ایک شاہکارکتاب:فقہی قواعد-جدیدتحقیق وتطبیق
آن لائن تعلیم وتدریس کی دنیا میں ایک نمایاں نام مفتی محمد زبیر ندوی صاحب کا ہے، اگر یہ کہا جائے کہ وہ اس وقت ہندوستان کے علماء میں آن لائن طریقۂ تعلیم کے بے تاج بادشاہ ہیں تو یہ بے جا نہیں ہوگا، کرونا کے زمانے میں انھوں نے اس تعلیم کا آغاز کیا تھا، اگرچہ کہ بہت سارے اکابر آج بھی اس طرز کو ناپسند کرتے ہیں؛ لیکن مفتی زبیر صاحب کے پیش نظر معاشرہ کی ڈیمانڈ اور سم تھنگ از بیٹر دین نتھنگ کا اصول رہا ہےاورحقیقت میں ایسے ہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں، انھوں نے بھی اپنی اس روش کو جاری رکھا اور الحمدللہ کامیابی کے منازل طے کرتے ہوئے بام عروج کوپہنچ رہےہیں، کامیابی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے پاس تشنگان علوم کا تانتا بندھا رہتا ہے اورحالت بہ ایں جارسید کہ آئندہ سال کے لیے داخلہ جاری ہے، جوشوال کے بعد بند ہوجائے گا، طلبہ کے اس ہجوم کو دیکھتے ہوئے آپ مفتی صاحب کی طرز تعلیم کا بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ اپنے طلباء کے درمیان کتنے مقبول ہیں، ظاہر ہے کہ طلبہ ہی اپنے اساتذہ کے لیے تعارف کا ذریعہ بنتے ہیں تو ان کے طلباء نے مفتی صاحب کے اندر ایک کامیاب معلم ،مدرس اور مدرب کو دیکھا، اسی وجہ سے اپنے احباب واعزہ اور دوستوں کو وہ مفتی صاحب کے آن لائن افتاء کورس میں داخلے کے لیے رہنمائی کرتے ہیں۔
مفتی زبیرصاحب جس طرح تدریس میں مہارت رکھتے ہیں، اسی طرح تحریری مذاق بھی ان کا کافی عمدہ ہے،عربی زبان و ادب کے ساتھ ساتھ اردو زبان و ادب کا بھی کافی اچھا ذوق رکھتے ہیں، مرنجا مرنج طبیعت کے مالک ہیں، ان کی سنگت نہ صرف بوریت سے دورہوتی ہے؛ بل کہ موقع ومحل کے موافق اشعار مضمحل طبیعتوں میں تازگی پیدا کردیتے ہیں، مفتی صاحب اصل میں تو میدانِ فقہ وفتاوی کےشہسوار ہیں؛ لیکن اس سے پہلے وہ ایک ادیب ہیں، انھوں نے دارالعلوم ندوۃ العلماء سے عالمیت کی تکمیل کے بعد حیدرآباد کے المعہد العالی الاسلامی میں تخصص فی الفقہ کے ساتھ ساتھ شعبۂ تحقیق میں بھی ایک سال لگایا ہے، انھوں نے سوشل میڈیا سے بھی کافی فائدہ اٹھا یاہے، انھوں نے مستقل واٹس ایپ کے گروپوں میں فتاوے لکھے ہیں، ان کے فتاوے معتدل اور حوالہ جات سے پرہوتے ہیں۔
انھوں نےجب آن لائن افتاء کی تعلیم کا آغاز کیا تو قواعد فقہ کی تدریس کے لیے مجلۃالاحکام العدلیہ کے 99 قواعد کا انتخاب کیا، دوران تدریس یہ محسوس کیا کہ اردو زبان میں اس فن پر خاطر خواہ کام نہیں ہوا ہے تو انہوں نے ان قواعد کو جدید تحقیق اور تطبیق کے ساتھ علمی دنیا کے سامنے پیش کرنے کا ارادہ کیا ؛چنانچہ انھوں نے کافی محنت اور انتھک کوششوں کے بعد’’فقہی قواعد- جدید تحقیق و تطبیق‘‘ کے نام سے اس فن پر ایک گراں قدرکتاب علمی دنیا کے سامنے پیش کیا، یہ کتاب۸۰۰ صفحات پر محیط ہے، اس کتاب میں انھوں نے جو منہج اختیار کیا ہے، وہ کافی عمدہ اور استفادہ کرنے والوں کے لیے دلچسپی کا باعث بھی ہے، یہ منہج درج ذیل ہے:
♦قواعد فقہیہ کے تعارف اور تاریخ تدوین پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے، قواعد کی تفہیم ، تنویع اور تمام مسالک میں ہوئے کاموں کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے، نیز چار ادوار میں اس کی تدوینی مراحل ذکر کیے گئے ہیں اور ہر دور کی تفصیلات اور تصنیفات کا بھرپور جائزہ لیا گیا ہے۔
♦مجلۃ الاحکام العدلیہ کے 99 قواعد میں سے ہر قاعدے کے مترادف قواعد کو معتبر حوالہ جات سے نقل کرنے کا التزام کیا گیا ہے۔
♦قواعد کے مفردات کی تحقیق میں لغوی معنی کی وضاحت اور اگر وہ اصطلاحی معنی میں مستعمل ہو تو اس کی توضیح، نیز قاعدے میں مرادی معنی کی تعین بھی کر دی گئی ہے۔
♦ایک اہم کام یہ کیا گیا ہے کہ ایک قاعدے کے علاوہ باقی تمام قواعد کی اصل قرآن و حدیث یا آثار صحابہ سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور وجہ استدلال بھی لکھ دی گئی ہے؛ تاکہ قارئین کو طریقۂ استنباط سمجھ میں آجائے۔
♦قواعد کی تشریح و توضیح، اہمیت اور دائرہ کار کی وضاحت کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کن کن ابواب میں مذکورہ قاعدہ جاری ہوتا ہے۔
♦اس کتاب کی ترتیب میں ایک بات یہ بھی مدنظر رکھی گئی ہے کہ اصول فقہ کے وہ تمام ضروری مباحث اور فقہ کی ان تمام اہم ترین بحثوں کا خلاصہ آجائے، جو اس قاعدہ سے متعلق ہیں۔
♦ہر قاعدہ کی پانچ قدیم مثالیں اس انداز میں لکھی گئی ہیں کہ 99 قواعد میں کوئی مثال مکرر نہ ہو ، اسی طرح جدید مسائل کی تطبیق باحوالہ کی گئی ہے، یعنی نفس مسئلہ کا حکم کیا ہے؟ اس کے لیے حوالہ ہے؛ البتہ تطبیق کا انداز مصنف کا ذاتی ہے۔
♦جن قواعد میں مستثنیات ہیں، ان کی مستثنیات کے استیعاب کی کوشش کی گئی ہے اور استثناء کے وجوہات پر بطور خاص توجہ دی گئی ہے؛ تاکہ قاری کی الجھن دور ہو سکے اور فقہ میں بظاہر تضاد سے اس کا اشکال دور ہو کر تفقہ کی شان پیدا ہو۔
♦اخیر میں مذکورہ قواعد پر جو مستقل کتابیں یا رسائل و مقالات لکھے گئے ہیں، ان کی نشاندہی کی گئی ہے اور ان پر باضابطہ تبصرہ کیا گیا ہے؛ تاکہ مزید کے خواہاں قارئین اپنی تشنگی بجھا سکیں۔(فقہی قواعد-جدیدتحقیق وتطبیق، مقدمہ،از: مولانانعمت اللہ صاحب، ص:۴۲)
یہ جو منہج اختیار کیا گیا، یہ ہر قاعدہ میں دیکھا جا سکتا ہے، مولانا کے اس کام کوآپ ایک اکیڈمی کا کام کہہ سکتے ہیں یا پھر بڑے اداروں میں جو دارالافتاء اور دارالقضاء ہیں، جہاں وسائل وسہولیات کی بھرمارہے، ان لوگوں کا یہ کام کہا جا سکتا ہے؛ لیکن تن تنہا مولانا نے اس کام کو بخوبی انجام دیا، جس سے علمی وتحقیقی میدان میں ان کی کوہ پیمائی اورعالی حوصلگی کااندازہ لگاسکتےہیں۔
مولانا کا یہ کام لائق ستائش اور فقہ و فتاوی سے تعلق رکھنے والوں کے لیے خصوصی دلچسپی کی چیز ہے، مولانا کی اس کتاب کے معتبر ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ اس کی تقریظ، پیش لفظ اور مقدمہ جماعتِ علماء کےمعتبر لوگوں کے نوکِ قلم سے ہے، علم و تحقیق کی دنیا کا نمایاں نام: حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب دامت برکاتہم (استاذ: دارالعلوم دیوبند)، فقہ و فتاوی کی دنیا کا معروف نام: فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب، روایاتِ اکابر پرکاربندمعتبرنام: حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب دامت برکاتہ(مہتمم: دارالعلوم دیوبند)، کل ہند پیام انسانیت کے جنرل سکریٹری اور ندوۃ العلماء جیسے عالمی اورباوقاراداہ کے ناظم: حضرت مولانا سید بلال عبدالحی حسنی ندوی دامت برکاتہ، مولانا مفتی محمد سلمان منصور پوری صاحب مدظلہ العالی(استاذ:دارالعلوم دیوبند)، مولانا مفتی شبیر صاحب مدظلہ العالی (شیخ الحدیث و صدر مفتی: جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد)اور اسی طرح مظاہر علوم(دارجدید) سہارنپور کے بااعتماد مفتی جناب مولانا محمد طاہر صاحب زید مجدہ وغیرہ ثقہ اور معتبر لوگوں کے دیباچہ، تقریظ اور پیش لفظ وغیرہ سے اس کتاب کی اعتباریت دو چند ہو جاتی ہے، پھر اس کتاب کے تعلق سے ان حضرات نے اپنے جوتاثرات پیش کیے ہیں، ان سے بھی اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں؛ چنانچہ حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب رقم طراز ہیں:
’’یہ کتاب معتبر اور مستند حوالوں سے مزین اور اپنے موضوع پر کافی محیط اور معلومات سے پر کتاب ہے، مواد کے اعتبار سے مصنف نے محنت کر کے ایک علمی کتاب بنا دی ہے، یہ کتاب قواعد فقہ کے طالب علموں بطور خاص متخصصین و شعبۂ افتاء کے طلبہ کے لیے بے حد مفید کتاب ہے، میں اس علمی کتاب پر مولانا کومبارک باد دیتا ہوں اوردعا گوہوں کہ اللہ تعالیٰ شرف قبولیت عطافرمائیں اورقبولیت تامہ سے نوازیں:ایںدعاءازمن واز جملہ جہاں آمین باد‘‘(مقدمہ، ص: ۴۳)
استاذ گرامی قدر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’کتاب ایسے انداز سے مرتب کی گئی ہے، جس سے قاری زیادہ سے زیادہ مستفید ہو، اس میں ایک قاعدہ کے پہلو بہ پہلو دوسرے متعلقہ قواعد کا ذکر اور اس قاعدہ سے متعلق مستقل تصانیف کا بھی تذکرہ ہے اور کوشش کی گئی ہے کہ الفاظ کی تحقیق، معانی کی تفہیم کے ساتھ جدید عہد میں اس کی تطبیقاتی شکلوں کو بھی نمایاں کیا جائے، جس سے کتاب کی افادیت بڑھ گئی ہے، کتاب کو جستہ جستہ دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف نے اس موضوع پر لکھی گئی قدیم و جدید اور معاصر کتابوں کا بخوبی مطالعہ کیا ہے، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یہ تصنیف مقبول و نافع ہو اور مصنف کی علمی ترقیات کا ذریعہ بنے‘‘۔(پیش لفظ،ص:۶۴)
حضرت مولانامفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب لکھتے ہیں:
’’ پیش نظر کتاب ’’فقہی قواعد -جدید تحقیق و تطبیق‘‘ اسی(قواعدکے) موضوع پر مرتب کردہ ایک تازہ اور کامیاب شاہکار ہے، جس میں 99 فقہی قواعد کا تعارف، ان کی تشریح، نیز جزئیات اور مثالوں کے ساتھ ان کی تطبیق کو شامل کیا گیا ہے، کتاب کے مشمولات اورمراجع وحوالہ جات کودیکھنے سے محسوس ہوتا ہےکہ موصوف نے اس کتاب کی تصنیف میں تلاش وجستجوکاکوئی پہلوتشنہ نہیں چھوڑا ہے، اسی ذیل میں اس فن اورموضوع سے متعلق اب تک کی قدیم وجدیدتطبیقات کاتعارف بھی آگیا ہے، امیدہے کہ یہ کتاب فقہ وفتاوی سے دلچسپی رکھنے والوں اوربالخصوص دارالافتاء میں تعلیم وتمرین کے طلبہ کے لیے خاصی معاون ثابت ہوگی، اللہ تعالیٰ اس خدمت کوقبول فرمائےاورمولانازبیرندوی کواس کابہترین صلہ عطافرمائے، آمین‘‘(دعائیہ کلمات،ص:۷۴)۔
اب آئیے !دو چار قواعد کی روشنی میں تطبیقات وغیرہ ہم دیکھنے کی کوشش کریں گے؛ تاکہ حقیقی صورت حال کااندازہ خود اپنی آنکھوں سے کرسکیں، ایک قاعدہ ہے، جواس کتاب(ص:۷۶۷) کا سب سے آخری قاعدہ ہے، قاعدہ نمبر 99 : من سعی فی نقض ماتم من جہتہ فسعیہ مردود علیہ( جو شخص ایسی چیز کو توڑنے کی کوشش کرے ،جو اس کی جانب سے مکمل ہو چکی ہے تو یہ کوشش اسی پر لوٹادی جاتی ہے(کوشش ناکام ہو جاتی ہے)، مصنف نے سب سے پہلے اس قاعدہ کے مترادف دو قواعد کو ذکر کیاہے ایک: من سعی فی نقض ماقد تم بہ یبطل سعیہ(جوشخص اس چیز کوتوڑنے کی کوشش کرے، جومکمل ہوچکی ہوہے تواس کی کوشش باطل ہوگی)، دوسرا: الشاھد متی سعی فی نقض ما تم بہ، لاتقبل شھادتہ(گواہ جب اسے توڑنے کی کوشش کرے، جومکمل ہوچکی ہے تواس کی گواہی باطل ہوگی)، پھر مفردات کی تحقیق کی ہے، اس کے بعد قاعدہ کی اصل بیان کرتے ہوئے قرآنی واثری دلیل پیش کی گئی، پھر وجہ استدلال نقل کیا گیا ہے، قاعدہ کی تشریح کی گئی ہے، پھر جہت حقیقی وحکمی کابیان ہے، بعدہ‘ قاعدہ کی شرطوں کا تذکرہ ہے، پھر قاعدہ کا دائرۂ کار کی تعیین کی گئی ہے، اس کے بعد قاعدہ کی مناسبت سےپانچ مثالیں دی گئی ہیں، پھرمستثنیات اور استثناء کی وجوہات بھی بیان کی گئی ہیں، پھر جدید تطبیقات پیش کی گئی ہیں، جدید تطبیق میں ایک اہم مثال سیٹوں کے کینسلیشن پر چارج کی دی گئی ہے کہ: آج کل جہازوں اور ریل گاڑیوں میں ٹکٹ منسوخ کرانے اور سیٹ کینسل کرانے پر کچھ فیصد رقم کٹ جاتی ہے، چوں کہ ٹکٹ آدمی کے اختیار و عمل سے بنتا ہے، اس لیے اس قاعدہ کے پیش نظر اسے کینسل کا اختیار نہیں ہونا چاہیے؛ البتہ حسب وعدۂ عرفی سرکار اس نقض کے بدلے کچھ رقم کاٹ کر کینسل کرانے کا حق دے دیتی ہے(ص:۷۷۲)۔
تطبیق کی ایک اور مثال اسی قاعدہ کےتحت لو میرج کے بعد نکاح ختم کرنے کے تعلق سے دی گئی ہے کہ: اگر کسی لڑکی نے اولیاء کی اجازت کے بغیر لو میرج سے نکاح کر لیا، پھر بعد میں پچھتا رہی ہے تو بلا عذر شرعی خلع لینا یا فسخ نکاح کرانا درست نہیں ہوگا ؛کیوں کہ اس معاملے کی تکمیل اس کے عمل سے ہوئی تھی تو اب وہ اسے توڑ نہیں سکتی ؛ اس لیے کہ قاعدہ ہے :من سعی فی نقض ماتم من جہتہ فسعیہ مردود علیہ، اس کے قاعدہ کے سب سے آخر میں مصنف نے اس قاعدہ سے متعلق ایک رسالہ کا تذکرہ کیا ہے کہ عبدالمحسن طہٰ یونس نے اس قاعدہ سے متعلق ایک تحقیقی مقالہ لکھا ہے جو 35 صفحات پر مشتمل ہے، جس کا نام: من سعی فی نقض ماتم من جہتہ فسعیہ مردود علیہ وتطبیقاتہا الفقہیۃہے(ص:۷۷۳)۔
قاعدہ نمبر 22 ہے، جواس کتاب کے صفحہ۲۵۰میں ہے: ماجاز لعذر بطل بزوالہ( جو چیز کسی عذر کی وجہ سے جائز ہو تو عذر کے ختم ہوتے ہی اس کا جواز ختم ہو جائے گا)، اس قاعدہ کے تحت مصنف نے تین مترادف قواعد ذکر کیے ہیں، ایک: ماثبت بعذر یزول بزوالہ(جوچیزعذر کی وجہ سے ثابت ہوتوعذر کے زائل ہونے سےوہ بھی زائل ہوجائےگی)، دوسرا:متی زال الحظر، عاد الحظر(جب خطرہ زائل ہوجائے گاتوعدم جواز لوٹ آئے گا) اور تیسرا:الرخصۃ لمعنی خاص لایثبت مع عدمہ(کسی خاص وجہ سے حاصل شدہ رخصت اس کے نہ ہوتے ثابت نہ ہوگی)، ان مترادف قواعد کے بعد مصنف نے حسب طریقہ مفردات کی تحقیق پیش کی ہے، قاعدہ کی اصل بتائی ہے اور وجہ استدلال پیش کیا ہے، قاعدہ کی تشریح کی گئی ہے، پھراس قاعدہ اورماأبیح للضرورۃ یتقدربقدرھا کے درمیان فرق کو بیان کیا گیا ہے،قاعدہ کا دائرۂ کار، پھر اس کے بعد قاعدہ کی شرطیں اور اس کی مثالیں دی گئی ہیں، آخر میں جدید تطبیقات پیش کی گئی ہیں، ان میں سے ایک مثال’’موجودہ زمانے میں بارات کی ضرورت نہیں‘‘ہے کہ: بارات کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ پہلے زمانے میں راستوں میں امن و امان نہیں تھا، اکثر اوقات ڈاکوؤں سے دوچار ہونا پڑتا تھا؛ اس لیے دلہا دلہن کی حفاظت اور ان کے اسباب و زیورات کی حفاظت کے لیے کچھ لوگ ساتھ جاتے اور آتے تھے؛ مگر اب نہ یہ ضرورت باقی رہی، نہ مصلحت کا تقاضہ ہے ؛ اس لیے جب عذر ختم ہو گیا تو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی کیوں کہ قاعدہ ہے: مازال لعذر بطل بزوالہ۔(ص:۲۵۳ - ۲۵۴)
دوسری مثال ’’کرونا کے بعدسوشل ڈسٹینسنگ کے ساتھ نماز‘‘ کی پیش کی گئی ہےکہ: کرونا کے زمانے میں سوشل ڈسٹینسنگ یعنی ایک میٹر کے فاصلے پر نماز پڑھنے کی اجازت تھی اور سرکار کی طرف سے بھی اس سلسلے میں ہدایات تھیں؛ لیکن اب کرونا ختم ہو گیا تو اب سوشل ڈسٹنسنگ کے ذریعے نماز پڑھنا صحیح نہیں ہوگا ؛کیوں کہ جس بنا پر وہ جائز ہوا تھا ،اب وہ ختم ہو گیا ۔
ایک اور مثال’’کرونا کے بعد ماسک لگا کر نماز‘‘ کی ہے کہ: ماسک لگا کر اور منہ چھپا کر نماز پڑھنا مکروہ ہے؛ لیکن کرونا کے زمانے میں وائرس سے بچنے کے لیے نماز کے وقت ماسک لگانے کی اجازت تھی، اب چوں کہ وہ ختم ہو گیا تو اب ماسک لگا کر نماز پڑھنا مکروہ ہوگا؛ کیوں کہ قاعدہ ہے:مازال لعذر بطل بزوالہ۔
پھر اخیر میں مصنف نے اس قاعدہ پر دو مستقل کتابوں کا ذکر کیا ہے: ایک کتاب فقہ الاعذار الشرعیۃ،جس کے مصنف رافع محمد الفندی ہیں،جب کہ دوسری کتاب فقہ الاعذار فی العبادات ہے، جس کے مصنف دکتور بشار سین ہیں۔(ص: ۲۵۴)
ان دوقواعد کی مثالوں سے اندازہ ہوگیاہوگا کہ کتاب کی اندرونی حالت کیا ہے؟ مزیدمثالوں کے ذریعہ اس کوبوجھل کرنا مناسب نہیں، یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ جدیدتطبیقات کے عنوان سے جومثالیں پیش کی گئی ہیں، صرف انھیں کواگرجمع کردیا جائے تووہ ایک مستقل کتاب ہوجائے گی اور جدیدفقہی مسائل کا قواعد کی روشنی میں عمدہ حل سامنے آئے گا۔
کتاب کی طباعت بہت عمدہ، کاغذ بھی بہت نائس اور سرورق کتاب کے حسب حال خوب تر، اچھی بات یہ ہے کہ کتاب عمومی پروف کی اغلاط سے پاک وصاف، اوریہ تمام چیزیں مصنف کے حسن ذوق کا پتہ دیتی ہیں، اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ اس کوقبولیت سے نوازے اورمصنف کاقلم ہمیشہ جوان اورتعب ناآشنا رہے، آمین یارب العالمین!
ایک تبصرہ شائع کریں