سوچ کوبدلنے کی ضرورت
تبدیلی ایک ضرورت ہے؛ اس لئے تبدیلی ہونی چاہئے، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ بہت سارے ڈاکٹرس مختلف قسم کے امراض کے شکارلوگوں کومشورہ دیتے ہیں کہ آپ جگہ کوتبدیل کریں، آب وہوا بدلے گی توآپ ٹھیک ہوجائیں گے؛ لیکن یہ تبدیلی مثبت ہونی چاہئے، منفی نہیں؛ کیوں کہ مثبت تبدیلی انسان کوصحت مند بناتی ہے، جب کہ منفی تبدیلی اسے بیمار کردیتی ہے۔
ہمارے ملک میں گزشتہ کئی برسوں سے تبدیلیوں کاسلسلہ جاری ہے، ایسی ایسی تبدیلیاں کہ عقل حیران رہ جائے اور سوچنے پرمجبورہوجائے کہ ان تبدیلیوں کی کیاضرورت ہے؟ لیکن جب حکمرانِ وقت اپنے آپ کوبھگوان کادرجہ دیدیں تو پھر وہ کسی کی نہیں سنتے، دنیاادھرسے اُدھرہوجائے، کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی، وہ ایسی تبدیلیاں لے کرآتے ہیں، جونہ ان کے لئے مفیدہوتی ہیں اورنہ ہی ملک کے لئے؛ لیکن ہٹ اور انا کے خول میں اس قدرگھس جاتے ہیں کہ ان کو اس کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتاکہ ہم جوچاہیں، کریں، ہم کسی کی نہیں سنتے؛ لیکن ایسے حکمرانوں کویہ بات یادرکھنے کی ہے کہ دنیا اوردنیاوالے سب کوایک دن فناہے، بقاکسی کونہیں ہے یہاں۔
اس دنیاکے اسٹیج پرکتنے فراعنۂ مصرآئے، جنھوں نے اپنے آپ کو’’سب سے بڑا رب‘‘ کہا؛ لیکن وہ پانی کے زیروبم میں ڈوب گئے اوران کادعوی دھرا کادھرا رہ گیا، نماردۂ کامدان نمودارہوئے، جنھوں نے خدائی کادعوی کیااورکہاکہ میں بھی لوگوں کومارتااورجلاتاہوں؛ لیکن جب موت کے آکٹوپس نے دبوچا تودَم مارنے کے قابل بھی نہیں رہے، قیصر وکسریٰ آئے؛ لیکن نام ونشان مٹ گیا، ابرہہ آیا، جس نے کعبہ کوڈھانے کے لئے مکہ پرچڑھائی کردی؛ لیکن خودکاجسم پورپورکٹ گیا اور مٹی میں رَل مل گیا، خلاصہ یہ کہ جوبھی اس دنیا میں آیا ہے، خواہ اس کی سلطنت کتنی ہی وسیع کیوں نہ ہو؟ اس کی حکومت کا کتناہی دبدبہ کیوں نہ ہو؟اس کے حکم کے ایک اشارہ پرچلنے والوں کی تعداد کتنوں ہی کیوں نہ ہو؟ سب خاک میں مل گئے:
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے
ہاں توبات چل رہی تھی اپنے ملک کے اندرتبدیلی کی، کتنے سڑکوں کے نام بدل دئے گئے، کتنے اسٹیشنوں کے نام تبدیل کردئے گئے،کتنے حقوق اوررائٹس بدل دئے گئے، کتنے قوانین بدل دئے گئے؛ لیکن سوال یہ ہے کہ ان تبدیلیوں سے کیا فائدہ ہوا؟ آب و ہوا بدلی؟ لوگ بدلے؟ لوگوں کے مزاج بدلا؟ لوگوں نے اس تبدیلی سے کتنی ترقی کی؟ سڑکوں کے نام بدلنے سے کیاان سڑکوں پرہونے والی چوریاں رک گئیں؟ ان سڑکوں پرہونے والی چھینا جھپٹی کم ہوئی؟ ان سڑکوں پرہونے والی ایوٹیزنگ رک گئی؟ ان سڑکوں پربھیک مانگنے والوں کی کمی ہوگئی؟ ان سڑکوں پرہونے والی عصمت دریاں تھم گئیں؟ ان سڑکوں پرچلنے والے تہذیب وشرافت کے دائرہ میں آگئے؟ معمولی معمولی بات پر اٹھنے والے جھگڑے رک گئے؟ ان سڑکوں کے اردگرد رہنے والے تعلیم یافتہ اورانٹلکچول بن گئے؟ کیالوگوں کی سوچ بدل گئی؟ ان کے دلوں میں نفرت کی بجائے محبت کاجذبہ پیداہوگیا؟ کیااس سڑک کے کنارہ گندے کپڑوں میں بچے کنچے کھیلتے نظرنہیں آرہے ہیں؟کیاوہاں پانی کے لئے اب لائن نہیں لگنی پڑتی؟ کیاوہاں کی بجلی غائب نہیں ہوتی؟ کیااس سڑک پرگڑھے پڑے ہوئے نہیں ہیں؟ کیااس سڑک کی نالیاں صاف ہوگئیں؟ کیااس سڑک کی نالیوں سے گندہ پانی ابل ابل کرنہیں نکل رہا اورہرراہ چلنے والے کامنھ نہیں چڑارہا؟ کیا اس سڑک کوکبھی الکٹرک والے، کبھی کیبل والے اورکبھی ڈرینج والے کھود کھود کرخراب نہیں کررہے ہیں؟ اگریہ سب نہیں ہورہا ہے توپھرتبدیلی مبارک اورکامیاب ہے؛ لیکن اگریہ سب ویسے کاویساہی ہے توپھرنام کے بدلنے کاکوئی فائدہ نہیں۔
اس وقت زوروشورسے یہ خبرگردش میں ہے کہ اب (INDIA) کانام تبدیل کرکے (BHARAT) رکھ دیاجائے گا، سوال ہے کیوں؟ اس کی ضرورت کیا ہے؟ کیوں کہ اس کے تو دونوں نام پہلے سے ہی ہیں، بھارت کے آئین میں یہ بات درج ہے، دفعہ نمبر(۱) کے نمبر(۱) میں ہے:
India, that is Bharat, shall be a Union of States.(The onstitution of India, pag no:33)
اب بتایاجائے کہ جس کا پہلے سے ہی ’’بھارت‘‘ نام ہو، اب دوبارہ ’’بھارت‘‘ بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ توتحصیل حاصل اورلایعنی کام ہے، پھر یہ اتناآسان بھی نہیں ہے؛ کیوں کہ آزادی کے بعد؛ بل کہ پہلے سے ہی ہرہرچیز میں انڈیا لکھا گیا ہے، جب بھی انگریزی میں لکھا گیا، انڈیالکھا گیا، ہندی میں زیادہ تربھارت لکھا جاتارہا ہے، اردومیں ہند یاہندوستان لکھا جاتا ہے، اگرہرجگہ سے ’’انڈیا‘‘ کوہٹانے کی کوشش کی گئی توہوسکتا ہے کہ یہ ملک پھرسے غلام بن جائے؛ کیوں کہ ۱۹۴۷ء میں جس ملک کوآزادی ملی تھی، وہ انڈیاتھا، کاغذات میں یہی لکھاگیاہے، لہٰذا بھارت کے غلام ہونے کادعوی کیا جاسکتا ہے۔
پھریہ بات بھی قابل غورہے کہ نام کی تبدیلی مفت میں نہیں ہوگی، www.urduduniya.in کے مطابق اس کے لئے ۱۴/ہزارکروڑکابوجھ ملک پرآئے گا، افریقی نژاد انٹلیکچول پراپرٹی قوانین کے ماہروکیل مسٹرڈارین اولیویئیونے بتایاکہ اگر انڈیا کانام بھارت کیاجاتاہے توایسی صورت میں ہندوستان پر ۱۴/ہزار۳۰۴کروڑ کابوجھ عائد ہوگا، یہ اندازہ سوازی لینڈ کا نام تبدیل کرکے ایسواتنی کئے جانے پرہوئے خرچ سے لگایاگیاہے، جس پر ۶۰ملین ڈالرخرچ کرنے پڑے تھے، اگریہ اندازہ صحیح ہے اورقیاس یہی ہے کہ صحیح ہوگا؛ کیوں کہ ملک کے پاسپورٹ، سپریم کورٹ، سی بی آئی، الیکشن کمیشن آف انڈیا، آربی آئی وغیرہ کے علاوہ تمام قومی تعلیمی اداروں اور دیگر مقامات، جہاں لفظ ’’انڈیا‘‘ کا استعمال ہوا ہے، ان سب کوتبدیل کرنا ہوگا، ہندوستان میں۲۸/ریاستیں،۸/مرکزی زیرانتظام علاقہ، ۷۶۶ اضلاع کے علاوہ ۶لاکھ ۴۰ہزارمواضعات ہیں، ہر جگہ اس نام کوبدلنا ہوگا، ایک خبرکے مطابق ’’الٰہ باد‘‘کو ’’پریاگ راج‘‘ کرنے پر۳۰۰کروڑ روپے خرچ کئے گئے۔
سوچئے اورسرپکڑکربیٹھ جایئے کہ ہم عوام پرمختلف قسم کے ٹیکسیز عائدکرکے ہماراجینادوبھرکردیاگیاہے، مہنگائی نے ہرایک کی کمرتوڑکررکھ دی ہے اوریہ اقتدارپربیٹھے ہوئے لوگ بلاضرورت اوربلاوجہ کروڑہاکروڑروپے پانی میں بہادے رہے ہیں؛ لیکن افسوس! کوئی ان پربات کرنے والا نہیں، میڈیا، جس کا کام تھا عوام تک صحیح جان کاری پہنچانے کا، وہ دم ہلانے کے سواکوئی کام نہیں کررہا ہے۔
اس وقت ملک میں بے روزگاری بڑھی ہوئی ہے، اگران کروڑہاکروڑ رپیوں کواس کے مٹانے کے لئے خرچ کیاجاتا تو ملک سے بے روزگاری ختم ہوجاتی؛ لیکن ایسانہیں کرسکتے ؛ کیوں کہ سیاسی روٹیاں جوسیکنی ہے، اب انڈیاکوبھارت بنانے کا مقصد بھی یہی سیاست ہے، اپوزیشن نے اپنے اتحادکانام ’’انڈیا‘‘ قراردیاہے، جس کی وجہ سے حکمراں طبقہ میں کھلبلی مچی ہوئی ہے اوراسی کھلبلی میں یہ سب الٹی سیدھی حرکتیں کی جارہی ہیں۔
نام بدلنے سے کچھ نہیں ہوگا، انڈیامیں سالوں سے موب لنچنگ جاری ہے، تہواروں میں آگ لگانے کام کیاجارہا ہے، اقلیتوں کومستقل طورپرہراساں کیاجارہا ہے، مسلمانوں کوہرجگہ نشانہ بنایاجارہا ہے، ان کے پرسنل لاء پرمداخلت کی جارہی ہے اورسب سے بڑھ کریہ ہے کہ پورے ملک میں نفرت کا زہر بودیا گیاہے، مسلمان نام کوایک چڑ بنادیا گیاہے، اب اگر انڈیا کو بھارت کردیں گے توکیا یہ سب ختم ہوجائے گا؟ ملک کانام بدلنے سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ نفرتی سوچ کو بدلا جائے، ہندومسلم کے مابین جوزہربویاگیاہے، اس کوختم کیا جائے، اونچ نیچ کاجوفرق بنایاگیاہے، اس کومٹایاجائے، ان چیزوں میں تبدیلی پیداکریں، اس سے ملک کی ترقی ہوگی، ملک کا نام بدلنے سے ملک میں ترقی نہیں آئے گی؛ بل کہ الٹا۱۴/ ہزارکروڑ کابوجھ عوام کے کندھوں پرآجائے گا؛ اس لئے سوچ کو بدلئے، سوچنے کے انداز کوبدلئے، ملک کے نام کونہیں۔
ایک تبصرہ شائع کریں