رکوع اورسجدہ کی حالت میں قرآن کی تلاوت

رکوع اورسجدہ کی حالت میں قرآن کی تلاوت

رکوع اورسجدہ کی حالت میں قرآن کی تلاوت

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی


جولوگ تراویح پڑھاتے ہیں، انھیں خوب معلوم ہے کہ جب تک بیسویں رکعت کا رکوع نہ ہوجائے، اس وقت تک تراویح پڑھانے والا فل ٹینشن میں رہتا ہے،جب بیسویں رکعت کے رکوع میں جاتا ہے توایک لمبی سانس نکلتی ہے اوربسا اوقات رکوع معمول سے طویل بھی ہوجاتا ہے، بہرحال! ٹینشن کی وجہ سے بعض دفعہ حافظ بھولی ہوئی آیت یا اگلی رکعت میں پڑھی جانے والی آیتوں کو رکوع اورسجود میں بھی دہراتاہے، دل دل میں بھی پڑھتا ہے اوربسا اوقات  زبان بھی چلاتا ہے، اب سوال یہ ہے کہ کیا حفاظ کرام کاایسا کرنا درست ہے؟اورکیا رکوع وسجود کی تسبیحات کی جگہ قرآن کی تلاوت کرنے سے نماز پر کچھ اثرپڑتا ہے؟آیئے! اس سلسلہ میں ہم شرعی حکم جانتے ہیں۔

اس بابت سب سے پہلے تویہ جاننا چاہئے کہ نماز میں قرآن کریم کی تلاوت ضروری ہے، اس کے بغیرنماز درست نہیں ہوتی(الایہ کہ وہ قرآن جانتا ہی نہ ہو)، تاہم اتنی بات ضرور ہے کہ اس کے لئے محل ہے اور وہ محل قیام پرقادر شخص کے لئے قیام اورتکبیرتحریمہ کے بعد ہے، یعنی تکبیرتحریمہ کے بعد اذکار مسنونہ پڑھنے کے بعد قراء ت کی جاتی ہے اوریہی اس کا محل ہے، حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:إذا قمت إلی الصلاۃ فأسبغ الوضوء، ثم استقبل القبلة فکبر، ثم اقرأ ماتیسر معک من القرآن۔(صحیح البخاری، حدیث نمبر:۶۶۶۷) ’’جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تواچھی طرح سے وضو کرو، پھرقبلہ رو ہوجانے کے بعد تکبیرکہو، پھرقرآن کا جتناحصہ میسرہو، قراء ت کرو‘‘۔

اس حدیث سے قراء ت کا محل معلوم ہوا ، اب ظاہرہے کہ اس محل کے علاوہ میں کوئی قراء ت کرتا ہے تواسے درست قرار نہیں دیا جاسکتا؛ بل کہ خود نبی کریم ﷺ کی حدیث اس بابت موجود ہے، اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:ألا وإنی نهیت أن أقرأ القرآن راکعاً أوساجداً، فأما الرکوع فعظموا فیه الرب عزوجل، وأما السجود فاجتهدوا فی الدعاء، فَقَمِنٌ أن یستجاب لکم۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۴۷۹) ’’خبردار! مجھے رکوع اورسجدہ میں قرآن پڑھنے سے منع کیا گیاہے، جہاں تک رکوع کا تعلق ہے تواس میں اللہ تعالیٰ کی عظمت بیان کرو(یعنی سبحان ربی العظیم پڑھو) اورجہاں تک سجدہ کا تعلق ہے تواس میں خوب دعائیں کرو؛ کیوں کہ سجدہ کی دعا قبول ہونے کے لائق ہے‘‘۔

اسی طرح حضرت علی ؓ سے منقول ہے، وہ فرماتے ہیں: نهانی رسول الله ﷺ عن قراء ۃ القرآن وأناراکع أوساجد۔(صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۴۸۰) ’’اللہ کے رسول ﷺ نے مجھے رکوع اورسجدہ کی حالت میں قراء تِ قرآن سے منع فرمایاہے‘‘۔

ان احادیث سے رکوع اورسجود کی حالت میں قرآن پڑھنے کی ممانعت معلوم ہورہی ہے، اب اس ممانعت کی حیثیت کیا ہے؟اس سلسلہ میں اکثرعلماء کی رائے یہ ہے کہ یہ ممانعت کراہت کے لئے ہے؛ چنانچہ امام نووی لکھتے ہیں:فیه: النهی عن قراء ۃ القرآن فی الرکوع والسجود، وإنما وظیفة الرکوع: التسبیح، ووظیفة السجود: التسبیح والدعا، فلو قرأ فی رکوع أو سجود غیرالفاتحة، کرہ ولم تبطل صلاته، وإن قرأ الفاتحة، ففیه وجهان لأصحابنا: أصحهما: أنه کغیر الفاتحة، فیکرہ ولاتبطل صلاته، والثانی: یحرم وتبطل صلاته، هذا إذا کان عمداً، فإن قرأ سهواً لم یکرہ، وسواء قرأ عمداً أو سهواً یسجدللسهو عند الشافعی رحمه الله۔(شرح النووی علی مسلم:۳؍۱۶۵، ط:دارالکتب العلمیۃ، بیروت)’’اس میں رکوع اورسجود میں قرآن پڑھنے کی ممانعت ہے؛ کیوں کہ رکوع کا وظیفہ تسبیح اورسجود کا وظیفہ تسبیح اوردعا ہے، لہٰذا اگرکوئی رکوع اورسجود میں سورۂ فاتحہ کے علاوہ کچھ اورپڑھتا ہے تویہ مکروہ ہے؛ لیکن نماز باطل نہیں ہوگی؛ تاہم اگرسورۂ فاتحہ پڑھتا ہے تواس سلسلہ میں ہمارے اصحاب کی دووجہیں ہیں: اصح یہ ہے کہ یہ بھی غیرفاتحہ کی طرح مکروہ ہے، نماز باطل نہیں ہوگی، دوسری وجہ یہ ہے کہ حرام ہے، نمام باطل ہوجائے گی، یہ تمام باتیں اس صورت میں ہیں، جب کہ یہ جان بوجھ کرکرے، اگر سہواً کرے تومکروہ بھی نہیں؛ البتہ دونوں (عمداً وسہواً) صورتوں میں امام شافعیؒ کے نزدیک سجدہ سہوکرے گا‘‘۔

یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ سجدۂ سہوامام شافعیؒ کے نزدیک سنت ہے، لہٰذا نہ کرنے کی صورت میں بھی نماز درست ہوجائے گی، شیخ زکریاانصاری لکھتے ہیں: (وهو) أي سجود السهو لیس واجباً کمبدله؛ ولأن ترکه لایبطل الصلاۃ؛ بل (سنة) فی الفرض والنفل۔(أسنی المطالب:۱/ ۱۸۷)’’سجدۂ سہواپنے مبدل کی طرح واجب نہیں ہے، اسی لئے اس کے ترک سے نماز باطل نہیں ہوتی؛ بل کہ یہ فرض ونفل میں سنت ہے‘‘۔

علامہ ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں: وقد اتفق العلماء علی کراهة القراء ۃ فی الرکوع والسجود، وتنازعوا فی بطلان الصلاۃ بذلک علی قولین، هماوجهان فی مذهب الإمام أحمد۔ (مجموع فتاوی شیخ الإسلام احمد بن تیمیۃ، الفقہ، تابع الصلاۃ: ۲۳ / ۵۸)’’رکوع اورسجود میں قراء ت قرآن کی کراہت پر علماء کا اتفاق ہے، تاہم اس سے نماز کے باطل ہونے کے سلسلہ میں دومختلف فیہ قول ہیں اوریہ دنوں بھی امام احمد کی رائے ہے‘‘۔

فقہائے احناف میں سے علامہ طحطاوی لکھتے ہیں:ویکرہ قراء ۃ القرآن فی الرکوع والسجود والتشهد بإجماع الأمة۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح،ص:۲۸۲) ’’بہ اجماع امت رکوع، سجود اور تشہد میں قراء تِ قرآن مکروہ ہے‘‘۔

علامہ کاسانیؒ لکھتے ہیں: ولوقرأ القرآن فی رکوعه أو فی سجودہ أو فی قیامه لاسهو علیه؛ لأنه ثناء ، وهذہ الأرکان مواضع الثناء۔ (بدائع الصنائع: ۱/ ۱۶۷) ’’اگر کوئی رکوع، سجدہ یا قیام قرآن پڑھتا ہے تواس پرسجدہ سہونہیں ہے؛ کیوں کہ یہ ثناء ہے اوریہ جگہیں ثناء کی ہی ہیں‘‘۔

ان تمام باتوں کاخلاصہ یہ ہے کہ: 

۱- رکوع ،سجدہ اور تشہد کی حالت میں قرآن کی تلاوت مناسب نہیں ہے؛ بل کہ ان مواقع کی تسبیحات کاپڑھنا ہی بہتر ہے۔

۲- اگرکوئی ان مواقع پرتلاوت کرتا ہے تواس کایہ فعل مکروہ ہوگا۔

۳- ان مواقع پرتلاوت کرلینے سے نہ تونماز باطل ہوگی اورنہ ہی سجدۂ سہوواجب ہوگا۔ ہذا ماعندی، واللہ اعلم بالصواب!

  شرعی حکم جان لینے کے بعد اب آیئے اس ممانعت کی حکمت پرایک نظر ڈال لیتے ہیں؛ چنانچہ علماء نے اس کی حکمت یہ بیان کی ہے کہ قرآن کریم افضل الذکراوراشرف الکلام ہے ، جس کے مناسب محل قیام ہے کہ اسی میں اس کی تعظیم اورتکریم ہے، اس کے برخلاف رکوع اورسجود ذلت و انکسار پر دلالت کرتے ہیں، جس کے مناسب تسبیح اوردعا ہے، ملاعلی قاری لکھتے ہیں:إن الرکوع والسجود حالان دالان علی الذل، ویناسبهما الدعاء والتسبیح، فنهی عن القراء ۃ فیهما تعظیماً للقرآن الکریم، وتکریماً لقارئه القائم مقام الکلیم، والله بکل شئی علیم۔(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح: ۲ /۷۱۱)’’رکوع اورسجود دونوں ذلت پردلالت کرنے والی حالتیں ہیں، جن کے مناسب دعا اورتسبیح ہے، بس ان میں قرآن کریم کی تعظیم اورکلیم کے قائم مقام قاری کی تکریم کے لئے قراء ت سے منع کردیاگیا اوراللہ تعالیٰ ہرچیز سے باخبرہے‘‘۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی