی، دوسرے دن ہی ان کی غیر موجودگی میں والد صاحب نے وہ سائیکل واپس کردی، بچپن کا ایک اور واقعہ یاد آ رہا ہے، مکتب سے غیر حاضری پر میرے ایک چچا نے مجھے اتنا مارا کہ پیٹھ میں کوئی جگہ باقی نہ رہی، جہاں نشان نہ پڑ گیاہو، کوئی دوسرا ہوتا تو کیس مقدمے اورہاتھا پائی کی نوبت آجاتی؛لیکن والدصاحب نے بس اتنا کہا: بچہ کو کوئی اس طرح مارتا ہے بھلا؟ 

صبروتحمل ، حلم وبردباری، تواضع وانکسار، عاجزی وفروتنی، نخوت وکبرسے دوری، روکھا سوکھا کھانے والے، موٹاجھوٹا پہننے والے، بڑوں کا ادب کرنے والے، چھوٹوں کے سرپرشفقت کاہاتھ رکھنے والے، یہ سب خوبیاں تھیں ان میں، اکثرکام (جاب) سے لوٹتے ہوئے کچھ نہ کچھ لے کرآتے اور بَکھری (محلہ) کے بچوں میں تقسیم کردیتے ، بعض دفعہ تو گھرکے بچوں کوہی کچھ نہیں ملتا تھا، کہیں مہمانی جاتے تو خالی ہاتھ کبھی نہ جاتے، بچوں کے لئے ضرور کچھ نہ کچھ لے لیتے۔

والدصاحب ہمیشہ باوضورہتے تھے، حتی کہ دسمبر اور جنوری کی یخ بستہ راتوں میں جب فراغت کے لئے اٹھتے تو ٹھنڈے پانی سے ہی وضوکرلیتے، ان کے لئے گرم پانی انتظام کیا جاتاتھا، جب تک یادداشت باقی رہی، گرم پانی کااستعمال کیا، جب یادداشت چلی گئی تو پھرگرم اورٹھنڈے پانی کااحساس بھی جاتا رہا، کئی مرتبہ توپیشاب کے خطا ہونے کی وجہ سے رات میں ٹھنڈے پانی سے ہی غسل کرلیا۔

وہ ایک رقیق القلب انسان تھے، کتابیں پڑھتے جاتے اور آنکھ سے اشک بہاتے جاتے، بالخصوص صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے واقعات اور ان کی قربانیوں پرتوپھوٹ پھوٹ کرروتے،اسی طرح جنت ودوزخ کے ذکرپربھی آنکھ سے آنسوجاری ہوجاتے، اتناروتے کہ والدہ بسااوقات بھائی بہنوں سے کہتیں کہ انھیں اتنارونے سے منع کرو، اس کی وجہ سے ان کی آنکھ پراثرہوگا، دراصل ان کی آنکھ کاآپریشن ہوا تھا؛ اس لئے والدہ ان کو روکنے کی کوشش کرتی تھیں۔

بیٹیاں،بہنیں اوربھتیجیاں وغیرہ جب ملنے آتیں توان سے خیرخیریت معلوم کرنے کے بعد ان کو قرآن وحدیث کی باتیں سناتے، رسول اللہ ﷺ کے حالات، صحابہ کے واقعات اور تابعین وتبع تابعین اوراسلاف وبزرگوں کے واقعات سناتے، جنت ودوزخ کاتذکرہ کرتے اورگھنٹوں یہ سلسلہ چلتارہتا، دوہزار چار میں حج کی سعادت سے مشرف ہوئے ، واپسی کے بعد تو پھر وہیں کے تذکرے زبان پرجاری رہتے، حج کی اتنی کتابیں مطالعہ کرلی تھیں کہ اس باب کا باقاعدہ انھیں عالم کہاجاسکتا تھا، وہ صرف مطالعہ ہی نہیں کرتے تھے؛ بل کہ نوٹ بنا کر اختصاربھی کرتے رہتے تھے، جب کوئی سفرحج پرجانے والا ان سے آکر ملتا توان کوطریقۂ حج بتاتے اور اپنامختصرنوٹ بھی ان کویاد کرنے کے لئےاردو یا ہندی میں دیتے۔

گھرمیں تین بہویں تھیں، ہمیشہ ان کوبیٹیوں کی طرح رکھا اورسمجھا، کبھی کسی کام کے تعلق سے کوئی سخت بات نہیں کہی، نہ چخ چخ، نہ بک بک، جودیا، کھالیا، کھانے میں کبھی کوئی عیب نہیں نکالا، عام طورپربہویں اپنی ساس سسرکی تعریف نہیں کرتیں؛ لیکن والد صاحب کے تعلق سے کسی بھی بہو کی زبان سے کوئی ایک لفظ بھی برائی کا آج تک نہیں نکلا۔

میرے مضامین اورمیری کتابیں دیکھ کرنہ صرف خوش ہوتے؛ بل کہ باربارپڑھتے اورجاننے والوں کوبتاتے بھی جاتے کہ یہ جمیل کی تحریرہے، جامعہ ضیاء العلوم کنڈلو(جہاں ابھی میں تدریسی خدمت انجام دے رہاہوں)سے ایک زمانہ میں ’’ضیاء‘‘ نام سے ایک ماہنامہ نکلتا تھا، اس میں باقاعدہ ایک مضمون میرا ہوا کرتاتھا، والدصاحب اس رسالہ کو منگوا کر پڑھتے تھے، جب میری کتاب ’’غزوات نبوی: اسباق وموعظت کے چند پہلو‘‘ چھپ کرآئی تو بہت خوشی کا اظہارکیا، اسے اپنے سرہانے رکھتے ، شاید دسیوں باراس کتاب کوپڑھ ڈالا ہو، اصول فقہ اورمقاصدشریعت پرلکھی تحریروں کوبھی انھوں نے پڑھ ڈالا، یہ اپنے بچے کے کام سے خوشی اورتعلق کااظہار تھا۔

اپنے ایمان کی فکر اخیر زمانہ میں کچھ زیادہ بڑھ گئی تھی، جب بھی کوئی ملنے آتا تو رخصت ہوتے وقت ہمیشہ ایک بات کہتے: خاتمہ بالخیر کی دعا کرنا، ہم لوگ بھی مدرسہ کے لئے نکلنے لگتے تو دعا کے لئے یہی جملہ ادا کرتے ساتھ میں آنکھیں بھی بھیگ جاتیں۔

والدصاحب کی عمرتقریباً پچاسی سال تھی؛ لیکن الحمدللہ کسی قسم کی کوئی موذی بیماری نہیں تھی ان میں، نہ وہ شوگرکے مریض تھے، نہ BPکے، نہ ڈپریشن کے شکارتھے، نہ پروسٹیٹ میں مبتلا،ہاں انھیں ’’الزائمر‘‘ (Alzheimer's)کی بیماری(جسے:Senile Dementia بھی کہاجاتا ہے) لاحق ہوگئی تھی،جو بہت ساری بیماریوں پربھاری تھی،اس کی وجہ سے اپنے بچوں کوبھی نہیں پہچان سکتے تھے؛ البتہ اپنے بڑے بھائی جناب ماسٹرمنیرالدین صاحب( اللہ انھیں صحت وسلامتی کے ساتھ رکھے) کواخیر تک پہچانتے رہے، یہ ان سے محبت کی بھی دلیل تھی، ان کاکوئی کام بڑے بھائی کے بغیر نہیں ہوتا تھا، اپنی بچیوں کی شادی میں بھی گارجین بڑے بھائی ہی تھے، چھوٹے بھائی جناب مولاناآفتاب عالم ندوی صاحب (اللہ تعالیٰ صحت وعافیت کے ساتھ رکھے) پرتو گویا جان چھڑکتے تھے، یاد داشت متاثرہونے کے بعدبھی مرحوم والدہ کوکافی یادکرتے تھے، اپنے گھرمیں ہوتے ہوئےکہتے: میں گھرجارہا ہوں، میری امی میراانتظار کررہی ہیں، میں بتائے بغیرہی گھر سے آگیا ہوں، پھرجب انھیں یقین دلادیاجاتاکہ یہ آپ ہی کاگھرہے یا یہ کہ آپ کی امی کوفون کرکے بتادیاگیا ہے، تب جاکرخاموش ہوجاتے۔

والدصاحب گھرکے لئے رحمت بھی تھے، برکت بھی تھے، ۳۱/ مئی ۲۰۲۴ءبروز جمعہ ، دوپہرکے ایک بج کرسترہ منٹ پر یہ رحمت ہم سے چھین  اور یہ برکت ہم سے اٹھا لی گئی، گھرسونا سونا ہوگیا، دل ویران ویران ہوگئے، آنکھیں اب بھی اشک بار ہیں، حادثہ ہی ایساکاری ہے:

عجب قیامت کا حادثہ ہے کہ اشک ہے آستیں نہیں ہے

زمیں کی رونق چلی گئی ہے، افق پہ مہر مبیں نہیں ہے

لیکن فرمان رسول ’’كنا ننهى ان نحد علي ميت فوق ثلاث الاعلي زوج اربعة اشهر و عشرا‘‘(صحیح بخاري،کتاب الحیض،باب الطيب للمرأۃ عند غسلہ  من المحيض، حدیث نمبر:۳۱۳)’’ہمیں اس سے منع کیا گیا ہے کہ کسی میت کا تین دن سے زیادہ سوگ منائیں سوائے شوہر کے کہ اس کی وفات پربیوی چار مہینے دس دن کا سوگ مناسکتی ہے‘‘ کا پاس ولحاظ کی وجہ سے آنسوؤں کوپینا پڑتا ہے، تسلی اس بات کی ہے اللہ تعالیٰ نے ان کواپنے پاس بلانے کے لئے جمعہ کا دن منتخب کیا، جس کے تعلق سے صادق ومصدوق نبیﷺ کا قول ہے: ما مِن مسلمٍ يموتُ يومَ الجمعةِ أو ليلةَ الجمعةِ إلَّا وقاهُ اللَّهُ فِتنةَ القبرِ(صحیح الترمذی، حدیث نمبر: ۱۰۷۴) ’’جب کسی مسلمان کی موت جمعہ کی رات یا جمعہ کے دن ہوتی ہے تواللہ تعالیٰ قبرکے فتنے سے اسے بچالیتے ہیں‘‘، حسن ظن یہی ہے کہ قیامت تک حفاظت کی جائے گی۔

جنازہ میں کافی لوگ آئے تھے، قرب وجوار سے بھی ، دوردراز سے بھی، جس میں ایک معتددبہ تعدادعلماء کی تھی، جنازہ میں تقریباً نودس صفیں تھیں، ہرصف میں ستراسی کے قریب لوگ تھے، اتنی بڑی تعداد گاؤں میں عام طورپرکم ہی دیکھی جاتی ہے،وہ علماء کرام کی، جس کا تذکرہ گاؤں کے ہر فرد کی زبان پر تھا، یہ بھی ان کی مغفرت کی طرف اشارہ ہے؛ کیوں کہ حدیث میں ہے ، اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ما مِن مَيِّتٍ تُصَلِّي عليه أُمَّةٌ مِنَ المُسْلِمِينَ يَبْلُغُونَ مِائَةً، كُلُّهُمْ يَشْفَعُونَ له؛ إلَّا شُفِّعُوا فِيهِ.ِ(صحیح مسلم، حدیث نمبر:۹۴۷)’’جس میت کی نماز جنازہ سوکی تعداد میں مسلمانوں کی جماعت پڑھے اورسب اس کے لئے شفاعت کریں توان کی شفاعت قبول کی جاتی ہے‘‘، اوریہاں آٹھ نوسوکے قریب لوگ موجودتھے، جن میں علماء کی بھی بڑی تعداد تھی، اللہ کی رحمت سے یقین ہے کہ ان کی مغفرت ہوگئی ہوگی۔

وفات کے بعد دوست واحباب کے ساتھ ساتھ اساتذہ اور بعض بزرگوں نے بھی تحریر، آڈیو اورفون کے ذریعہ ہم لوگوں کی تعزیت کی اورتسلی آمیز کلمات سے ڈھارس بندھائی، اساتذہ اوربزرگوں میں خصوصیت کے ساتھ استاذگرامی قدرحضرت مولاناخالدسیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی(صدرآل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ)، صاحب زادۂ شیخ الاسلام حضرت مولانا سیداسجد مدنی مدظلہ العالی(نائب صدرجمعیۃ علمائے ہند)، ڈاکٹرسعید الرحمن فیضی ندوی صاحب دامت برکاتہ(کناڈا) اورجناب مفتی اشرف علی صاحب قاسمی دامت برکاتہ(المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد) قابل ذکرہیں، اللہ تعالیٰ ان تمام کو بہترین اجرعطافرمائے، آمین!

یقیناً والدین کے حقوق کی ادائے گی میں ہم سے کوتاہیاں ہوئی ہیں، اے اللہ! توبڑا معاف کرنے والا ہے ، ہمیں معاف فرمادے اوراپنے اس نیک اورصالح بندہ کی مغفرت فرما، اس کے حسنات کوقبول فرما، اس کے سیئات کومحوکردے، إن لله ماأخذ وله ماأعطیٰ ، وکل شیٔ عندہ بأجل مسمی، اللهم اغفرله، وارحمه، وأدخله فی فسیح جناته، اللهم أنزل علیه شآبیب رحمتک، وعزائم مغفرتک، والغنیمة من کل بر، والسلامة من کل إثم، لاتدع له ذنباً إلاغفرته، و نقِّه کماینق الثوب الأبیض من الدنس، وأبدله داراً خیراً من دارہ، وأهلاً خیراً من أهله، وزوجاً خیراً من زوجه، وقه فتنة القبروعذاب النار، اللهم آنس وحشته، ووسع قبرہ، واجعله روضة من ریاض الجنه، آمین یارب العالمین!

یہ کون اٹھا کہ دیر وکعبہ شکشتہ دل، خستہ گام پہنچے

جھکاکے اپنے دلوں کے پرچم، خواص پہنچے، عوام پہنچے

تری لحدپہ خدا کی رحمت ، تری لحد کو سلام پہنچے

پہلی قسط

دوسری قسط

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی