ابوجانؒ:ان کا اٹھنا نہیں ہے حشر سے کم

ابوجانؒ:ان کا اٹھنا نہیں ہے حشر سے کم

ابوجانؒ:ان کا اٹھنا نہیں ہے حشر سے کم

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی


کیا لکھوں؟ کس طرح لکھوں؟ آنسو تھمتے نہیں، الفاظ ملتے نہیں، ہاتھوں میں لرزش ہے، آنکھوں میں سوزش ہے، بے یقینی کی کیفیت ہے، حادثہ دن کے اجالے میں رونما ہوا؛ لیکن دل کی دنیا کو تاریک کرگیا، جی تو نہیں چاہ رہا کہ یقین کروں؛ مگر ہوچکنے کے بعد اس کے سوا چارہ بھی تو نہیں، قرار و شکیب کی بند پر غم کی ضربیں تسلسل کے ساتھ پڑرہی ہیں اور اشکوں کا ریلا اسے تہہ و بالا کرنے کی سعی پیہم میں لگا ہوا ہے؛ لیکن ذہن کے کینوس پر نقش نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا فرمان’’انما الصبر عند الصدمة الاولیٰ‘‘(صحیح البخاری، باب زیارۃ القبور، حدیث نمبر:۱۲۸۳)’’اصل صبر تومصیبت کی پہلی گھڑی میں ہوتا ہے‘‘ان پر غالب اور حاوی ہےاور یہی ایک مومن کی شان بھی ہے؛ کیوں کہ اس کا ہر معاملہ ہی عجیب ہے:’’عجبا لأمر المؤمن، إن أمرہ کله خیر، ولیس ذاک لأحد؛ إلا للمؤمن،  إن أصابته سراء شکر، فھو خیر له، وإن أصابته ضراء صبر، فھو خیر له‘‘ (صحیح مسلم، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر، حدیث نمبر:۷۵۰۰)’’مومن کا معاملہ عجیب ہے، اس کے ہرمعاملہ میں خیرہے اوریہ مومن کے سوا کسی دوسرے کومیسر نہیں، اگراسے خوشی حاصل ہوتی ہے ، جس پروہ شکرکرتا ہے تواس میں اس کے لئے خیر ہوتا ہے اوراگرمصیبت لاحق ہوتی ہے، جس پروہ صبرکرتا ہے تواس میں اس کے لئے خیر ہوتا ہے‘‘،  یہی ارشادات تو ہیں، جن کی وجہ سے بندۂ مؤمن کو صبر وسلوان حاصل ہوجاتا ہے، ورنہ:

موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟

ابھی ڈیڑھ ہی سال کا عرصہ (٢/اکتوبر٢٠٢٢ء)تو گزار ہے، جب وہ ہستی ہم سے داغ مفارقت دے گئی تھی، جن کے قدموں کے نیچے جنت رکھی گئی تھی اور اب (٣١/مئی ٢٠٢٤ء) جنت کا دروازہ بھی ہم سے چھین لیا گیا، گویا ان لوگوں کی طرح ہم اب خوش نصیبوں میں نہیں رہے، جن کے پاس آج بھی دنیا ہی میں جنت بھی موجود ہے اور اس میں داخل ہونے کا دروازہ بھی کھلاہواہے، یقیناً وہ خوش نصیب ہیں، بالیقین ان کا بخت بیدار ہے:

کھو دیا تم کو تو ہم پوچھتے پھرتے ہیں یہی 

جس کی تقدیر بگڑ جائے وہ کرتا کیا ہے؟

عید ہی کی تو بات ہے، بالکل ٹھیک ٹھاک، مسکرا کر سب سے ملتے ہوئے اپنی عادت کے مطابق پوچھتے رہے کہ: ’’کھَیْلے یا نائیں؟‘‘(کھائے یا نہیں؟) اور دو مہینے بھی بیتنے نہ پائے تھے کہ ہمیں چھوڑ کر رخصت ہوگئے اُس دنیا کی طرف، جہاں جانے کے بعد کوئی لوٹ کر نہیں آتا، موت کا وقت تو متعین ہے؛لیکن بندہ کو تو معلوم نہیں؛ اس لئے وہ جینے کی ہی امید رکھتا ہے، ہم بھی اسی امید میں تھے کہ ابھی ابا ہمارے درمیان سایۂ برکت ورحمت بن کر فِگَندہ رہیں گے؛ لیکن آہ!  قزاقِ اجل نے ہم سے انھیں لوٹ لیا۔

٦/مئی ٢٠٢٤ء کو والد صاحب کے کولہے کی چکری کے پاس کی ہڈی اچانک ٹوٹ گئی، یہ غالباً چکر آنے کے بعد نہ سنبھل پانے کی وجہ سے ہوا، جس کی وجہ سے بذات خود چلنے کی طاقت نہیں رہی، ابتداء ڈاکٹر کی تشخیص یہ رہی کہ نس دب گئی ہے؛ لیکن بعد میں ہڈی شکست ہونے کی بات معلوم ہوئی، والد صاحب کی یادداشت چوں کہ کئی سالوں سے متاثر تھی؛ اس لئے احساسِ درد وتکلیف کے اظہار سے بھی قاصر تھے، جس کی وجہ سے صحیح بات معلوم ہونے میں تاخیر ہوئی، تاہم اتنی تاخیر بھی نہیں تھی کہ اسے لا علاج قرار دیا جاتا، علاج تو شروع ہوا؛ لیکن موت تو بہانہ سے آتی ہے اور یہی مرض ابا کی موت کا بہانہ بن گیا:

 مری موت کو بھی پیارے کوئی چاہیئے بہانہ 

بس بہانہ سے ہی وہ بھی ہم سے رخصت ہوگئے اور گھر کو سونا اور دل کو ویران کرگئے، ان کی حیثیت مرکز جو (Centripetal) کی تھی، جو اپنی طرف آنے کے لئے بھائی بہنوں اوردیگررشتہ داروں کو مجبور کرتی تھی، ان کے جانے سے اس مرکزیت پر ایک زبردست چوٹ پڑی ہے، اللہ کرے یہ ٹوٹنے نہ پائے۔

اس وقت دل کی کیفیت ایسی تونہیں کہ کچھ لکھا جائے؛ لیکن نہ لکھنا والد صاحب کے حق میں بے انصافی ہوگی، حق ہے کہ ان پر لکھا جائے اورشتاب لکھا جائے، تھی ہی ان کی ذات ایسی، ان کی زندگی میں توان کے تعلق سے کچھ لکھنے کی نہ ہمت ہوئی اورنہ ہی نوبت آئی، وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ اسے پسند بھی نہیں کرتے، میں نے جب اپنے نام کے ساتھ ’’جلیلی‘‘ کا اضافہ کیا توپوچھا: یہ کیا ہے؟ میں نے جواب دیا: آپ کی طرف نسبت، ان کا نام محمدعبدالجلیل تھا، اس پرانھوں نے ٹوکا کہ اس کی کیا ضرورت تھی؟ بس تم اپنا ہی نام لکھتے؛ لیکن میں برابرلکھتا رہا اوراب توگویا قلمی دنیا میں میری پہچان ہی اسی نسبت سے ہے۔

والد صاحب نہ عالم تھے، نہ حافظ، انھوں نے توباقاعدہ کسی مدرسہ میں پڑھا ہی نہیں، اسکولی تعلیم کے لئے بھی باقاعدہ ان کا کہیں داخلہ نہیں ہوا تھا؛ البتہ ذاتی محنت کے بل بوتے پرمیٹرک اور (آئی اے)انٹر پاس کیا، بی اے میں بھی داخلہ لیا، ایک مرتبہ امتحان بھی دیا، جس میں کامیاب نہیں ہوسکے، پھر نئے اور پرانے نصاب میں فرق کی وجہ سے مزید امتحان نہیں دے سکے، علی گڑھ مسلم یونیور سٹی کے ’’ادیب کامل‘‘ کا بھی امتحان دیا تھااوراس میں کامیاب بھی ہوئےتھے، آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ اتنی تعلیم حاصل کرنا توآسان بات تھی؛ لیکن نہیں! ان کے لئے نہیں! کیوں کہ اس زمانہ میں کھیتی باڑی کاعام رواج تھا، دادا کی زمینیں بھی کافی تھیں، خود دادا مرحوم ریلوے میں ملازم تھے، کچھ برادران چھوٹے تھےاورحصولِ تعلیم میں مشغول تھے، جب کہ کچھ کی ملازمت تھی، والد صاحب کی ابھی تک کہیں ملازمت نہیں تھی؛ اس لئے کھیتی باڑی کا سارا کام کاج انھیں کے ذمہ تھا، ایسے میں پڑھنا کتنا دشوارتھا؟ وہی جان سکتے ہیں، جواس طرح کی سچویشن سے واقف ہو؛ لیکن ان کوتعلیم کاشوق تھا اوربڑا شوق تھا، شنید ہے کہ اس کے لئے وہ گھر سے پچیس پیسے لے کربھاگے بھی تھے؛ لیکن پھرواپس آگئے تھے ، تعلیم کے اسی شوق کانتیجہ تھا کہ ہمیشہ ان کے ساتھ کوئی نہ کوئی کتاب ہوتی تھی۔

والد صاحب کوئی روایتی بزرگ بھی نہیں تھے؛ لیکن وہ متقی اورپرہیزگارتھے، کذب و دروغ، لاف وگزاف اور لایعنی امورسے کوسوں دوررہتے، گاؤں میں عام رواج ہے ’’پیڑھوں‘‘ پربیٹھنے اور دنیاجہان کی سیاست کرنے کا، یہ بالکل قدیم زمانہ کی چوپال ہے، یہاں ایران توران کی باتیں ہوتی رہتی ہیں، والد صاحب کوکبھی ایسی جگہوں پربیٹھے نہیں دیکھا گیا، اپنے بچوں کوبھی ان جگہوں سے وہ دوررکھتے تھے، وہ گھر سے مسجد آتے، مسجدسے سیدھے گھر، ملازمت پر جاتے اور سیدھے گھر، بازارجاتے، پھرسیدھے گھر، راستے اورنکڑوں میں کھڑے رہ کر تبصرہ بازیوں سے وہ بہت دور رہتے تھے۔

والد صاحب کو سیاست نہیں آتی تھی، وہ سیدھے سادھے آدمی تھے؛ لیکن وہ مورائی ڈیہہ کولیری کے یونین لیڈر بھی رہے اور علاحدہ ریاست جھارکھنڈ کے لئے مہم چلانے والے تحریک کاروں میں بھی شامل رہے؛ بل کہ اس کے مرکزی لیڈروں:بنود بہاری مہتواورشیبوسورین جیسے قدرآورلیڈروں کے ساتھ اسٹیج بھی شیئرکرتے تھےاورجھارکھنڈ کی علاحدگی پرخوب خوب تقریر بھی کرتے تھے، بنود بہاری مہتو تو جھارکھنڈ کے قیام سے پہلے ہی چل بسے؛ لیکن جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے سپریموشیبوسورین ابھی بقید حیات ہیں، آندولن کے زمانہ میں کئی مرتبہ شیبوسورین ہمارے گھربھی آئے، اس آندولن کے نتیجہ میں ایک مرتبہ والدصاحب جیل بھی گئے، پھر سیاست سےان کادل اس طرح اچاٹ ہوا کہ دوبارہ مڑکربھی اس کی طرف نہیں دیکھا، کئی مرتبہ شیبوسورین نے یہ خبربھی بھی بھجوائی کہ ’’اگرجلیل بابو آتے تومیں پارٹی کاٹکٹ ان کودیتا‘‘؛ لیکن وہ سیاست کی خرابیوں کودیکھ کرایسے اوب چکے تھے کہ پھوٹی آنکھ بھی اس کی طرف نہیں دیکھتے۔

جھارکھنڈ کوعلاحدہ ریاستی درجہ ملنے کے بعد جب ان کے ساتھ کام کئے ہوئے لیڈرجلیشور مہتو دوسری پارٹی کے ٹکٹ پرکھڑے ہوئے اور گھرآئے اوروالد صاحب سے کہنے لگے: ’’دادا! توئیں کچھ نائیں کر، کھالی ہمرسنگے گڑیا میں بیٹھ رو‘‘ (بڑے بھائی! آپ کچھ نہ کریں، صرف ہمارے ساتھ گاڑی میں بیٹھیں) ، جلیشورمہتوکویقین تھا کہ اگریہ بیٹھ گئے تومیری کامیابی یقینی ہے؛ لیکن والد صاحب نے خوبصورتی کے ساتھ ٹال دیا، یہ جلیشور مہتووہی ہیں، جو جھارکھنڈ کے جل منتری رہ چکے ہیں،جلیشور مہتوکووالدصاحب سے بہت زیادہ عقیدت تھی، انھوں نے ان کی ایک تصویر فریم میں کرواکر اپنی بیٹھک میں بھی برکۃً لگارکھی ہے، والدصاحب جب بھی ان کے گھر گئے، باوجود یہ کہ سیاست سے بالکل علاحدگی اختیارکرچکے تھے اورخود جلیشور مہتوکابھی ساتھ نہیں دیاتھا؛ لیکن وہ اپنی کرسی چھوڑ کراٹھ جاتے اورکتنی ہی بھیڑ کیوں نہ ہوتی، پہلے ان کو اپنے اندرونی کمرے میں لے جاتے ، ان کی بات سنتے اوران کو رخصت کرتے، پھراپنی بیٹھک میں آتے، وہ خود جب دورہ پرآتے توگھرآکروالد صاحب سے ملتے اور چائے پی کرجاتے۔

میرے سنجھلے چچا جناب نظام الدین انصاری صاحب ایک مرتبہ کاواقعہ بیان کرتے ہیں کہ شیبوسورین نے ملنے کے لئے والدصاحب کو بوکارواپنے گھرپربلایا، جس وقت یہ دونوں وہاں پہنچے، کافی بھیڑ تھی، گیٹ کیپرنے ان کواندرجانے سے روکا، والدصاحب نے کہا: جاکرگروجی سے کہہ دوکہ مورائی ڈیہہ سے جلیل بابوآئے ہیں، گیٹ کیپرگیا اورجیسے ہی بتایا تو شیبوسورین نے کہا: ارے ان کوجلدی اندربھیجو، تم نے ان کوروکا کیوں؟ 

یونین لیڈر اورجھارکھنڈ علاحدہ ریاست کے تحریک کاروں میں ہونے کے باوجود کبھی بھی ذاتی مفاد کوسامنے نہیں رکھا، لوگ آتے اوران کے گھر کو دیکھ کرتعجب کرتے، ہمارے گاؤں کے غیرمسلم ٹھیکہ دارجناب سریندر تھے، جن کوعوامی زبان میں ’’سُرنا‘‘ کہتے ہیں، ان کی سیمنٹ وغیرہ کی دکان بھی تھی، ایک مرتبہ گھرکے سامنے گاڑی روک کرکھڑے ہوگئے اور والدصاحب سے کہا: دادا! جیتے سیمنٹ کے جرورت ہو، لے آن، اَرْ گھرواڈھائل لے‘‘(بڑے بھیا! سیمنٹ کی جتنی ضرورت ہے، لے آئیں اورگھرڈھال لیں)۔

والد صاحب کے ایک غیرمسلم دوست تھے: سادھولال، والد صاحب سے وہ بہت متاثر تھےاورخیرخواہ بھی، متاثر یوں ہی نہیں تھے؛ بل کہ سالوں برکھنے اورگھسنے کے بعد ہوئے تھے، وہ والد صاحب کودنیاکے گرسکھانے کی کوشش کرتے رہتےتھے؛ لیکن والد صاحب اپنی ہی دنیا میں مگن رہتے تھے، والد صاحب نے ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی اپنی ملازمت سے استعفیٰ دے دیاتھا، سوچئے سرکاری ملازمت سے بھلااستعفیٰ کون دیتا ہے؟ جب استعفیٰ نامہ والد صاحب نے اپنے آفس میں داخل کیا اورسادھولال کی نظراس پرپڑی تو وہ اسے اٹھا کردوڑے دوڑے گھرآئے اورامی سے کہنے لگے: بھابھی! بھیا استعفیٰ دے رہے ہیں، اتنے بال بچے ہیں اور ابھی پڑھ بھی رہے رہیں، استعفیٰ دیدیں گے توکیا ہوگا؟ ان کوروکئے، کئی دن تک وہ خود والد صاحب کوروکتے رہے؛ لیکن جب دیکھا کہ یہ اپنے فیصلہ پراٹل ہیں تووالدہ نے بھی منع نہیں کیا، یہ غالباً 2003/2002کی بات ہے۔

والدصاحب کوئی پیشہ ور عامل نہیں تھے؛ لیکن مسلم وغیرمسلم سب کے سب تیل، پانی، نمک ، سرسوں پھنکوانے کے لئے آتے تھے، سردردکے مریض، بخار کے مریض اورنہ جانے کون کون سےمریض آپ کی پھونک سے شفاپاتے تھے، اس سلسلہ میں گاؤں محلہ والے ہی نہیں؛ بل کہ تین تین چارچار کیلومیٹردور سے بھی لوگ آتے تھے اوراس میں غیرمسلموں کی تعداد زیادہ ہوتی تھی، والد صاحب نے آنے والے ان لوگوں سے کبھی ایک حبہ بھی نہیں لیا، کوئی دینابھی چاہتا توسختی کے ساتھ منع کردیتے اورغالباً پھونک میں اثرپذیری اسی وجہ سے تھی۔

والدصاحب باقاعدہ ڈاکٹرتونہیں تھے؛ لیکن ہومیوپیتھک اورایلوپیتھک دوائیں نہ صرف گھرمیں رکھا کرتے تھے؛ بل کہ لوگوں کومفت سروس بھی فراہم کرتے تھے، ایلوپیتھک دوائیں توگورنمنٹ اسپتال سے مل جاتی تھیں اور ڈاکٹرکی رہنمائی میں لے کر عام بیماریوں کی دوائیں گاؤں محلہ میں تقسیم کیا کرتے تھے، ہومیوپیتھک کی تعلیم اپنی محنت سے حاصل کی تھی، گھرمیں اردوہندی کی کئی کتابیں تھیں، ہومیوپیتھک کا ایک رسالہ بھی منگاتے تھے، غالبا یہ اعظم گڑھ سے نکلاکرتا تھا، ممکن ہے آج بھی یہ سب کسی کارٹون میں موجود ہوں۔

والدصاحب شاعرتونہیں تھے؛ لیکن کبیرکے دوہے اور اقبال وغالب کے اشعار خوب یادتھے، اقبال کوتوخوب پڑھتے تھے، شکوہ اورجواب شکوہ کے اکثراشعار یادتھےاورموقع محل کے لحاظ سے پڑھتے بھی رہتے تھے، اسی طرح بہت سارے فارسی کے اشعار بھی ان کوحفظ تھے۔(جاری)

دوسری قسط

تیسری قسط

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی