تشبہ اور اس کی حقیقت

تشبہ اور اس کی حقیقت

تشبہ اور اس کی حقیقت

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

تشبہ کی حقیقت کوجاننے کے لئے سب سے پہلے اس کی لغوی اورشرعی واصطلاحی تعریف پرنظرکرنی ہوگی، لہٰذا ہم اس کا آغاز لغوی وشرعی تعریف سے کرتے ہیں۔

لغوی تعریف:

تشبہ کاماخذ(ش ب ہ) ہے، جس کے معنی ’’مثل‘‘ کےآتے ہیں، اس بابت عربی میں تین لفظ مستعمل ہیں:(۱)الشِّبْہُ(۲) الشَّبَہُ (۳)الشَّبِیْہُ(لسان العرب، ص:۲۱۸۹)، البتہ الشَّبَہُ کے تین معنی اوربھی ہیں: (۱) مشابہت (۲) پیتل (۳)ایک خاردارنبات، جس کے پھول سرخ ہوتے ہیں(معجم الرائد، ص:۴۶۴، مصباح اللغات، ص:۳۹۷)، یہاں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ عربی میں’’مثل‘‘ اور’’مشابہت‘‘ میں تھوڑا سافرق ہے، مثلیت ہرلحاظ سے مساوات چاہتی ہے، جب کہ مشابہت ہرلحاظ سے مساوات نہیں چاہتی، اکثریت میں چاہتی ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں لیس کمثلہ شیٔ کہہ کرنفی کی گئی ہے، اسی لفظ سے ’’تشبہ‘‘ ہے، جس کے معنی’’مانند ہونے‘‘ اور’’عمل میں مشابہت کرنے‘‘ کے آتے ہیں(تشبّہ بغیرہ:ماثلہ وجاراہ فی العمل) (المعجم الوسیط، ص:۴۷۱، مصباح اللغات، ص:۳۹۷، المعجم الوجیز، ص:۳۳۵)۔

اصطلاحی تعریف:

تشبہ کی اصطلاحی تعریف مختلف علماء نے مختلف الفاظ کے ذریعہ سے کی ہے، چند تعریفات درج ذیل ہیں:

۱) علامہ نجم الدین غزّی شافعی اس کی تعریف یوں کرتے ہیں:التشبہ عبارۃ عن محاولۃ الإنسان أن یکون شبہ المتشبہ بہ، وعلی ہیئتہ، وحِلیتہ، وصفتہ، أو ہوعبارۃ عن تکلف ذلک، وتقصدہ، وتعملہ(حسن التنبہ لماورد فی التشبہ:۱/ ۱۵، مقدمۃ الکتاب)

۲) ڈاکٹرصلاح محمدسالم لکھتے ہیں:التشبہ بغیرالمسلمین: ہو المماثلۃ لہم فی فعل، أو قول دینی ، أو دنیوی( دیکھئے مقالہ: حکم التشبہ بغیرالمسلمین عندالحنفیۃ، ص:۳)

۳)ڈاکٹر ابراہیم محمود صالح قرقز لکھتے ہیں:التشبہ: یعنی مماثلۃ الغیرفی صفاتہ، وأخلاقہ، ومظہرہ، ثم مجاراتہ فی الأقوال، والأفعال، والسلوک؛ حتی یحصل لدی المتشبہ الالتباس والاختلاط، فلا یعرف الأصیل من البدیل، ولا الحسن من الردیٔ، وبذلک یتنازل المتشبہ عن شخصیتہ لینصہرفی شخصیۃ غیرہ، فیصعب التمییز بینہما(التشبہ بغیرالمسلمین وآثارہ التربویۃ علی المسلمین، ص:۱۱)

۴) علامہ مناوی لکھتے ہیں:(من تشبه بقوم) أي تزيا في ظاهره بزيهم وفي تعرفه بفعلهم وفي تخلقه بخلقهم وسار بسيرتهم وهديهم في ملبسهم وبعض أفعالهم أي وكان التشبه بحق قد طابق فيه الظاهر الباطن(فیض القدیر:۶/ ۱۳۵)

۵) جمیل بن حبیب لویحق مطیری لکھتے ہیں:تکلف الإنسان مشابہۃ غیرہ فی کل مایتصف بہ غیرہ أوبعضہ(التشبہ المنہی عنہ فی الفقہ الإسلامی، ص:۱۸)

ان تمام تعریفات کوسامنے رکھنے سے تشبہ کی جوحقیقت واضح ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ ’’اخلاق و اوصاف اورمظاہرمیں، اسی طرح اقوال وافعال، عادات واطوار اور طرزعمل میں اس طرح دوسرے کی نقل اورمماثلت اختیارکرنا کہ اصل وفرع کی تمیز مٹ جائے‘‘، اس کی مزید صراحت کرتے ہوئے شیخ فایز صلاح لکھتے ہیں:

أما معرفة حقيقة التشبه فهو:هو مماثلة الكافرين بشتى أصنافهم، في عقائدهم، أو عباداتهم،أو عاداتهم، أو في أنماط السلوك التي هي من خصائصهم والتي لم يفعلوها بحكم الإنسانية(https://islamicsham.org/article/3892)

جہاں تک حقیقتِ تشبہ کی معرفت کاتعلق ہے تووہ مختلف امور میں غیروں کی مماثلت اختیارکرناہے، جیسے:عقائد، عبادات، عادات، اطواراوراس طرز عمل میں، جوان کی خصوصیت ہے اورجس کوانھوں نے انسانیت کی بنیاد پرانجام نہیں دیاہے۔

خلاصہ یہ کہ تشبہ کی حقیقت یہ ہے کہ’’عقائد، عبادات، اخلاق واوصاف اورمظاہر، اسی طرح اقوال وافعال، عادات و اطواراوراس طرزعمل میں، جو خصوصیت اورشعارکا درجہ رکھتاہے اورجس کو انسانیت کی بنیادپرانجام نہیں دیا جاتا ہے، قصداً وعمداً اس طرح دوسرے کی نقل اورمماثلت اختیارکرناکہ اصل وفرع کی تمییز مٹ جائے‘‘،گویااردوکامحاورہ’’کواچلاہنس کی چال، اپنی چال بھول گیا‘‘ اس پر صادق آجائے۔

وہ افعال، جن پرتشبہ کااطلاق ہوتا ہے

تشبہ کی قسمیں

حدیث ’’من تشبہ بقوم فہو منہم‘‘ کا درجہ

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی