خیرکی تین باتیں

خیرکی تین باتیں

خیرکی تین باتیں

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی


قرآن مجیدکی مختلف آیات میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے اوامر ونواہی کا ذکرآیاہوا ہے؛ لیکن ایک آیت ایسی ہے، جومامورات اورمنہیات کی جامع ہے؛ بل کہ اس آیت کو’’اصول اخلاق‘‘ کا جامع بھی کہا جاسکتاہے، جس پرپورے انسانی معاشرہ کی درستی کا انحصارہے،حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رشدوہدایت اورخیروبھلائی کے پانے کے لئے یہ سب سے جامع ترین آیت ہے۔(مفاتیح الغیب: ۹/ ۶۱۵)، یہ سورۂ نحل کی آیت نمبر(۹۰)ہے، اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:إِنَّ اللّہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِیْتَاء  ذِیْ الْقُرْبَی وَیَنْہَی عَنِ الْفَحْشَاء  وَالْمُنکَرِ وَالْبَغْیِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ (النحل:۹۰)’’ اللہ تمہیں انصاف اور احسان کرنے اور رشتہ داروں کو (خرچ سے مدد) دینے(صلہ رحمی کرنے) کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور نامعقول کاموں اور سرکشی سے منع کرتا ہے (اور) تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو ‘‘۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تین چیزوں کا حکم دیاہے اور تین چیزوں سے روکاہے، جن تین چیزوں کاحکم دیاہے، وہ درج ذیل ہیں:

۱-عدل:اس کے لغوی معنی’’الأمرالمتوسط بین نقیضین متطرفین‘‘(معجم الرائد، ص:۵۴۳) ’’دوانتہائی متضادچیزوں کے مابین درمیانی معاملہ‘‘کے ہیں، اردومیں اگراس کاترجمہ کیاجائے تو ’’توازن وتناسب‘‘ سے کرسکتے ہیں، اردوکے لفظ’’انصاف‘‘ سے اس کاترجمہ کرنابے انصافی ہے؛ کیوں کہ انصاف کے معنی’’برابری‘‘ اورمساوات‘‘ کے آتے ہیں، جب کہ عدل یہ ہے کہ جس چیز کوجس جگہ پرہوناچاہئے، اس کو اسی جگہ پررکھنا، اس کی ضد’’جور‘‘ اور’’ظلم‘‘ آتی ہے، جس کے معنی کسی بھی چیزکواسی جگہ کے علاوہ رکھنا، جاحظ لکھتے ہیں:العدل:ہواستعمال الأمور فی مواضعہا وأوقاتہا ووجوہہا ومقادیرہا من غیرسرف ولاتقصیر ولاتقدیم ولاتاخیر(تہذیب الأخلاق،ص:۲۸)’’امورکوان کی جگہوں، اوقات، پہلوؤں اورمقداروں میں کمی وکوتاہی اورتقدیم وتاخیرکے بغیراستعمال کرنا عدل ہے‘‘، اس لحاظ سے عدل اس بات کامتقاضی ہے کہ ہرایک دوسرے کے اخلاقی، معاشرتی، قانونی اورسیاسی وتمدنی حقوق پوری ایمان داری کے ساتھ اداکرے۔

یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ ’’عدل‘‘ کے اوربھی معانی بتلائے گئے ہیں:مثلاً:کلمہ شہادت،فرض،انصاف اور ظاہرو باطن کی پاکی وغیرہ ، ابن عطیہ کہتے ہیں:العدل: ہوکل مفروض من عقائد وشرائع فی أداء الأمانات وترک الظلم والإنصاف(الجامع لأحکام القرآن للقرطبی:۱۰/ ۱۶۵)’’امانتوں کی ادائے گی میں عقائد وشرائع میں سے تمام فرائض ، انصاف اورظلم کوچھوڑناعدل ہے‘‘۔

اب اس ’’عدل‘‘ کی ادائے گی کے تین اہم پہلوہیں(احکام القرآن لابن العربی:۵/ ۱۹۸):

(الف) اللہ اوربندہ کے مابین عدل:اللہ اوربندہ کے مابین عدل یہ ہے کہ بندہ اپنی لذت کوشیوں پرحقوق اللہ کوترجیح دے اور اپنی خواہشات پراللہ کی رضامندی کومقدم رکھے، نیزاللہ کی منع کردہ چیزوں سے اجتناب اورحکم کردہ چیزوں کی بجاآوری کرے۔

(ب) بندہ اوراس کے اپنے نفس کے مابین عدل:بندہ اور نفس کے مابین عدل یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کوان تمام چیزوں سے روکے رکھے، جس میں اس کی ہلاکت ہو، حرص وہوس ، کبروغرور اورسوء ظن کے علاوہ باطنی خبث سے اسے پاک رکھے، نیز ہرحال میں اسے قانع بنائے۔

(ج) بندہ اورخلقِ خدا کے مابین عدل:بندہ اورمخلوق کے مابین عدل یہ ہے کہ اس کے لئے خیرخواہی کرے، اس کے ساتھ خیانت نہ کرے، کسی کے ساتھ قول وعمل کے ذریعہ سے براسلوک نہ کرے، نہ علانیہ طورپر اورنہ پیٹھ پیچھے اور لوگوں کے ہرمعاملہ میں اپنی جانب سے انصاف کی کوشش کرے۔

غورکیاجائے توان تین پہلوؤں پرعمل انسان کی نجات کے لئے کافی ہے؛ کیوں کہ اس میں حقوق اللہ کی ادائے گی بھی آگئی اورحقوق العبادکی ادائے گی بھی، وہ بھی اس طریقہ پر، جس کااللہ تعالیٰ نے حکم دے رکھاہے، جسے دوسرے الفاظ میں ’’فرائض‘‘سے تعبیرکرتے ہیں، اس کامطلب یہ ہواکہ جس کا جو حق ہے، اس کواس کاحق پورا پورا دیاجائے، اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کی جائے، اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنی ہے، مکمل طورپراس طریقہ پرکی جائے، جس کاحکم اللہ کے رسولﷺ نے ’’صلوا کمارأیتمونی أصلی‘‘ میں دیاہے، والدکی وفات کے بعد میراث کی تقسیم اس طریقہ پرعمل میں آئے گی، جوقرآن میں بتایا گیاہے، یعنی بھائی کوبہن کے مقابلہ میں دوحصے: للذکرمثل حظ الأنثیین(قرآن)، یہی اس وقت بھی ہوگا، جب اپناحصہ لیناہوگا، جتنا حصہ بندہ کاہوگا، اتنا لیناعدل ہے۔

۲-احسان:دوسرا حکم ’’احسان‘‘ کادیاگیاہے، جس کے معنی’’اچھاکرنے‘‘ کے آتے ہیں،اسلام نے ہرچیز میں’’احسان‘‘ کوپسندکیاہے؛ حتی کہ قصاصاً کسی کوقتل اورجانور کے ذبح میں بھی احسان کوحکم دیاہے، ارشادفرمایا:إن اللہ کتب الإحسان علی کل شیٔ، فإذا قتلتم فأحسنوا القتلۃ، وإذا ذبحتم فأحسنوا الذبح، ولیحد أحدکم شفرتہ، ولیرح ذبیحتہ(صحیح مسلم، باب الأمربإحسان الذبح والقتل، حدیث نمبر:۵۱۶۷)’’اللہ تعالیٰ نے ہرچیز میں احسان کولازم کیا ہے، لہٰذا جب تم قتل کرو(قصاص وجہادوغیرہ میں)تواچھے سے قتل کرو (تڑپاتڑپاکرنہ مارو)اورجب (کسی جانورکو)ذبح کرو تواچھے سے ذبح کرو، اس طورپرکہ اپنی چھری کوتیز کرلواورذبیحہ کوآرام پہنچاؤ‘‘۔

حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ ’’عدل ،انصاف کوکہتے ہیں اوراحسان تفضل کو‘‘، یہ بھی کہاگیاہے کہ’’ عدل سے مراد فرض اوراحسان سے مرادنفل ہے‘‘(الجامع لأحکام القرآن:۱۰/ ۶۵۱)، ان تمام کاخلاصہ یہ نکلا کہ ’’احسان‘‘ واجب سے اوپراٹھ کرمستحب اورمستحسن طریقہ کواختیارکرناہے اورظاہرہے کہ یہ جس طرح عقائد وعبادات میں مطلوب ہے، اسی طرح معاملات میں بھی مطلوب ہے، جس طرح حقوق اللہ میں مطلوب ہے، اسی طرح حقوق العباد میں بھی مطلوب ہے۔

اگرعدل واحسان کوباہم مربوط کرکے دیکھیں تویہ کہا جا سکتا ہے کہ ’’عدل اگرمعاشرے کی اساس ہے تواحسان اس کا جمال اوراس کاکمال ہے، عدل اگراگرمعاشرہ کی ناگواریوں اور تلخیوں سے بچاتا ہے تواحسان اس میں خوش گواریاں اور شیرنیاں پیدا کرتاہے‘‘(تفہیم القرآن:۲/ ۵۶۵)، عدل اگرہرایک کو اس کا فرض یاد دلاتاہے تواحسان اس اخلاقی ذمہ داری سے آگاہ کرتا ہے، جوفرض تونہیں ہیں؛ لیکن اس کی وجہ سے تعلقات مضبوط اورمستحکم ہوتے ہیں، عدل اگر’’ضابطہ‘‘ ہے تواحسان ’’رابطہ‘‘ ہے اورجب تک یہ دونوں ساتھ ساتھ نہ ہوں، اس وقت تک کسی معاشرہ، کسی محکمہ، کسی ادارہ اورکسی خاندان کے افراد میں تعلقات مستحکم نہیں ہوسکتے۔

۳-رشتہ داروں کی مالی اعانت:اس آیت میں تیسراحکم ’’رشتہ داروں کی مالی اعانت‘‘کا دیا گیا ہے، یہ ’’احسان‘‘ کی ایک خاص صورت کا ذکر ہے اوریہ ذکراس لئے اہم ہے کہ اسلام خاندان کومضبوط اورمستحکم دیکھناچاہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نبی کریمﷺجب حضرت سعدبن ابی وقاص ؓ کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے تواس وقت انھوں نے کہا: یارسول اللہ! ألاأوصی بمالی کلہ؟’’کیوں نہ میں اپنے پورے مال کی وصیت کردوں؟‘‘، تواللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: نہیں، انھوں نے پھر پوچھا: نصف؟آپﷺ نے فرمایا: نہیں، انھوں نے پھرکہا: فبالثلث؟’’توپھرایک تہائی؟‘‘، آپﷺنے فرمایا:الثلث والثلث کثیر أوکبیر’’ایک تہائی (ٹھیک ہے) حالاں کہ وہ بھی بہت ہے‘‘۔(مسنداحمد:۳/ ۴۵)، بخاری کی روایت میں اضافہ ہے کہ آپﷺ نے حضرت سعد سے فرمایا: إنک أن تذرذریتک أغنیاء خیر من أن تذرہم عالۃً یتکففون الناس، ولست بنافق نفقۃ تبتغی بہا وجہ اللہ إلا آجرک اللہ بہا؛حتی اللقمۃ تجعلہافی فی امرأتک(صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۳۹۳۶)’’اپنی ذریت کومال داربناکرچھوڑنا اس سے بہتر ہے کہ ان کومحتاج لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے والا بنا کر چھوڑا جائے، تم جوبھی خرچ اللہ کی رضا کے لئے کرتے ہو، اللہ تمہیں اس کااجردیتاہے؛ یہاں تک کہ اس لقمہ میں بھی اجردیتاہے، جوتم اپنی بیوی کے منھ میں رکھتے ہو‘‘۔

اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ اسلام یہ نہیں پسند کرتاکہ انسان خودمال ودولت کماتارہے اورصرف اورصرف اپنی ذات پرخرچ کرتارہے؛ بل کہ اسے یہ بھی حکم دیاگیاہے کہ رشتہ داروں کی بھی مالی اعانت کرنی چاہئے، تفہیم القرآن(۲/ ۵۶۵ -۵۶۶) میں ہے:’’تیسری چیز، جس کااس آیت میں حکم دیاگیا ہے، صلۂ رحمی ہے، جورشتہ داروں کے معاملے میں احسان کی ایک خاص صورت متعین کرتی ہے، اس کا مطلب صرف یہی نہیں ہے کہ آدمی اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے اورخوشی وغمی میں ان کاشریک حال ہواورجائزحدود کے اندران کاحامی ومددگاربنے؛ بل کہ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ ہرصاحبِ استطاعت شخص اپنے مال پرصرف اپنی ذات اور اپنے بال بچوں ہی کے حقوق نہ سمجھے؛ بل کہ اپنے رشتہ داروں کے حقوق بھی تسلیم کرے، شریعتِ الٰہی ہرخاندان کے خوش حال افراد کواس امرکا ذمہ دار قرادیتی ہے کہ وہ اپنے خاندان کے لوگوں کوبھوکا ننگا نہ چھوڑیں، اس کی نگاہ میں ایک معاشرے کی اِس سے بدترکوئی حالت نہیں ہے کہ اس کے اندرایک شخص عیش کررہا ہواوراسی خاندان میں اس کے اپنے بھائی بند روٹی کپڑے تک کومحتاج ہوں، وہ خاندان کومعاشرے کاایک اہم عنصرترکیبی قراردیتی ہے اوریہ اصول پیش کرتی ہے کہ ہرخاندان کے غریب افراد کاپہلا حق اپنے خاندان کے خوش حال افرادپرہے، پھردوسروں پران کے حقوق عائد ہوتے ہیں، یہی بات ہے، جس کونبی کریم ﷺ نے اپنے مختلف ارشادات میں وضاحت کے ساتھ بیان فرمایاہے؛ چنانچہ متعدد احادیث میں اس کی تصریح ہے کہ آدمی کے اولین حقدار اس کے والدین، اس کے بیوی بچے اور اس کے بھائی بہن ہیں، پھر وہ، جوان کے بعد قریب ترہوں اورپھروہ، جوان کے بعدقریب تر ہوں اوریہی اصول ہے، جس کی بناپرحضرت عمرؓ نے ایک یتیم بچے کے چچازاد بھائیوں کومجبورکیاکہ وہ اس کی پرورش کے ذمہ دارہوں اورایک دوسرے یتیم کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایاکہ اگراس کاکوئی بعید ترین رشتہ دار بھی موجودہوتا تومیں اس پراس کی پرورش لازم کردیتا-----اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جس معاشرے کا ہرواحدہ(Unit)اس طرح اپنے اپنے افراد کوسنبھال لے، اس میں معاشی حیثیت سے کتنی خوش حالی،معاشرتی حیثیت سے کتنی حلاوت اوراخلاقی حیثیت سے کتنی پاکیزگی وبلندی پیداہوجائے گی‘‘۔

خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کویہ حکم دیاہے کہ وہ اپنے تمام اقوال، افعال اوراحکام میں حق وانصاف کولازم پکڑیں،ہرہرمعاملہ میں استحباب واستحسان کا خیال رکھتے ہوئے اقارب اوررشتہ داروں کاتعاون وامدادکرتے رہیں؛ تاکہ دین ودنیاکی سعادتیں نصیب ہوں؛ کیوں کہ عدل کے ذریعہ سے ہرصاحب حق کواس کاحق ملتاہے، جب کہ احسان کے ذریعہ سے محبت ومودت میں اضافہ ہوتا ہے اورصلہ رحمی کی وجہ سے سماج کئی حیثیتوں سے مضبوظ اورمستحکم ہوتا ہے۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی