غزہ کی پکار!

غزہ کی پکار!

غزہ کی پکار!

محمدجمیل اختر جلیلی ندوی

ایک مسلمان کااپنے بھائی کی مددکرناانسانی ضرورت ہی نہیں، ایک شرعی فریضہ بھی ہے؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ کاارشادہے: ’’جو لوگ ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کر گئے اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے لڑے، وہ اور جنہوں نے (ہجرت کرنے والوں کو) جگہ دی اور اُن کی مدد کی، وہ آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور جو لوگ ایمان تو لے آئے؛ لیکن ہجرت نہیں کی تو جب تک وہ ہجرت نہ کریں تم کو اُن کی رفاقت سے کچھ سروکار نہیں اور اگر وہ تم سے دین (کے معاملات) میں مدد طلب کریں تو تم کو مدد کرنی لازم ہے؛ مگر اُن لوگوں کے مقابلے میں کہ تم میں اور اُن میں (صلح کا) عہد ہو (مدد نہیں کرنی چاہئے) اور اللہ تمہارے سب کاموں کو دیکھ رہا ہے‘‘۔(سورۂ انفال:۷۲)، اس آیت کے ضمن میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب لکھتے ہیں:’’اس آیت میں یہ بات بھی بتائی گئی ہے کہ اگرمسلمان کسی غیرمسلم ملک میں پھنسے ہوئے ہوں تومسلمان حکومتوں کا شرعی فریضہ ہے کہ وہ ان مسلمانوں کی مدد کریں، اگرغیرمسلم ملک سے کوئی معاہدہ نہیں ہو اورجنگ کی قدرت حاصل ہوتوجنگی کارروائی کرنابھی ضروری ہے اوراگرایک دوسرے کے معاملہ میں دخیل نہ ہونے کا کوئی معاہدہ پہلے سے ہوچکاہے تواخلاقی دباؤ ڈال کرمظلوم مسلمانوں کی مددکی جائے، نہ یہ کہ ان کوبے یارومددگار چھوڑ دیاجائے، جیساکہ آج کل فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ پڑوسی مسلمان ملکوں کاحال ہے؛ کیوں کہ پوری دنیاکے مسلمان علاقہ ومکان سے بالاترہوکرایک اکائی ہیں اوران میں سے ایک فرد پرزیادتی دراصل پوری امت کے ساتھ زیادتی ہے‘‘۔(آسان تفسیرقرآن:۱/ ۵۵۷)-

ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں کہ اچھے کام کرنے کو کہتے اور بُری باتوں سے منع کرتے اور نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں،یہی لوگ ہیں جن پر اللہ رحم کرے گا بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے‘‘۔(سورۂ توبہ:۷۱)، اس آیت تشریح کرتے ہوئے حافظ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں:’’جب اللہ تعالیٰ نے منافقین کی قابل مذمت صفات کا ذکرکیا تومومنین کی قابل تعریف صفات کابھی ذکرکرتے ہوئے فرمایا:(ان میں سے بعض ایک دوسرے کے دوست ہیں)یعنی ایک دوسرے کوسہارادیتے ہیں اورایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں، اس کی تصریح حدیث میں اس طرح آئی ہے:[ایک مومن دوسرے مومن کے لئے عمارت کی طرح ہے، جس کاہرحصہ دوسرے حصہ سے مربوط اورجڑا ہوا ہے، پھرآپﷺ نے اپنی انگلیوں کے درمیان تشبیک کرکے دکھایا](تفسیرابن کثیر:۴/ ۱۷۴)۔

اللہ کے رسول ﷺ کی ایک دوسری حدیث ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:’’باہمی محبت، شفقت اورہم دردی میں مومنوں کی مثال ایک جسم کی سی ہے، جب اس کاایک عضو بیمارہوتا ہے توپوراجسم اس کی تکلیف بے خوابی اوربخارکے ذریعہ سے محسوس کرتا ہے‘‘(بخاری، حدیث نمبر:۶۰۱۱، مسلم حدیث نمبر:۲۵۸۶)، حدیث میں یہ آیا ہے کہ آپﷺ نے ایک مسلمان کو بے یارومددگارچھوڑ نے مذمت اورتنبیہ فرمائی ہے، آپ ﷺ کاارشاد ہے:’’جومسلمان کسی دوسرے مسلمان کوایسی جگہ بے یارومددگارچھوڑے گا، جہاں اس کی رسوائی ہوتی ہو اوراس کی عزت کواچھالاجاتا ہو تواللہ تعالیٰ بھی اسے ایسی جگہ بے یارومددگارچھوڑ دے گا، جہاں اسے حمایت کی ضرورت ہوگی، اورجومسلمان کسی دوسرے مسلمان کی ایسی جگہ مددکرے گا، جہاں اس کی رسوائی ہوتی ہو اوراس کی عزت کواچھالاجاتا ہو تواللہ تعالیٰ بھی اس کی ایسی جگہ مددکرے گا، جہاں اسے حمایت کی ضرورت ہوگی‘‘(صحیح الجامع للالبانی، حدیث نمبر:۵۶۹۰)۔

اس وقت غزہ اوراہل غزہ کی جوحالت ہے، اسے دیکھ کر علماء نے متفقہ طورپریہ بات کہی ہے کہ ان کی حمایت اورنصرت کی جائے؛ چنانچہ الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین نے بالاتفاق یہ بات کہی ہے کہ :’’فلسطین میں جہاد اورامداد شرعی طورپرواجب اوراسلامی وانسانی ذمہ داری ہے، صہیونی جارحیت پرخاموشی اختیارکرنا، ان کونہ روکنا، سرکاری افواج اورحکومتوں کی طرف سے جواب نہ دینا شرعی طورپرحرام ہے، اس سلسلہ میں الاقرب فالاقرب کے اصول پرعمل ہوگا، جواہل غزہ سے جتناقریب ہے، اس پریہ ذمہ داری پہلے لازم ہوگی، غزہ، اقصیٰ، قدس اورفلسطین کوتباہ وبربادہونے کے لئے چھوڑ دینا اللہ، رسول اورمومنین کے ساتھ خیانت ہے اوریہ اللہ کے نزدیک گناہ کبیرہ میں سے ہے‘‘۔

اہل غزہ کی مدد اورتعاون کے سلسلہ میں اوپرجوبات مذکور ہوئی ، وہ شرعی نقطۂ نظر سے تھی، اب آیئے! اسے ہم انسانی ضرورت کے نقطۂ نظر سے بھی دیکھتے چلیں:

ہم سب ایک ہی کشتی کے سوار ہیں، جب ظالم کاظلم حد سے بڑھ جائے اوروہ زمین میں فسادمچانے لگے، اسے کوئی روکنے والا نہ ہوتووہ صرف غزہ پراکتفا نہیں کرے گا؛ بل کہ جیسے ہی غزہ سے نمٹے گا، اس کے قدم آگے بڑھیں گے، وہ دوسروں کی سرحدوں تک جاپہنچے گا، اس سے قبل ایساہوبھی چکا ہے کہ وہ مصروشام اورلبنان وغیرہ کے علاقوں پربھی قبضہ کرچکا ہے اور’’گریٹراسرائیل‘‘ کا جومنصوبہ ہے، اس سے توبالکل یہ بات ظاہرہے؛ اس لئے ہمیں انسانیت کوبچانے کے لئے اوراپنے حدودوثغورکوبچانے کے لئے بھی صہیونی ظالم کے خلاف کھڑاہوناچاہئے۔

ہم دنیابھرکے مسلمانوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ غزہ کے وزارت اوقاف اوراسلامی امورکی طرف سے جاری کردہ پیغام کوسنجیدگی کے ساتھ لیں، جس میں کہاگیا ہے:’’عرب اور اسلامی ممالک کے وزرائے اوقاف ، شیوخ ، ائمہ اوردعاۃ ومبلغین کے نام ہماراپیغام یہ ہے کہ زخم خوردہ غزہ کے مسلمانوں کی مددکیجئے، یہ ’’تعاون علی البر‘‘ پر مدد ہوگی، جس کے تعلق سے اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:نیکی اورپرہیزگاری پرمددکرو، ظلم وگناہ پرنہیں اوراللہ سے ڈرو، بے شک وہ سخت عذاب دینے والاہے(سورۂ مائدہ:۲)اورنبی کریم ﷺ کافرمان ہے:’’جومسلمان کسی دوسرے مسلمان کوایسی جگہ بے یارو مدد گار چھوڑے گا، جہاں اس کی رسوائی ہوتی ہو اوراس کی عزت کواچھالاجاتا ہو تواللہ تعالیٰ بھی اسے ایسی جگہ بے یارومدد گار چھوڑ دے گا، جہاں اسے حمایت کی ضرورت ہوگی، اورجو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کی ایسی جگہ مدد کرے گا، جہاں اس کی رسوائی ہوتی ہو اوراس کی عزت کواچھالاجاتا ہو تواللہ تعالیٰ بھی اس کی ایسی جگہ مددکرے گا، جہاں اسے حمایت کی ضرورت ہوگی‘‘۔

مسلمان بھائیو!فلسطین اورخاص طورپرغزہ پٹی میں آپ کے بھائیوں پریہودیوں کے ہاتھوں نوے دنوں سے زائد؛ بل کہ فلسطین پرصہیونی قبضہ کے بعدسے قتل وغارت ، ظلم و زیادتی، تشدد اورنقل مکانی کی اب تک کی سب سے زیادہ بھیانک شکلیں سامنے آچکی ہیں، جس میں شہید، زخمی اورلاپتہ افرادکی تعداد90ہزار، 500سوسے زائدسرکاری اورتعلیمی اداروں کی مسماری، گھروالوں کے رہتے ہوئے 355ہزارجزوی یامکمل طورپرگھروں کو تباہ وبربادکرنا، تقریباً 500مساجد کو جزوی یامکمل طورسے خستہ اورویران کردینا،اسلام کے ثقافتی آثارقدیمہ کو مٹادینا، شاداب اورخشک زمین کوجلادینا، پانی، ادویات اورخوراک کوروک کرلوگوں کو بھوکوں مارنا، لوگوں کو ان کے گھروں سے بے گھرکرکے ٹھٹھرتی سردی میں کھلے آسمان کے نیچے زمین کے فرش پررہنے کے لئے مجبورکردینا وغیرہ ہیں۔

ہم وزارت اوقاف میں غزہ کے قلب میں ہیں اورامت کے علماء، دعاۃ، مبلغین، خطباء اورتمام ممالک کے ادباء وقلم کاروں کوآواز دے رہے ہیں اورمطالبہ کررہے ہیں کہ آپ فلسطین ، یروشلم، مغربی کنارہ اورغزہ کے دفاع اوراس کی حمایت میں اپنے قلم کوجنبش دیں، اپنی آواز کوبلندکریں، منبرومحراب سے صدا لگائیں، گرچہ ہمارے مابین سرحدوں کی حدبندی ہے؛ لیکن صہیونی دشمن کی طرف سے تمام الٰہی قوانین ، رسوم رواج، بین الاقوامی قوانین ومعاہدوں کی خلاف ورزی، مقدسات اور عزت وآبرو کی بے حرمتی کے مقابلہ میں ہاتھ کے پوروں سے جہاد کرنا تیروتفنگ سے جہادکرنے کم نہیں ہے، جب کہ آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے بچوں، عورتوں اوربوڑھوں کاخون گلی کوچوں میں بہایاگیا ہے اوران کے اعضاء وجوارح ہرطرف بکھرے پڑے ہیں، لعنت ہے ان تمام لوگوں پر، جوغزہ کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت میں غفلت اورکوتا ہی کامظاہرہ کر رہے ہیں۔

اے ہمارے پیارے بھائیو! نشانہ پرہم سب ہیں، بس اس وقت شیطانی قوتیں اسلام کی شان وشوکت کوکمزورکرنے اوران مجاہدین کی کمرکوتوڑنے کے لئے ہم پرچڑھ آئی ہیں، جوقوم کی عزت اور اس کے وقارکی حفاظت کررہے ہیں، اس کی مقدسات کوبچارہے ہیں اورسرزمین فلسطین کادفاع کررہے ہیں، بس ہمیں تن تنہا نہ چھوڑیں کہ ہمیں عزت وغرور کی تمام لڑائیوں میں اس طرح نگل لیا جائے، جس طرح سفید بیل کونگل لیا گیا اورہم اس طرح قتل کردئے جائیں، جس طرح 48،52،اور 67میں کئے گئے تھے۔

اے غیورمسلمانو! ہمیں دشمنوں کے حوالہ نہ کرو، تمہیں نبی کریم ﷺ کے اس فرمان کاواسطہ، جس میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسلمان مسلمان کابھائی ہے، نہ اس پرظلم کرتا ہے، نہ اسے دشمن کے حوالہ کرتا ہے، جوشخص اپنے بھائی کی ضرورت کوپوراکرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت کو پورا کرتا ہے، جوشخص کسی مسلمان کی تکلیف کودورکرتاہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی تکلیف کودورکرے گا، جوشخص مسلمان کی سترپوشی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی سترپوشی کرے گا‘‘۔

اے بھائیو! آپ کی تعداد کم نہیں ہے، اوراللہ نے آپ کو مادی اورانسانی وسائل کے لحاظ سے طاقت وغلبہ دے رکھا ہے، لہٰذا ہمارے آس پاس کے لوگوں کوکھوکراور ہمارے ساتھ کھڑے نہ رہ کرہمیں غمگین کرو، جب کہ ہم حق پرہیں اوراس مقدس مقصد کے لئے جنگ کررہے ہیں ہیں، جوخدا نے آپ کے سپردکیا ہے‘‘۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی