ہندوستانی منظرنامہ میں مکی دور کا پیغام

ہندوستانی منظرنامہ میں مکی دور کا پیغام

ہندوستانی منظرنامہ میں مکی دور کا پیغام

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

پیغمبراسلام کی بعثت کے بعد اسلام پر دودورگزرے ہیں، ایک کو’’ مکی دور‘‘ اور دوسرے کو’’مدنی دور‘‘ کہاجاتاہے، دونوں دور مختلف خصوصیتوں کا حامل ہیں اور دونوں دورسے خصوصیت کے ساتھ آج کل کے حالات میں اہلِ اسلام کو مختلف پیغام ملتے ہیں، ایسے پیغام ، جن کی روشنی میں اہلِ اسلام اپنی پوری تشخصات کے ساتھ دنیاکے کسی بھی کونہ میں پر سکون اورپر وقار زندگی گزارسکتے ہیں، آیئے ہم مکی دورکے کچھ خاص پیغام کوجانتے چلیں۔

جس وقت آپ کو نبوت سے سرفراز کیاگیا، اس وقت پوری دنیاشرک وبت پرستی کے لپیٹ میں تھی، عیسائی موحدین کہیں کہیں گنے چنے موجود تھے، ورنہ ان کی اکثریت بھی تحریف شدہ عیسوی مذہب پرعمل پیراتھی، اس کا اندازہ حضرت سلمان فارسی کی اس رودادِ سفر سے ہوسکتا ہے، جوانھوں نے حق کی تلاش میں کیاتھا، ایسے وقت میں آپ کی بعثت ہوئی، اور یہ حکم دیاگیا:’’اٹھ کھڑے ہویئے اور ڈرایئے‘‘{المدثر:۲}، ایسے مشرک اور وبت پرست قوم کو ڈرانے کا حکم دیاگیا، جن کے کان آج سے پہلے توحید سے آشنانہ تھے، نتیجہ وہی ہوا، جوایسے موقعوں پر ہواکرتاہے، آپ کو جھٹلایاگیا، شاعر اور مجنون کے القاب سے نوازاگیا، غیب کی باتیں بتانے والا ’’کاہن‘‘ کہاگیا، اور اسی پر بس نہیں کیاگیا؛ بل کہ جتنے حربے اور جتنے ہتھکنڈے آپ کی لائی ہوئی دعوت کوپھیلنے سے روکنے کے ہوسکتے تھے، سب آزماڈالے؛ حتیٰ کہ(نعوذ باللہ) خود آپ کی ذاتِ اقدس کوہی ختم کرنے کی پلاننگ کرڈالی؛ لیکن ’’توحید کادھارارک نہ سکا‘‘، آزاد اور غلام، جوان اور بوڑھے، مرد اور عورتیں ہرہرزمرے کے لوگ حلقۂ اسلام میں داخل ہونے لگے۔

جب مخالفین کی مخالفت اور ان کے پروپیگنڈے تمام تر ناکام ہوگئے توانھوں نے خصوصیت کے ساتھ اسلام لانے والے کمزوروں پرمظالم کے پہاڑتوڑنے شروع کردئے، تپتی ہوئی صحرائی ریت پرانھیں لٹاکرپتھرکی سِل اوپر رکھ دیتے، بھڑکتے ہوئے انگاروں پر اتنی دیرسلاکر رکھتے کہ ان کے جسموں سے بہنے والے خون پسینے سے یہ انگارے بجھ جاتے، ان کے گلوں میں رسیاں ڈال کرآوارہ بچوں کے حوالہ کردیتے، جوانھیں گلیوں گلیوں گھسیٹتے پھرتے تھے، اور یہ معاملہ صرف کمزوروں تک بس نہیں رہ گیا تھا؛ بل کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ __جواشراف ِمکہ میں سے تھے اوراسلام سے پہلے جن کی خود مشرکین بھی عزت کیا کرتے تھے__جیسے صحابی بھی ان کے ظالمانہ پنجوں سے بچ نہیں سکے تھے، اور ترکِ وطن کے ارادہ سے مکہ سے نکل کھڑے ہوئے تھے؛ لیکن پھر ابن الدغنہ کی پناہ ملنے کی وجہ سے واپس آگئے تھے، خود آپ کے ساتھ ان ظالموں نے کیا کچھ نہیں کیا؟ گلے میں پھندہ ڈال کر مارنے کی کوشش کی، بحالت ِسجدہ آپ کی گردن پر اونٹ کی اوجھڑی رکھ دی، راستوں میں کانٹے بچھائے، راہ چلتے ہوئے آپ کے سرِمبارک پرکوڑاکرکٹ ڈالا؛ لیکن نہ آپ نے اور نہ آپ کے ساتھیوں نے اُف کیا، صبر کے ساتھ ان کے مظالم کوسہتے رہے، اور خاموشی سے کے ساتھ ابلاغِ دین کا فریضہ بھی انجام دیتے رہے، جس کے نتیجہ میں چالیس سے کچھ اوپر لوگ دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئے۔

جب جور وجفا کا سلسلہ دراز ہوگیا اور امید کے مطابق لوگ بھی حلقۂ اسلام میں داخل نہیں ہوئے توآپ نے طائف کے لئے اس امید پر رخت ِسفر باندھا کہ وہاں کے لوگ شاید یہاں کے لوگوںسے مختلف ہوںاور وہ اس پیغام ِربانی کو صفائی ِقلب کے ساتھ قبول کرلیں؛لیکن جب آپ طائف پہنچے توامید کے برخلاف مکہ سے کہیں زیادہ دُرشت مزاجی سے آپ کااستقبال کیا گیا، آپ کااستہزاوتمسخرکیاگیاکہ خداکو نبی بنانے کے لئے ایسا ہی شخص ملاتھا، جس کے پاس سواری بھی نہیں ہے(نعوذ باللہ)، آپ پراتنے پتھر برسائے گئے کہ نعلین مبارک لہوسے بھر گئے، آوارہ گردوں کی پوری ٹولی آزارپہنچانے کے لئے آپ کے پیچھے لگادی گئی، جوتھک کر بیٹھ جانے کی صورت میں آپ کواُٹھنے اورچلنے پرمجبورکرتی تھی، آخرکار انگور کے ایک باغ میں آپ کوپناہ ملی، اہلِ طائف کے اس رویہ سے آپ بہت زیادہ شکستہ دل ہوئے اور ایک رقت انگیز دعا فرمائی: ’’الٰہی ! اپنی کمزوری ، بے سروسامانی اورلوگوں کی تحقیر کی بابت تیرے سامنے فریاد کرتاہوں، توسب رحم کرنے والوں سے زیا دہ رحم کرنے والاہے، درماندہ عاجز کا مالک توہی ہے، مجھے کس کے سپرد کیاجاتاہے؟ کیابے گانہ تروشرکے یااس دشمن کے، جوکام پرقابورکھتاہے؟ لیکن جب مجھ پر تیراغضب نہیں تومجھے اس کی کچھ پرواہ نہیں؛ کیوں کہ تیری عافیت میرے لئے زیادہ وسیع ہے، میں تیری ذات کے نور سے پناہ چاہتاہوں، جس سے سب تاریکیاں روشن ہوجاتی ہیں اور دین ودنیاکے کام اس سے ٹھیک ہوجاتے ہیں، کہ تیراغضب مجھ پر اترے یاتیری ناراضگی واردہو، مجھے تیری رضامندی اور خوشنودی درکارہے اور نیکی کرنے اوربدی سے بچنے کی طاقت مجھے تیری ہی طرف سے ملتی ہے‘‘،یہ رقت انگیز دعاخداکے دربار میں بارآور ہوئی اوراللہ تبارک وتعالیٰ نے فرشتے کوبھیجا، جس نے آپ سے آکر کہا:اگرآپ چاہیں تومیں ان دونوں پہاڑوں کو ان پربند کردوں، آپ نے جواب میں فرمایا: نہیں! میں امید کرتاہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے ایک خداکاپرستار پیداکرے گا۔( بخاری، کتاب بدء الوحی، باب ذکر الملائکہ، حدیث نمبر:۳۲۳۱)مکی دور پراس سرسری نظر سے ہمیں خصوصیت کے تین پیغام ملتے ہیں:

(۱) صبروتحمل: آلام وشدائد کے ایسے ایسے نمونے صحابہ اورخودآپ پر آزمائے گئے اور ایسی سخت قسم کی آزامائشیں دی گئیں کہ اللہ کی پناہ! لیکن ان حضرات کے پائے ثبات پر لغزش تک نہیں آئی، ہرمصیبت کوخندہ پیشانی کے ساتھ برداشت اور ہرآزمائش کو طلاقت ِوجہ کے ساتھ تحمل کیا، کبھی جب یہ مصائب حد سے گزرجاتے اور بعض صحابہ آپ سے کہتے کہ ائے اللہ کے رسول! کیا آپ ہماری مدد نہیں کریں گے؟ کیا آپ ہمارے لئے اللہ سے دعا نہیں کریں گے؟ تو آپ فرماتے: تم سے پہلے لوگوں میں کسی کوکنوا کھود کر اس میں ڈال دیاجاتا، کسی کوآرا سے چیرکر اس کے سر کے دوٹکڑے کردئے جاتے، کسی کولوہے کی کنگھی کرکے اس کے گوشت کو ہڈیوں سے جداکردیاجاتا؛ لیکن یہ چیزیں(بھی) دین کے میں معاملہ روکاوٹ نہیں بن تیں، خدا کی قسم یہ دین غالب آکر رہے گا، یہاں تک کہ لوگ صنعاء سے حضرموت تک چلے جائیں گے اور انھیں سوا ئے خدا کے اور کسی کا خوف نہ ہوگایاپھر بکری کو بھیڑیئے سے ہوگا؛ لیکن تم لوگ جلد باز ہو۔( بخاری، کتاب المغازی، حدیث نمبر:۳۶۱۲) ، یعنی اتنی مصیبت کے باوجود صبر کی ہی تلقین اور تحمل ہی کی ترغیب، خود آپ نے باوجود یہ کہ فرشتے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دوپہاڑوں کے ملانے کی بات کہی؛ لیکن آپ نے منع کردیااور کہاکہ یہ اگر ایمان نہیں لاتے توکیاہوا، ہوسکتا ہے ان کی آئندہ نسل ایمان لائے۔

(۲) ابلاغِ دین: سخت قسم کے ان تکالیف اور اذیتوں کے باوجود فرضِ منصبی کی ادائے گی سے ان حضرات نے ذرا بھی کوتاہی نہیں کی، توحیدکے پیغام کوعام کرتے رہے، شرک وبت پرستی سے لوگوں کوروکتے رہے، اوراسلام کی اچھی باتیں انھیں بتاتے رہے، یہی وجہ ہے کہ اعلانیہ طور پر تبلیغ نہ کرنے اورکفارکے اس قدر مخالفت اورایمان والوں کے ساتھ اس ظالمانہ برتاؤ کے باوجود چالیس سے زائد لوگ ایمان کی دولت سے مالامال ہوچکے تھے۔

(۳) استقامت علی الدین: مکی دورکا ایک پیغام یہ بھی ہے کہ دین کی خاطر ہرچیز کی قربانی دی جاسکتی ہے، اس کے لئے مارکھاناپڑے، جیل جانا پڑے، انگاروں کی سیج پرلٹایا جائے، یا تپتی ہوئی صحرائی ریت پر، دین کے لئے ہر چیز گوارہ ہے، تاریخ وسیر کی کتابیں پلٹ کر دیکھی جائیں، کفارکے ان ظالمانہ اذیتوں کے باوجودایک بھی شخص نے اس دین میں داخل ہونے کے بعد اس سے روگردانی نہیں کی ہے، اس کی شہادت خود حضرت ابوسفیانؓ نے__جب وہ اسلام سے مشرف نہیں ہوئے تھے__نجاشی کے دربارمیں دی ہے۔

ان تینوں پیغام پراگرنظرڈالی جائی توہم اپنے ملک میں کچھ نہ کچھ ان پرعمل پیراتوہیں؛ لیکن مزیدسختی کے ساتھ عمل کرنے کی ضرورت ہے، صبروتحمل سے ہم کام لے رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ لنچنگ کے اتنے واقعات ہونے کے باوجود ہماری طرف سے کوئی ایسا ناخوش گوارواقعہ تسلسل کے ساتھ پیش نہیں آرہاہے، جسے عمل کاردعمل کہاجاسکے، ایک حکم شرعی پرقانون بنادیاگیا؛ لیکن ہم نے کسی قسم کاخون خرابہ نہیں کیا، بابری مسجدکے تعلق سے مندرہونے کے ثبوت نہ ہونے کے باوجودفریق مخالف کے حق میں فیصلہ کردیاگیا؛ لیکن پھربھی ہم نے آگ لگانے والی یاترائیں نہیں نکالیں، یہ ہماراصبروتحمل ہی توہے،یہ اوربات ہے کہ بعض لوگ اسے کمزوری سمجھ رہے ہیں۔

ابلاغ دین میں بھی مصروف ہیں، ہمارے یہاں کئی ایسے کام کرنے والے ہیں، جوداعی اسلام کے لقب سے ملقب ہیں ؛ لیکن یہ کام اس پیمانہ نہیں ہورہاہے، جس پیمانہ ہوناچاہئے، تبلیغی جماعت ابلاغ دین کے بجائے اصلاح معاشرہ کاکام کررہی ہے؛ کیوں کہ ابلاغ دین کاتعلق غیروں تک دین پہچانے سے ہے، اس میں ہم یقیناً کوتاہی کے شکارہوئے ہیں؛ تاہم اتنی بات ضرورہے کہ کچھ نہ کچھ اس میدان بھی کام ہورہاہے؛ لیکن یہ کافی نہیں، ہماری ایک جماعت کواس کے لئے سرگرداں ہوناپڑے گا اوراگراس کابیڑا ملک کی بڑی تنظیمیں اپنے ذمہ لے لیں تواس ملک کی مٹی آج بھی بہت ذرخیزہے؛ بل کہ بعض بڑے بذات خودبھی اس میں لگ کرجھوٹوں کوتیارکریں۔

استقامت علی الدین میں ہم بہت کوتاہ واقع ہوئے ہیں؛ بل کہ اگریہ کہاجائے توبے جانہ ہوگاکہ ہماری اکثریت دین کی طرف راغب ہی نہیں ہے، وہ توبس ہفتہ میں ایک دن نماز پڑھ لینے کوہی مسلمان ہونے کی علامت سمجھتی ہے، اس تعلق سے بہت زیادہ فکرکرنے کی ضرورت ہے اورجب دین پرعمل پیراہی نہیں ہیں تواستقامت علی الدین کی بات کہاں سے آئے گی، اس کے لئے بھی لائحۂ عمل بنانے کی ضرورت ہے، جب اہل باطل اپنے باطل پرہونے کے باوجودگھرتک پہنچ کرلوگوں کی ذہن سازی کرسکتے ہیں توپھر ہم کیوں نہیں کرسکتے ؟ جب ہم ان تینوں پیغام پراس طرح یااس کے مثل عمل کرنے والے ہوجائیں گے، جس طرح مکی دورمیں ان پرعمل ہواہے توپھرہم میں بھی اسی طرح سپرپاور طاقتوں سے برسرپیکارہونے کی طاقت پیداہوجائے گی، جس طرح ان لوگوں کے اندرپیداہوئی تھی۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی