ابوجانؒ:ان کا اٹھنا نہیں ہے حشر سے کم(قسط:۲)

ابوجانؒ:ان کا اٹھنا نہیں ہے حشر سے کم

ابوجانؒ:ان کا اٹھنا نہیں ہے حشر سے کم

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

(دوسری قسط)

جب سے میری شعور کی آنکھیں کھلی ہیں، میں نے کبھی بھی انہیں نماز ترک کرتے ہوئے نہیں دیکھا، سفر میں ہوں یا حضر میں، صحت میں ہوں یا بیماری میں، کام سے باہر جاتے، شام کو تھکے ہارے واپس آتے تو کھانے اور استراحت سے پہلے نماز کی فکر ہوتی، اس میں کسی قسم کی کوتاہی گورا نہیں تھی اورکسی دوسرے کے لئے بھی اس میں سستی کو پسند نہیں کرتے تھے، اس کے لئے ڈانٹ ڈپٹ سے بھی پیچھے نہیں ہٹتے تھے اور ریٹائرمنٹ کے بعد تو ’’وقلبه معلق بالمساجد‘‘کی عملی تفسیر بن گئے تھے، ظہر کی نماز کے لئے گیارہ بجے دن ہی مسجد پہنچ جاتے، گھر میں بھی ہوتے تو وقت دریافت کرتے رہتے، یہی حال روزہ کا تھا، سخت گرمی کے باوجود، جب کہ دن بھر کام کے لئے باہر بھی رہنا پڑتا تھا؛ لیکن مجال ہے کہ روزہ چھوڑ دیں۔

فرائض کا اہتمام تو تھا ہی، نوافل کا بھی خوب اہتمام تھا، اشراق، چاشت، اوابین اور تہجد وغیرہ کے ساتھ گھر سے نکلنے سے قبل ہمیشہ صلاۃ الحاجۃ کا اہتمام تھا اور اسی کی تاکید اپنے بچوں کو بھی کرتے تھے۔

تلاوت کے بھی وہ پابند تھے، انھوں نے کسی مدرسہ میں تو تعلیم حاصل نہیں کی تھی، غالباً مسجد کے مولوی صاحب سے قرآن پڑھنا سیکھا ہوگا؛ لیکن کثرت تلاوت کی وجہ سے چھوٹی بڑی کئی سورتیں زبانی یاد تھیں، پہلے پارے کا تقریباً نصف پارہ یاد تھا اور روانی کے ساتھ ہم لوگوں کو سناتے بھی تھے، تلاوت بھی وہ روانی کے ساتھ کرتے تھے، ریٹائرمنٹ کے بعد ان کا دوہی مشغلہ تھا: ایک نماز پڑھنا اور دوسرا قرآن کریم کی تلاوت کرنا، حافظ نہ ہونے کے باوجود ہر تین چار دن مین ایک قرآن ختم کرلیتے تھے۔

اللہ تعالیٰ نے ان کو کافی کشادہ دست بنایا تھا، اپنے گھر کے اخراجات کے ساتھ ساتھ رشتہ داروں میں سے تین چار گھروں کے مصارف بھی برداشت کرتے تھے، اکثر اوقات گھروالوں میں سے کسی کو معلوم بھی نہیں ہوتا تھا، گاؤں محلہ والوں میں بھی بہت کچھ تقسیم کرتے رہتے، بچپن کا ایک واقعہ ہے، ایک مرتبہ عید کے موقع سے ہم لوگوں کے لئے چپل یا جوتا لینے آسنسول گئے اور وہاں سے ایک بوری ناگرا جوتے لے کر آئے اور پورے محلہ میں تقسیم کیا۔

توکل کے اعلی مقام پر فائز تھے، کبھی بھی کسی پریشانی میں ان کومبتلا نہیں دیکھا گیا اور دیکھا گیا کہ ان کا کام آسانی کے ساتھ مکمل بھی ہوگیا، 2004 میں جب حج کے لئے جانے لگے، اس وقت گھر میں دوبن بیاہی خالائیں موجود تھیں، چوں کہ ہم بھائی پانچ بہنوں کے بعد ہیں اور اس وقت زیر تعلیم تھے؛ اس لئے اس وقت گھر میں کوئی مرد ان کی دیکھ ریکھ کے لئے نہیں تھا، اس موقع پر ان سے پوچھا گیا کہ اُن کو کن کے سپرد کرکے جارہے ہیں؟ انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا، پھر ہم لوگوں نے دیکھا کہ سفر حج میں روانگی سے ٹھیک ایک ہفتہ قبل ان دونوں کی شادی ہوگئی اوروہ اپنے سسرال چلی گئیں، یہ اور اس طرح کے بہت سارے نمونے ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ ان کو اپنے اللہ پر بہت زیادہ بھروسہ تھا۔

والد صاحب باقاعدہ کسی مدرسہ کے فارغ نہیں تھے؛ لیکن مطالعہ کے خوب عادی تھے، رفتار بھی تیز تھی، ہم لوگ جب گاؤں کے جوڑیا (چھوٹی ندی) یا تالاب میں نہانے کے لئے جاتے تو ان کے ہاتھ میں کتاب ہوتی، راستہ بھر پڑھتے جاتے، واپسی پر بھی یہی حالت ہوتی، ملازمت میں جاتے تو ان کے ہاتھ میں ایک تھیلی ہوتی، دوسرے لوگ تو دوپہر کا کھانا لے کر جاتے؛ لیکن ان کی تھیلی میں کوئی نہ کوئی کتاب ہوتی، گھر میں کھیتی باڑی اور دودھ دہی کے لئے جانور پلے ہوئے تھے، جب وہ ان کوچرانے کے لئے جاتے تو ہاتھ میں کتاب ہو تی، دھان کی کٹائی کاوقت ہو، یا بوائی اوردوائی کا، ہرجگہ ان کے ساتھ کتاب ہوتی، گویا کتاب ان کا بہترین دوست تھی، ریٹائرمنٹ کے بعد اس میں بھی اضافہ ہوگیا تھا، سرہانے کئی کئی کتابیں رکھی ہوتی تھیں، مطالعہ کی اسی کثرت کی وجہ سے انھیں گاؤں میں ’’مولوی صاحب‘‘ کہا جاتا تھا، عالموں کے ساتھ مذاکرات بھی کرتے تھے، دوہزار چار میں جب حج کے لئے گئے تومکہ سے فون کرکے ہم لوگوں سے معلوم کیا کہ کون کون سی کتابیں لانی ہیں؟ اوروہاں سے ہم لوگوں کے لئے ایک بڑی اٹیچی میں تفسیرابن کثیر، صفوۃ التفاسیر، صید الخاطر، المنجد، رجال من التاریخ الاسلامی وغیرہ لے کرآئے۔

اپنی دانست میں یہ پہلے شخص ہیں، جن کے دل میں دوسرے کے لئے کسی قسم کی کوئی برائی نہیں دیکھی گئی، یاد ہی نہیں پڑتا کہ کبھی کسی کی برائی کی ہو، ہر ایک کے لئے خیر اور بھلائی سوچتے، گویا ’’الدِّينُ النَّصِيحَةُ. قُلْنا: لِمَنْ؟ قالَ: لِلَّهِ ولِكِتابِهِ ولِرَسولِهِ ولأَئِمَّةِ المُسْلِمِينَ وعامَّتِهِمْ‘‘(صحیح مسلم، حدیث نمبر:۵۵)’’دین سراپا خیرخواہی کا نام ہے، ہم (صحابہ)نے پوچھا: کس کے لئے؟ فرمایا: اللہ ، اس کی کتاب، اس کے رسول، مسلمانوں کے ائمہ وحکام اورعام مسلمانوں کے لئے‘‘کی کامل تفسیرتھے ؛ بل کہ اس میں اس قدر بڑھے ہوئے تھےکہ بعض دفعہ سامنے والا منفی سمجھ لیتا تھا۔

صفت استغناء سے بھی وہ مالامال تھے، کبھی پیسوں کے پیچھے بھاگے ہی نہیں؛ حالاں کہ کئی مواقع ان کو ایسے حاصل تھے، جہاں خوب خوب پیسے بٹور سکتے تھے، کچھ دنوں کے لئے انھیں کیشئر بنایا گیا، پیسے تو کیا بچاتے، الٹا اپنی تنخواہ بھی تقسیم کر آتے، ایک مرتبہ ایک شخص نے دومرتبہ اپنی تنخواہ لی، پھر تیسری مرتبہ تنخواہ لینےکے لئے اس نے ہاتھ بڑھایا، پیسے ختم ہوچکےتھے، کہا: بابو! ختم ہوگیا ہے، کل آکر لے لینا، تب اس نے دونوں جیب سےپیسے نکالے اور کہا: اگر ایسا ہی چلتا رہا تو آپ کا گھر کیسے چلے گا؟کچھ سالوں تک بی سی سی ایل ملازمین کے لئے راشن تقسیم کرنے کی ذمہ داری دی گئی، وہاں سے بس اتنا ہی لیتے جتنا حق ہوتا، بسااوقات وہ بھی نہیں آپاتا، کچھ سالوں تک ’’حاضری بابو‘‘ بھی رہے، بی سی سی ایل میں یہ عہدہ جس کو ملتا ہے ، اس کے تو وارے نیارے ہوجاتے ہیں؛ لیکن مجال ہے کہ اس عہدہ سے فائدہ اٹھایا ہو؛ حالاں کہ یہ تمام جگہیں وہ ہیں، جہاں سے اضافی کمائی کافی زیادہ ہوجاتی ہے، ظاہر ہے کہ یہ ان کے استغناء کی وجہ سے ہی تھا، اسی استغناء کا اثرتھا کہ کبھی بھی بچوں سے انھوں نے پیسے نہیں مانگے، نہ اس کی پرواہ تھی کہ وہ کتنا کماتے ہیں اوران پیسوں کا کرتے کیا ہیں؟

والد صاحب خود کسی مدرسہ کے تعلیم یافتہ نہیں تھے؛ لیکن دینی تعلیم اور علماء سے کافی لگاؤ اور تعلق خاطر تھا، ان کے اسی تعلق کا نتیجہ ہے کہ ہم تینوں بھائی الحمدللہ حافظ ہیں، بڑے بھائی جناب مولانا شکیل اخترندوی صاحب اورراقم تو باضابطہ عالم بھی ہیں اور دارالعلوم ندوۃ العلماء سے فارغ التحصیل بھی، چھوٹے بھائی محمد مبین اخترسلمہ‘ کی تعلیم بھی سوم عربی تک ہوئی، پھر بیماری کے سبب منقطع ہوگئی، آپی (چھوٹی ہمشیرہ) بھی عالمہ ہیں، یہ بہت سعادت کی بات ہے کہ والد صاحب کے نواسوں میں آٹھ حافظ ہیں اور اتنے ہی عالم و فاضل بھی ہیں، جن میں سے سات تو دارالعلوم ندوۃ العلماء سے فارغ التحصیل ہیں، جب کہ ایک دارالعلوم دیوبند کے فاضل ہیں، ایک نواسہ ابھی بھی دارالعلوم دیوبند میں زیر تعلیم ہے، نواسیوں میں سے پانچ نواسیاں بھی عالمہ ہیں،کسی نے عصری تعلیم کی طرف توجہ دلائی توکہنے لگے:’’اگرمیرے سو بچے ہوتے تومیں تمام کوحافظ بناتا‘‘، علماء سے بھی کافی گہرا تعلق تھا، کسی بھی عالم کا گاؤں میں ورود ہوتا، ان کو اپنے گھر میں لاکر ناشتہ کرانے اور کھانا کھلانے کو اپنے لئےوہ سعادت سمجھتے تھے، مسجد میں تبلیغی جماعت آتی تو ان کی بھی دعوت کرتے، بسااوقات امام صاحب کو صبح کے اُس وقت لے کر گھر پہنچ جاتے، جب کہ چولھا بھی جلا یا نہیں گیا ہوتا۔

حدیث میں سلام پھیلانے کا حکم ہے، والد صاحب اس کی عملی تفسیر تھے، راہ چلتے، چھوٹے، بڑے، مرد وعورت ہر ایک کو نہ صرف سلام کرتے؛ بل کہ سلام کرنے میں وہ پہل بھی کرتےتھے، ان کی اس عادت کی گواہی عوام کے ساتھ ساتھ علماء بھی دیں گے۔

والدصاحب کے یہاں سنتوں پر عمل کرنے کا خاص اہتمام تھا، کسی امر سے متعلق جب معلوم ہوجاتا کہ یہ سنت ہے تو اس پر آخری حد تک عمل کرنے کی کوشش کرتے، معلوم ہوا کہ سفید لباس نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا پسندیدہ لباس ہے، پھر تو زندگی بھر سفید کپڑے پہنے، میں نے تو کبھی دوسرے رنگ کا لباس زیب تن کرتے ہوئے نہیں دیکھا، کھانے کے بعد پلیٹ اس طرح صاف کرتے گویا دُھلی ہوئی ہو؛ حالاں کہ بہت سارے علماء بھی پلیٹ صاف کر کے کھانے کو کسر شان سمجھتے ہیں، آج کے زمانہ میں ہر آدمی برش سے منھ صاف کرتا ہے، اس میں عوام وخواص سب شامل ہیں، مسواک کی سنت بھول چکے ہیں لوگ، والد صاحب نے برش کو کبھی ہاتھ بھی نہیں لگایا، کسی کتاب میں دیکھا کہ کھاتے وقت بیٹھنے کاسنت طریقہ ’’اکڑوں‘‘ بیٹھنا ہے، پھرتو زندگی بھر اکڑوں بیٹھ  کرہی کھانا کھائے، یہ سب سنت سے عشق اور اس پر عمل کے اہتمام کا نتیجہ تھا۔

گاؤں گھر میں چھوٹے موٹے جھگڑے ہوتے رہتے ہیں، کبھی کبھار کیس مقدمے کی بھی نوبت آجاتی ہے، والد صاحب کو ہمیشہ ان چیزوں سے دور پایا، کبھی کسی سے اس طرح کی نوبت ہی نہیں آئی، نہ توتومیں میں، نہ کیس اورمقدمہ بازی۔

والدصاحب ایک جفاکش انسان تھے، جب تک توانا اور تندرست رہے، گھرکی باڑی میں ہریالی رہی اورساگ سبزیوں کے لئے بازار جانے کی ضرورت نہیں پڑی، باڑی کے چاروں طرف مختلف قسم کے درخت لگارکھے تھے، آم کے، جامن کے، آؤںلاکے، مُنگا(Moringa)کے، سیمل کے، لیچی کے، لیمو، پپیتا وغیرہ اورنہ جانے کس کس کے، بعض درخت تو باقاعدہ بعض نرسریوں سےخرید کرلائے تھے، فارغ اوقات میں اسی باڑی کی دیکھ بھال کرتے، اپنے ہاتھوں سے گھورنا (घोरना) گھورتے(جانورں سےکھیتی باڑی کی حفاظت کے لئے جس طرح تاربندی کی جاتی ہے، اسی طرح ہمارے یہاں بانس، تھیتھر(Thethar Plants)اورجھاڑجھنکاڑ سےگھیرابندی کی جاتی ہے، اسے گھورنا کہاجاتا ہے )، جب سے والدصاحب نے اس معمول کو ترک کیا، زمین گویا بانجھ ہوگئی ہے اوراپنے بنجرہونے پراشک بہارہی ہے۔

والدصاحب کا ایک نمایاں وصف مہمان نوازی تھا، گاؤں میں کسی پردیسی کو دیکھتے، فوراً اس کے لیے کھانے کا اہتمام کرتے، بسااوقات گھر میں کچھ نہ ہوتا، فوراً دکان جاتے اور پیسے نہ ہونے کی صورت میں ادھار ہی سامان لے کر آتے اور مہمان نوازی کرتے، گویا ’’یؤثرون علی أنفسھم ولو کان بھم خصاصۃ‘‘ کا نمونہ تھے، مہمانوں کے ساتھ خود بھی دسترخوان پربیٹھتے اور مزید لینے کی تاکید کے ساتھ ساتھ خود اپنے ہاتھ سے اٹھا اٹھا کر بھی دیتے جاتے، خود آہستہ روی کے ساتھ کھاتے، پھرجب مہمان شکم سیرہوکراپنا ہاتھ کھینچ لیتا تووالد صاحب کہتے:’’آپ لوگوں کے ساتھ بیٹھنا نہیں چاہئے، آپ لوگ آدمی کوبھوکا ہی رکھ دیں گے‘‘ ۔

والد صاحب کو اپنے بچوں، بھتیجوں اور نواسے نواسیوں کی اسلامی نہج پر تربیت کی بڑی فکر تھی، محسوس ہوتاہے کہ ان کے پیش نظر ’’ماتعبدون من بعدی‘‘ کی آیت تھی، یہی وجہ ہے کہ آج ان کے خاندان میں علماء و فضلاء، عالمات اور حفاظ کی ایک بڑی تعداد ہے، جو ان شاءاللہ ان کے لئے ذخیرہ آخرت ہوں گے، تربیت کا انداز بھی نرالاہوتا تھا، امام صاحب کے پاس ٹافی، لیمن چوس اورچاکلیٹ وغیرہ رکھوادیتے کہ جب میرے بچے آئیں توانھیں دیں، ظاہر ہے کہ یہ اس لئے تھا کہ بچے مکتب سے اس طرح ناغہ نہیں کریں گے، یاد پڑتا ہے کہ جب میں نے پہلی بار روزہ رکھا تھا تو افطار کے لئے بازار سے باقاعدہ رس گلے لے کرآئے تھے، ایساچھوٹے بھائی کے پہلے روزہ پربھی کیاتھا، یہ صرف ترغیب کے لئے ہی توتھا۔(جاری)

پہلی قسط 

تیسری وآخری قسط

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی