حدیث ’’من تشبه بقوم فهومنهم‘‘ کا درجہ
تشبہ کے تعلق سے ایک حدیث ’’من تشبه بقوم فهومنهم‘‘ کو کثرت کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے، اب سوال یہ ہے کہ یہ حدیث کس درجہ کی ہے؟ یہ جاننا اس لئے ضروری ہے؛ تاکہ تشبہ کے سلسلہ میں جو کچھ اشکال و اعتراض ہے، وہ رفع ہوجائے۔
اس سوال کاجواب یہ ہے کہ یہ حدیث پانچ لوگوں سے مروی ہے، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت حذیفہ اورحضرت انس رضی اللہ عنہم سے مرفوعاً، جب کہ حضرت حسنؓ سے مرسلاً اورحضرت عمرؓ سے موقوفاً۔
حدیث ابن عمر
اس کی تخریج امام ابوداود نے اپنی سنن میں(4/ 44 / 4013)،امام احمد نے اپنی مسند میں(2/ 50، 92/ 5114، 5115، 2667)،عبدبن حمید نے المنتخب میں(848)،ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں(4/ 212) و (6/ 471 / 33016)، طبرانی نے مسند الشامیین میں(1/ 135 / 216)،خطیب بغدادی نے الفقیہ والمتفقہ میں(ص 205)،ہروی نے ذم الکلام میں(54 / ب)،ابن الأعرابی نے معجم میں(ص 222)،امام بیہقی نے شعب الایمان میں(2/ 75/ 1199)،ابن الجوزی نے تلبیس ابلیس میں(ص 189)، مِزِّی نے تہذیب الکمال میں(34/ 324)،امام ذہبی نے سیراعلام النبلاء میں(15/ 509) اورابن حجرنے تغلیق التعلیق میں(3/ 445)کی ہے۔
یہ حدیثدرج ذیل سند سے اس طرح مروی ہے:
عبدالرحمن بن ثابت، حدثنا حسان بن عطية، عن أبي منيب الجرشي، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله ﷺ:
’’بعثت بين يدي الساعة بالسيف حتى يعبد الله، وجعل رزقي تحت ظل رمحي، وجعل الذلة والصغار على من خالف أمري، ومن تشبه بقوم فهو منهم‘‘.
اس حدیث کی سندی حیثیت کے تعلق سے علامہ ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں:
هذا إسناد جيد، فإن ابن أبي شيبة وأبا النضر وحسان بن عطية ثقات مشاهير أجلاء من رجال الصحيحين وهم أجل من أن يحتاجوا إلى أن يقال: هم من رجال الصحيحين.وأما عبد الرحمن بن ثابت بن ثوبان فقال يحيى بن معين ،وأبو زرعة ،وأحمد بن عبد الله ،ليس به بأس،وقال عبد الرحمن بن إبراهيم دحيم :هو ثقة، وقال أبو حاتم : هو مستقيم الحديث ،وأما أبو منيب الجرشي فقال فيه أحمد بن عبد الله العجلي: هو ثقة وما علمت أحدا ذكره بسوء وقد سمع منه حسان بن عطية، وقد احتج الإمام أحمد وغيره بهذا الحديث.(اقتضاء الصراط المستقیم: ۱/ ۲۷۹۔۲۷۰)
یہ بہترین اسناد ہے؛ کیوں کہ ابن ابی شیبہ، ابوالنضر اورحسن بن عطیہ صحیحین کے ثقہ اور مشاہیر وممتاز افراد میں سے ہیں اور اتنے ممتاز ہیں کہ انھیں صحیحین کے رجال وافراد میں کہنے کی ضرورت نہیں، جہاں تک عبدالرحمن بن ثابت بن ثوبان کا تعلق ہے تو یحییٰ بن معین، ابوزرعہ اوراحمد بن عبداللہ حضرات نے انھیں لابأس بہ بھروسہ مند لوگوں میں شمار کیا ہے، عبدالرحیم بن ابراہیم دحیم کہتے ہیں کہ وہ ثقہ ہیں، ابوحاتم کہتے ہیں کہ وہ مستقیم الحدیث(درست حدیث والے) ہیں، رہی بات ابومنیب جرشی کی تو احمد بن عبداللہ ان کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ ثقہ ہیں اورمیں کسی ایسے کونہیں جانتا، جو ان کا تذکرہ برائی کے ساتھ کرتا ہو، حسن بن عطیہ نے ان سے حدیث سنی ہےاور امام احمد وغیرہ نے اس حدیث کوبطور دلیل نقل کی ہے۔
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:’’أبوالمنیب الجرشی، بضم الجیم وفتح الراء بعدها معجمة الدمشقی، ثقة، من الرابعة‘‘.(تقریب التهذیب، ص:۱۲۱۱، نمبرشمار:۸۴۶۱)
جہاں تک عبدالرحمن بن ثوبان کا تعلق ہے تویہ مختلف فیہ راوی ہیں؛ چنانچہ ایک جماعت نے ان کی توثیق کی ہے، جب کہ دوسری جماعت نے تضعیف کی ہے، توثیق کرنے والوں میں ابوحاتم، دحیم، فلاس، ابن حبان، ابوداود،صالح بن محمداورابن عدی وغیرہ ہیں،جب کہ تضعیف قراردینے والوں میں امام احمد، مرہ، امام نسائی اور ابن خراش وغیرہ ہیں، امام ابوزرعہ اور یحییٰ بن معین وغیرہ سے توثیق وتضعیف دونوں طرح کے اقوال ملتے ہیں، دراصل عبدالرحمن ایک زاہد قسم کے آدمی ہیں اوران کی تضعیف قدریہ کی طرف نسبت کی وجہ سے کی گئی ہے، اسی لئے حافظ ابن حجرؒ اس کے تعلق سےلکھتے ہیں اور صحیح لکھتے ہیں:صدوق یخطیٔ، ورمی بالقدر، وتغیربآخرہ (تقریب التهذیب، ص:۵۷۲، نمبرشمار:۳۸۴۴)،نیز امام اوزاعی نے اس کی متابعت بھی کی ہے (أخرجه الطحاوي في "المشكل"(1/ 88–ط: الهندية)؛ اس لئے کلیتاً ناقابل استدلال نہیں کہاجاسکتا۔
حدیث حذیفہ
اس کی تخریج بزار (7/ 368 / 2966)اورطبرانی نے المعجم الاوسط (8/ 179 / 8327)میں کی ہے، یہ حدیث اس طرح مروی ہے:
عن محمد بن مرزوق، قال أخبرنا: عبدالعزيز بن الخطاب، قال: أخبرنا علي بن غراب، قال: أخبرنا هشام بن حسان، عن محمد بن سيرين، عن أبي عبيدة بن حذيفة، عن أبيه رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من تشبه بقوم فهو منهم".
پھرامام بزارنے اس پرتبصرہ کرتے ہوئے یہ لکھا ہے: وهذا الحديث لا نعلمه يروى عن حذيفة مسندا إلا من هذا الوجه، وقد رواه علي بن غراب، عن هشام، عن محمد، عن أبي عبيدة، عن أبيه، موقوفاً.
ہیثمی اس کے تعلق سے لکھتے ہیں:"رواه الطبراني في الأوسط، وفيه علي بن غراب وقد وثقه غير واحد، وضعفه بعضهم، وبقية رجاله ثقات".(مجمع الزوائد:۱۰/ ۲۷۱)
تاہم علی بن غراب کے بارے میں صحیح بات وہ ہے، جوحافظ ابن حجرنے لکھا ہے، وہ لکھتے ہیں:"صدوق، وكان يدلس، ويتشيع".(تقریب التہذیب، ص:۷۰۳، نمبرشمار:۴۸۱۷)، محمدبن مرزوق اورعبدالعزیزبن خطاب بھی صدوق ہیں، نیزیحییٰ بن سعید نےابن سیرین کی متابعت بھی کی ہے، اس لحاظ سے یہ روایت بھی ناقابل استدلال نہیں ہے۔
حدیث انس
اس کی تخریج ابونعیم نے اخباراصفہان(1/ 129)میں اورہروی نے ذم الکلام (54 / أ – ب)میں کی ہے، اس کی سند یوں ہے:
بشر بن الحسين الأصبهاني، ثنا الزبير بن عدي، عن أنس بن مالك، مرفوعاً، مثله.
یہ سندکافی ضعیف ہے، بشربن الحسین کے بارے میں امام بخاری نے ’’فیہ نظر‘‘ کہاہے، امام دارقطنی نے اسے متروک قراردیاہے اورابوحاتم نے ’’یکذب علی الزبیر‘‘ کہا ہے۔
مرسل حسن
اس کی تخریج سعید بن منصورنے اپنی سنن(2/ 177 / 2370) میں ذیل کی سند سے نقل کیاہے:
عن إسماعيل بن عياش، عن أبى عمير الصورى، عن الحسن، مرفوعاً، مثله.
اس سند میں اسماعیل بن عیاش ہیں، جوضعیف ہیں، نیز ابوعمیر کے بارے میں ابوحاتم ’’الجرح والتعدیل‘‘(2/ 300)میں لکھتے ہیں:"من عباد الله الصالحين يتكلم بالحكمة".
موقوف عمر
اس کی تخریج عبدالرزاق نے اپنی مصنف(11/ 453)میں ذیل کی سند سے نقل کیا ہے:
عن معمر، عن قتادة، أن عمر بن الخطاب رأى رجلاً قد حلق قفاه ولبس حريراً، فقال: "من تشبه بقوم فهو منهم ".
اس میں حضرت قتادہ نے حضرت عمرؓ سے روایت کی ہے اورتحقیقی بات یہ ہے کہ انھوں نے حضرت عمرؓ سے سماع نہیں کیا ہے۔
ان تمام باتوں سے معلوم ہوا کہ من تشبہ بقوم فہومنہم کی روایت ’’حسن‘‘ درجہ کی ہے؛ بل کہ اپنے متابعات اورشواہد کی وجہ سے ’’صحیح لغیرہ‘‘ تک بھی پہنچ سکتی ہے، ہذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب! (تفصیل کے لئے دیکھئے: التشبہ المنہی عنہ فی الفقہ الإسلامی، ص:۲۳-۲۷، إتحاف المعلم بثبوت حديث: " من تشبه بقوم فهو منهم "لأبی المنهال الأبيضي:https://al-maktaba.org)
ایک تبصرہ شائع کریں