تشبہ کی قسمیں
محمد جمیل اختر جلیلی ندوی
بنیادی طورپر تشبہ کی دوقسمیں ہیں:(۱) تشبہ محمود(۲) اورتشبہ مذموم۔
تشبہ محمود
اس سے مراد ایسا تشبہ، جس کی ممانعت کی بجائے، انجام دینے کا حکم حتمی یاغیرحتمی طورپرموجود ہو، اس کی درج ذیل قسمیں ہیں:
(الف)فرض:اس سے مراد ان معاملات میں نبی کریم ﷺ کی مشابہت ہے، جن کی پیروی ضروری ہے، جیسے: نماز، روزہ اورحج وغیرہ، اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے: لَقَدۡ كَانَ لَكُمۡ فِىۡ رَسُوۡلِ اللّٰهِ اُسۡوَةٌ حَسَنَةٌ(الأحزاب:۲۱)، نیزنبی کریم ﷺ کافرمان ہے: صلوا کمارأیتمونی أصلی(صحیح البخاری، حدیث نمبر:۶۳۱، صحیح مسلم، حدیث نمبر:۶۷۴)، دوسری حدیث میں ہے: خذوا عنی مناسککم(صحیح البخاری، حدیث نمبر:۱۲۹۷)
(ب)واجب:اس سے ان افعال میں نبی کریم ﷺکی مشابہت مراد ہے، جن کوآپﷺ بطورعبادت مداومت کے ساتھ اداکرتے تھے، جیسے: وترکی نماز، صدقۂ فطرکی ادائے گی، قربانی، عیدین کی نمازوغیرہ۔
(ج)سنت:اس سے مراد ان افعال میں مشابہت ہے، جن کی پیروی ہمارے اوپر نہ توفرض ہے اورنہ واجب، جیسے: خوارک، لباس وپوشاک، معاشرت وغیرہ۔
(د)مستحب:اس سے مراد وہ تشبہ ہے، جوعادات اور معاملات میں صحابہ کرام اور سلف صالحین کے طریقوں کا اختیارکیاجائے، یہ بھی پسندیدہ اورمستحب ہے، اس کی تائید ایک ضعیف حدیث سے ہوتی ہے، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:خیرشبابکم من تشبه بکهولکم، وشر کهولکم من تشبه بشبابکم(شعب الإیمان للبیہقی، حدیث نمبر:۷۸۰۶)، اس تشبہ کے تعلق سے استاذ گرامی قدرحضرت مولانا خالدسیف اللہ رحمانی مدظلہ فرماتے ہیں:’’ہرجگہ کے اہل دین اورثقہ لوگوں کا جولباس ہو، اس کی اتباع زیادہ بہتر اورمستحب ہے‘‘۔(کتاب الفتاوی:۶/ ۹۵)
تشبہ مذموم
اس سے مراد ایسا تشبہ، جس کی ممانعت آئی ہوئی ہو، اس کی بھی کئی قسمیں ہیں، جودرج ذیل ہیں:
(الف)عجمیوں کی مشابہت۔
(ب) اہل جاہلیت کی مشابہت۔
(ج)شیطان کی مشابہت۔
(د)بدعتیوں کی مشابہت۔
(ھ)فساق کی مشابہت۔
(و)مردوں کے لئےعورتوں کی مشابہت۔
(ز)عورتوں کے لئے مردوں کی مشابہت۔
(ح)دیہاتیوں(اعراب) اوران کے ہم جیسوں کی مشابہت۔
(ط)حیوانات کی مشابہت۔
(ی)کفار کی مشابہت وغیرہ۔
ان تمام میں مشابہت کی وجوہات میں سےکفر، فسق، بدعت، جاہلی عادات وعبادات، شیطانی افعال، مرد وعورت، نیز انسان کی خصوصیت کی عدم رعایت اورناواقفیت اورعلم کی کمی وغیرہ ہیں، جن کی وجہ سے صحیح اسلامی تعلیمات پرنہ صرف یہ کہ عمل نہیں ہوسکتا؛ بل کہ بعض پرعمل درآمدگی کفروشرک تک پہنچاسکتاہے؛ اس لئے ان کی مشابہت سے روکا گیا ہے؛ البتہ اگرعمومی مشابہت کی بات کرتے ہوئے یہ سوال کیا جائے کن امورمیں مشابہت کفر، کن میں مکروہ اورکن میں مباح ہے تواس سلسلہ میں یہ کہاجاسکتا ہےکہ:
۱)عقائد وعبادات میں تشبہ اختیار کرنا کفر ہے، جیسے: کافرانہ عقائد ونظریات اختیار کرلیے جائیں یا ان جیسی عبادت مثلا بتوں کو سجدہ وغیرہ کیا جائے، اس سے انسان بلا شبہ کافر ہوجاتا ہے ۔
۲)مذہبی رسومات میں تشبہ اختیار کرنا حرام ہے، جیسے: نصاری کی طرح صلیب لٹکانا ،ہندؤوں کی طرح زنار باندھنا، وغیرہ یہ سب حرام ہیں اور ان کے مرتکب پرکفر کا قوی اندیشہ ہے؛ کیون کہ علی الاعلان شعار کا اختیار کرنا کفر پر راضی ہونے کی دلیل ہے ۔
۳)عادت ومعاشرت اور قومی شعار میں تشبہ اختیار کرنا مکروہ تحریمی ہے؛ البتہ اگر یہ شعار اس قدر عام ہوجائے کہ اس کا استعمال دوسری اقوام میں بھی عام ہوجائے اور ہر طرح کے لوگ اس کو استعمال کرنے لگیں اور تشبہ باقی نہ رہے تو محض تشبہ کی وجہ سے کراہت کا حکم نہ ہوگا ۔
۴)ایجادات و انتظامات وغیرہ میں تشبہ اختیار کرنا مباح ہے، جیسے: توپ، بندوق اور ہوائی جہاز، موٹر اور مشین گن وغیرہ؛ کیو ں کہ شریعتِ اسلامیہ نے ایجادات کے طریقے نہیں بتلائے، ایجادات اور صنعت وحرفت کو لوگوں کی عقل،تجربہ اور ان کی ضرورت پرچھوڑ دیا ہے؛ البتہ اس کے احکام بتلادیئے کہ کونسی صنعت وحرفت جائز ہے اور کس حد تک جائز ہے؟(مستفاد ازسیرۃ المصطفی:۳/ ۳۶۶و۳۶۷)
اصول وضوابط
اب آیئے!تشبہ کے تعلق سے کچھ اصول وضوابط پر نظر ڈالتے ہیں؛ تاکہ تشبہ کوسمجھنے میں مزید آسانی ہوجائے، ان اصول کی دوقسمیں ہیں، ایک عمومی اصول، یہ درج ذیل ہیں:
۱)لاتشبه إلا بنیة۔
۲) یحرم التشبه فی العقیدۃ۔
۳)یحرم التشبه بهم فی العبادات۔
۴)التشبه بالکفار إنما یکون فی شیٔ اختصوا به من ھیئة أو ملبس۔
۵)إذا فعل الکفار فعلاً یفعله المسلمون، فإن ذلک لایوجب علی المسلمین ترک الفعل۔
۶) ماورد نص شرعی بالنهی عنه فإن حکم فعله یؤخذ من النص ، وإن لم یقصد به التشبه۔
۷)الاستفادۃ من علوم الکفار وصناعاتهم لاعلاقة له بموضوع التشبه۔
مردوں اورعورتوں کے تعلق سے اصول
دوسرے مردوں اورعورتوں کے تعلق سے اصول، یہ درج ذیل ہیں:
۱) مااختص به أحدہما شرعاً منع منه الآخر۔
۲) مااختص به أحدهما عرفاًمنع منه الآخر۔
۳)ماورد فیه دلیل شرعی یقتضی جوازہ لهما ینتفی فیه التشبه۔
۴)ماکان من أصل الخلقة یعفی عن التشبه فیه إن عجز عن تغییرہ۔ (دیکھئے:ضوابط التشبه المنهی عنه فی الشریعة الإسلامیة للدکتورۃ سامیة بنت عبدالله البخاری)
ایک تبصرہ شائع کریں