وہ افعال، جن پرتشبہ کا اطلاق ہوتا ہے
محمد جمیل اختر جلیلی ندوی
بہت سی چیزوں میں فطری طورپرمماثلت پائی جاتی ہے اورایک ہی معاشرہ میں رہنے والے لوگ اس کو اختیار کرتے ہیں توکیا ہرتشبہ کی ممانعت ہے یاخاص نوعیت کا تشبہ مراد ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ انسان سے صادرہونے والے افعال کی بنیادی طورپرتین قسمیں ہیں:
۱)افعال طبعیہ: جسے فطری یاقدرتی افعال بھی کہتے ہیں، اس کے تحت وہ افعال آتے ہیں، جوخالص بشری تقاضے کانتیجہ ہوں، ان افعال کوادا کرنے میں انسان فطری تقاضوں کے تحت مجبورہوتا ہے، جیسے: سرکوجنبش دینا، ہاتھ کوہلانا، جسم کو کھجلانا، پلکیں جھپکانا، کھانا، پینا، سونا، جاگنا، چلناپھرنا، اٹھنا بیٹھنا، سترکوڈھانکنا وغیرہ، جنسی ضروریات کی تکمیل بھی اسی میں شامل ہے۔
۲)افعال عادیہ: اس کے تحت انسان کے وہ افعال آتے ہیں، جنھیں وہ ایک خاص طرز وکیفیت کے ساتھ انجام دیتا ہے، جیسے: کھانے، پینے، سونے، جاگنے، اٹھنےبیٹھنے، چلنے پھرنے اورکھڑے ہونے کی عادات وغیرہ، جیسے عمربن عبدالعزیرؒ کی چال’’مشیۃ عمر‘‘ کے نام سے مشہورتھی۔
۳)افعال اختیاریہ: اس کے تحت انسان کے وہ افعال آتے ہیں، جن کو وہ اپنی مرضی اوراختیارسے سرانجام دیتاہے، اگر چاہے تووہ ان افعال کوانجام دے اوراگرچاہے توان افعال کو انجام نہ دے، جیسے: نکاح کرنا، کمائی کے ذرائع اختیار کرنا وغیرہ۔
مذکورہ بالا تینوں قسموں میں سے پہلی قسم(افعال طبعیہ) پرتشبہ کا اطلاق نہیں ہوگا؛ چنانچہ علامہ ابن نجیم مصری لکھتے ہیں:
اعْلَمْ أَنَّ التَّشْبِيهَ بِأَهْلِ الْكِتَابِ لَا يُكْرَهُ فِي كُلِّ شَيْءٍ فَإِنَّا نَأْكُلُ وَنَشْرَبُ كَمَا يَفْعَلُونَ، إنَّمَا الْحَرَامُ هُوَ التَّشَبُّهُ فِيمَا كَانَ مَذْمُومًا وَفِيمَا يُقْصَدُ بِهِ التَّشْبِيهُ كَذَا ذَكَرَهُ قَاضِي خَانْ فِي شَرْحِ الْجَامِعِ الصَّغِيرِ فَعَلَى هَذَا لَوْ لَمْ يَقْصِدْ التَّشَبُّهَ لَا يُكْرَهُ عِنْدَهُمَا(البحرالرائق،باب مایفسد الصلاۃومایکرہ فیہا :۲/ ۱۸)
حضرت مولاناقاری طیب صاحب ؒ رقم طراز ہیں:’’بہر حال مسئلہ تشبہ کا تعلق اضطراری اورتکوینی امورسے کچھ نہیں، وہ تودیگرمسائل شرعیہ کی طرف اختیاری امورپردائر ہے؛ لیکن اختیاری امورکی دوقسمیں ہیں: طبعی اورقسری، طبعی افعال سے ہماری مراد یہ ہے کہ وہ اختیاری ہونے کے ساتھ ساتھ جبلّت وخلقت کے کسی اندرونی داعیہ سے سرزد ہوں، نہ کہ کسی بیرونی تعلیم اورسکھلانے یابتلانے سے، جیسے: کھانا پینا وغیرہ کہ گووہ انسان کااختیاری فعل ہے؛ مگر اس کا منشا(بھوک پیاس)غیراختیاری ہے؛ اس لئے یہ باوجود اختیاری ہونے کے بھی چوں کہ طبعی ہے؛ اس لئے گویااضطراری ہے، پس اس میں بھی ہم ترک تشبہ کے مکلف نہ ہوں گے‘‘۔(التشبہ فی الاسلام، از: قاری طیب صاحب، ص:۶۸)، اسی طرح جن باتوں کا تعلق علوم و فنون یا خالص دنیاوی امور سے ہے، جیسے: صنعت و حرفت اور اسلحہ سازی وغیرہ تو ان میں بھی مشابہت منع نہیں ہے۔
جہاں تک افعال عادیہ کاتعلق ہےتویہ گرچہ طبعیہ میں داخل ہیں؛ لیکن یگ گونہ فرق ہے؛ کیوں کہ ایک مومن بندہ اپنی ہرچیز میں انفرایت رکھتا ہے اور کسی بھی امرکوانجام دینے میں خاص طریقہ اختیارکرتا ہے، لہٰذا کھاناکھانے پرتوتشبہ کا اطلاق نہیں ہوگا؛ لیکن بیٹھنے کے انداز اورطورطریقہ پرتشبہ کاضرور اطلاق ہوگا؛ اس لئے ایسی چیزسے بچناضروری ہوگا؛ البتہ اگر اس طرح کی مشابہت اسلامی معاشرے میں اس قدر رائج ہوجائے کہ مشابہت کا پہلو بالکل ذہنوں سے نکل جائے تو اب وہ طریقہ غیرشرعی ہونے سے نکل کر جواز کی حدود میں داخل ہوجائے گا، جیسے: کرسی ٹیبل پر کھانا، کالر والا لباس پہننا ٹراؤزر پہننا، سالگرہ منانے کو بھی اس میں شامل کرسکتے ہیں، جب کہ اسے ثواب اور عبادت نہ سمجھا جائے۔
رہی بات افعال اختیاریہ کی تواس میں بھی تشبہ کااطلاق ہوتا ہےاورایک مسلم کوان افعال میں غیرکی مشابہت اختیار کرنے سے پرہیز کرناچاہئے۔(PDFمجلہ علوم اسلامیہ ودینیہ، جنوری-جون۲۰۱۸ء، جلد:۳،شمارہ:۱، مضمون:تشبہ کی حقیقت، اقسام اوراحکام کافقہاء کی آراء کی روشنی میں تحلیلی مطالعہ، از: ڈاکٹرعصمت اللہ فیکلٹی آف لاء اینڈ شریعہ، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد، پاکستان)
مذکورہ سطور سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ فطری امورمیں مماثلت تشبہ میں داخل نہیں ہے، مولانااشرف علی تھانویؒ سے جب اس بابت سوال کیا گیا توانھوں نے جواب دیتے ہوئے لکھا:
’’فطری امور میں مشابہت ،مثلاً کھانا پینا، چلنا پھرنا،سونا لیٹنا، صفائی رکھنا وغیرہ یہ مشابہت حرام نہیں، قال فی الدر:فان التشبہ بھم لایکرہ فی کل شی بل فی المذموم وفیما یقصد بہ التشبہ کما فی البحراھ قال الشامی تحت قولہ لایکرہ فی کل شیٔ فاناناکل ونشرب کمایقعلون اھ(ص ۶۵۲ج ۱)‘‘۔(امدادالاحکام، کتاب مایتعلق بالحدیث والسنۃ:۲۸۶)
البتہ اب سوال یہ ہے کہ کن امورمیں تشبہ معتبرہے؟ اس سلسلہ میں علامہ مناوی ؒ نے لکھا ہے کہ قلبی امورمیں عقائد اور خارجی امورمیں عادات وعبادات میں تشبہ کا وقوع ہوتا ہے، ہر طرح کے افعال واعمال میں نہیں، وہ لکھتے ہیں:
والتشبہ یقع فی الأمورالقلبیۃ من الاعتقادات والارادات، ویقع فی الأمورالخارجیۃ الظاہرۃ من العبادات والعادات(فیض القدیر:۶/ ۱۰۴)
ایک تبصرہ شائع کریں