فلسطین کی چند بہادر خواتین

فلسطین کی چند بہادر خواتین

فلسطین کی چند بہادر خواتین

عربی سے ترجمانی: محمد جمیل اخترجلیلی ندوی


فلسطین کی مبارک سرزمین کی تاریخ ایسی خواتین کی جدوجہدسے بھری پڑی ہے، جنھوں نے غاصب صہیونیوں کے خلاف مردوں کے شانہ بہ شانہ مزاحمت میں حصہ لیا، فلسطینی خواتین صہیونی قبضوں کے خلاف نہ صرف مردوں کی حمایت کرتی رہیں؛ بل کہ وہ برطانوی مینڈیٹ سے لے کرپہلی اور دوسری انتفاضہ تک اورغزہ اورمغربی کنارے میں جاری مزاحمت تک، بشمول گوریلاکارروائیوں کے، فلسطینی انقلاب کے تمام مراحل میں بھی وہ فعال اوربااثرطریقہ پرشریک رہیں، آیئے ان میں سے چندایک کے کچھ احوال جان کراپنے ایمان کی مضبوطی کوپرکھیں ۔

جمیلہ شنطی:گزشتہ 18/اکتوبرکوغزہ کی پٹی پر صہیونیوں کی طرف سے وحشیانہ بمباری کے نتیجہ میں اسلامی مزاحمتی تحریک’’حماس‘‘ کی سیاسی بیوروکی رکن اور فلسطینی شریعہ کونسل کی نمائندہ ’’جمیلہ شنطی‘‘ شہید ہوگئیں، شنطی(68سال)غزہ کے اپنے گھرمیں اسرائیلی بمباری کے نتیجہ میں شہید ہوئیں، ان کاتعلق اس پہلی نسل سے تھا، جنھوں نے 1987میں ’’حماس‘‘ کی بنیادرکھی تھی، وہ مسلسل دومرتبہ حماس کی خواتین ونگ کی شوریٰ کونسل کی صدر رہیں، 2006میں وہ حماس کے زیرانتظام اصلاحی بلاک کی قانون ساز کونسل کی رکن منتخب ہوئیں اور2013میں انھوں نے غزہ پٹی کی حکومت میں خواتین کے امورکی وزارت سنبھالی، مارچ 2021میں وہ حماس کے پولیٹیکل بیورو کے لئے منتخب ہونے والی پہلی خاتون بن گئیں، ان کے بہت سے فدائی کارنامے ہیں، ان کاایک بہت ہی اہم کارنامہ وہ ہے، جسے انھوں نے 3/نومبر2006کوانجام دیا، انھوں نے شمالی غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی طرف سے شروع کئے گئے آپریشن ’’غیوم الخریف‘‘ (خزاں کے بادل) کے دوران بیت حنون کی ایک مسجد میں قابض فوج کے محاصرہ کوتوڑنے میں خواتین مارچ کی قیادت کی، جہاں بہت سارے مزاحمت کرنے والے مجاہدین پناہ گزین تھے، شنطی تاریخِ فلسطین کی اُن بہادرمجاہدات میں سے تھیں، جنھوں نے شجاعت ودلیری اورجراء ت وبے باکی کی تاریخ رقم کرکے اپنایادگارثبت کیاہے، جیسے: شادیہ ابوغزالہ، جو1967کے نکبہ کی پہلی فوجی شہید تھیں، جنھوں نے احتلال وقبضہ کے خلاف گوریلاکارروائیوں میں حصہ لیا اور28/نومبر 1968کوشہید ہوئیں۔

ذکیہ شموط: بہادری کی تاریخ میں ذکیہ شموط کانام سرفہرست ہے، وہ قبضہ کے خلاف گوریلاحملہ کرنے والی خواتین میں سے ایک تھیں، انھوں نے 1968میں اس میں شمولیت اختیارکی، ان کے گوریلاکارروائیوں کی تعداد7ہے، 1970کے اوائل میں انھیں اوران کے شوہرکوگرفتارکیاگیا، اس وقت وہ پانچ ماہ کی حمل سے تھیں، انھیں 12سال قیدکی سزاسنائی گئی، 18/فروری 1972کوذکیہ نے رملہ کی اسرائیلی نیوترتسیاجیل میں ایک بچی نادیہ کوجنم دیا، وہ پہلی فلسطینی خاتون تھیں، جنھوں نے اسرائیلی جیل میں بچہ کوجنم دیا، 1983 میں انھیں جیل سے رہاکردیاگیااورالجزائرجلاوطن کردیاگیا، وہیں2014میں ان کاانتقال ہوا۔

دلال مغربی: تاریخ کے روشن صفحات میں شہر’’یافا‘‘ کی بیٹی دلال المغربی کانام بھی فلسطین کی خواتین مجاہدات کی فہرست میں درج ہے، انھوں نے 1948کے نکبہ کے بعدلبنان میں پناہ لی، پھروہ جلدہی فلسطینی انقلاب کی صف میں شامل ہوگئیں، انھوں نے کئی طرح کی فوجی ٹریننگ حاصل کی، وہ ایک فدائی حملے میں ’’تل ابیب‘‘ جاپہنچیں اور قابض فوجیوں کولے جانے والی اسرائیلی بس پرقبضہ میں کرنے کامیاب ہوگئیں، فدائین اورفوجیوں کے درمیان چھڑپ ہوئی، جس کے نتیجہ میں اسرائیلی فوج ہلاک بھی ہوئی اورزخمی بھی، پھرجب قابض فوج کے اس وقت کے وزیرایہودباراک نے بس کوروک کرفدائین کوقتل کرنے کاحکم دیاتواس وقت دلال نے مسافروں سمیت بس کودھماکہ سے اڑادیا۔

ریماصالحہ: ریماصالحہ بھی ممتازترین فلسطینی مجاہدات میں شامل ہیں، وہ 1980میں یروشلم میں پیداہوئیں، انھوں نے جامعہ اسلامیہ کی فیکلٹی آف اسلامک سائنس سے گریجویشن کیا، پھروہ الاقصی اسلامک اسکول میں بطورٹیچرکام کرنے لگیں، 18/اکتوبر2015کی بات ہے، وہ مسجداقصی میں نماز ادا کرنے کے لئے گئیں، جب وہ قلندیا چوکی پرپہنچی توقابض فوجیوں نے اس پریہ الزام عائد کرتے ہوئے گولی چلادی کہ اس نے ایک فوجی کوچاقومارنے کی کوشش کی تھی، فوج نے سینے، پیٹ اورگردن میں کئی گولیاں ماریں، پھر اسے خون میں لت پت ابتدائی طبی امداد فراہم کئے بغیرزمین پرچھوڑدیا، وہ زخموں کی تاب نہ لاسکیں اوروہیں شہادت کی موت نصیب ہوئی۔

ہناء شلبی:ہناء شلبی بھی شہیدخواتین کی جھرمٹ میں سے ایک تھیں، انھوں نے عام شہری زندگی سے فدائین کی زندگی کاایک نمونہ پیش کیا، 17/ فروری 2002کی بات ہے، انھوں نے غاصبانہ قبضہ کے خلاف شہادت کاآپریشن کافیصلہ کیا، انھوں نے دھماکہ خیز بیلٹ پہنااورنابلس میں ’’بیت ایبا‘‘ فوجی چوکی کی طرف وہ بڑھی، پھرجب ایک اسرائیلی فوجی اس کے قریب پہنچا توانھوں نے خودکودھماکہ سے اڑالیا، جس کی وجہ سے اس کی موت کے ساتھ ساتھ دیگرافراد زخمی بھی ہوئے۔

اسماء البطنیجی: فلسطینی جدوجہد کی تاریخ میں یہ بات قابل ذکرہے کہ فلسطینی مجاہدات میں سے بہت ساری مجاہدات نے مغربی کنارہ کوخیرباد کہہ کرغزہ کی پٹی کی طرف ہجرت کی؛ تاکہ وہ جمیلہ شنطی کی خواتین مجاہدات ونگ میں شامل ہوسکیں، انھیں میں ایک اسماء البطنیجی بھی ہیں، یہ 2014کے غزہ کی جنگ کے لئے اٹھ کھڑی ہوئیں؛ حالاں کہ یہ اس وقت شہیدہ بسمہ عسلی اسکول میں گیارہویں جماعت کی طالبہ تھیں، جس کی وجہ یہ بنی کہ شجاعیہ کے محلہ میں موجوداس کا خاندانی گھر صہیونی بمباری کانشانہ بنا، جس کے نتیجہ میں اس کی والدہ، اس کی چاربہنیں، اس کی خالہ، اس کی دادی اوراس کے متعدد رشتہ دار(جن کی تعدادتقریباً 25کوپہنچتی ہے) شہید ہوگئے، بس پھراس نے بھی اسرائیلی غاصب کے ساتھ مزاحمت کے لئے ٹھان لیا اورزمانہ طالب علمی میں ہے وہ غاصب صہیونی کے خلاف مزاحمتی دستہ میں شامل ہوگئیں۔

یہ وہ شہیدہونے والی فلسطینی مجاہدات ہیں، جنھوں نے نسائی فداکاری اورجاں نثاری کانمونہ پیش کیااوریہ ثابت کیا کہ فلسطینی خواتین مجاہدین کی معلمہ اورمربیہ ہیں، وہ صابر، جنگجو، تعلیم یافتہ اورتخلیقی صلاحیت کی حامل ہیں، وہ اپنی قوم کی امید، خواب اورمستقبل ہیں، جوفدائی حملوں اورشہادت کی راہ میں اپنی جان قربان کرسکتی ہیں۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی