سماج کی اصلاح کے لئے قانون کی بالادستی ضروری

سماج کی اصلاح کے لئے قانون کی بالادستی ضروری

سماج کی اصلاح کے لئے قانون کی بالادستی ضروری

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی


کسی بھی معاشرہ اورسماج کودرستگی کے ساتھ چلانے کے لئے نظم ونسق کی ضرورت پڑتی ہے، اگریہ نظم ونسق نہ ہوتومعاشرہ ، معاشرہ نہیں رہے گا، اسے جنگل کہاجائے گا، جہاں نظم ونسق نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی، وہاں ہر کمزور کو طاقت ورہڑپ کرجاتاہے، ہرچھوٹے کوبڑے سے بچ کررہناپڑتا ہے، کمزوراگراپنے پیٹ کی پوجابھی کرتاہے توڈر ڈرکر، چوکنا رہ کر، اس خوف کے ساتھ کہ کہیں کومجھ پرکوئی حملہ نہ کردے، وہ پانی بھی پیتا ہے توآدھے آدھے گھونٹ لے کرکہ پورا گھونٹ لیتے ہوئے کوئی چڑھ نہ دوڑے، یہ سب صرف اس لئے ہوتا ہے کہ وہاں کوئی قانون نہیں ہوتا، وہاں کوئی نظم و ضبط نہیں ہوتا، وہاں بس طاقت کی حکومت ہوتی ہے، ’’جس کی لاٹھی، اس کی بھینس‘‘ کا محاورہ ان پرصادق آتا ہے۔

لیکن انسانی معاشرہ اس جنگل سے جداہے، یہاں قانون ہے، یہاں نظم وضبط ہے، یہاں نظام ونسق ہے اوریہ قانون اسی لئے ہے؛تاکہ انسان، جانورنہ بن جائے؛ کیوں کہ اس کے اندر بھی توصفت بہیمیت ودیعت کی گئی ہے، جس کامظاہرہ وہ کرتا ہی رہتا ہے، تخلیق انسانی کے وقت فرشتوں نے یہی سوال تواللہ تعالیٰ سے کیا تھا کہ:’’کیا آپ زمین میں ایسوں کوبساناچاہتے ہیں، جووہاں جاکرفساد مچائیں گے اورخون بہائیں گے؟‘‘؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے ’’میں جوجانتاہوں، تم نہیں جانتے‘‘ کہہ کرانھیں خاموش کردیا۔

آج جب ہم اپنے سماج پرنظرڈالتے ہیں توہمیں صاف نظرآتا ہے کہ فرشتوں کاسوال بیجانہیں تھا، ان کاسوال بالکل درست تھا؛ کیوں کہ انھوں نے انسانوں سے پہلے آباد جناتوں کو ایسا ہی کرتے دیکھا تھا، اسی مشاہدہ کی بنیادپرسوال تھا؛ تاہم آج کا انسان ویساہی ہوچکاہے، ہرسوفسادمچائے ہوئے ہے، زمین سے لے کرآسمان کی بلندیوں تک اورآسمان سے لے کرزمین کے اندرون تک فساد ہی فساد؛ حتی کہ سمندرکوبھی انھوں نے نہیں بخشا، آج یہ کیوں کہاجاتاہے کہ اوزون کے پردہ میں سوراخ ہوگیاہے؟ کیا یہ خود بخود ہوا؟ نہیں؛ بل کہ انسانوں کے کرتوت کی وجہ سے ہوا، چند انسانوں نے اپنے مفاد کے لئے کائنات کوہی تہس نہس کردیا، 1945میں ہیروشیماپربم گرایا گیا تھا، وہ اس قدرخطرناک تھا کہ آج بھی وہاں پیداہونے والے بچے معذورہوتے ہیں، ہزاروں میزائلوں کا تختۂ مشق یہ سمندررہے ہیں، یہ سب فسادنہیں توکیا ہے؟

یہ توعالمی سطح کی باتیں ہیں، اگرملکی پیمانہ پردیکھئے تو کیا کم فسادات نہیں ہوئے ہیں؟ فرقہ وارانہ فسادات کوہی لیجئے، اعدادوشمارکے مطابق آزادی کے بعد سے پچھلے 73 سالوں میں ملک کے طوروعرض میں تقریباً58400فسادات میں ہوئے ہیں، بڑے فسادات، جہاں50 یا اس سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں، ان کی تعداد تقریباً110 ہے، نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق 2008 سے 2018تک دس سالوں میں درمیان کم وبیش 8ہزارفسادات ریکارڈ کئے گئے ہیں، 2018کے بعداب تک آٹھ دس بڑے بڑے فسادات ہوچکے ہیں۔

فسادات کے ان ہمالیائی سلسلوں کودیکھ کرایسامحسوس ہوتا ہے کہ ہمارا ملک’’ایک انسانی جنگل ہے، جہاں زورآور طبقہ اپنے سے کمزورطبقہ پر جب، جہاں اورجس وقت چاہے، ٹوٹ پڑتا ہے‘‘، واقعہ بھی یہی ہے کہ یہاں کمزوریا دوسرے لفظوں میں اقلیت کوکب اورکہاں موت کے گھاٹ اتاردیاجائے، کہانہیں جاسکتا، اس تعلق سے محسوس ہوتا ہے کہ یہاں پربسنے والے کچھ لوگ انسان کی کھال میں بھیڑئے ہیں، یاوہ درندہ ، جسے انسانی خون کی لت لگ چکی ہو، انھیں بس خون چاہئے، ایک تازہ رپورٹ دیکھئے:’’دہلی کے سندرنگری علاقہ میں منگل کے روز علاقہ کی ایک مندر میں پرساد کھانے پرایک معذورمسلم شخص کوہجوم نے پیٹ پیٹ کرہلاک کردیا، اس پر چوری کا الزام لگایاگیا اورایک کھمبے سے باندھ کر لاٹھیوں سے اس کی پٹائی کی گئی، ابتدائی تحقیقات سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ مہلوک ذہنی طورپرکمزورتھا‘‘ (روزنامہ منصف، ص:۳، ۲۸/ ستمبر۲۰۲۳)

اس واقعہ کوپڑھئے اورغورکیجئے کہ ایک ایسے شخص کو ہلاک کردیاگیا، جومعذور تھا اوروہ پرشاد کھانے کے لئے مندرگیاہواتھا، کیا انسانیت سے گری ہوئی حرکت نہیں ہے کہ ایک شخص مندر پرشاد کھانے گیا ہوا ہے اوراسے ہلاک کردیا جائے؟ کیاپرشادکھاناجرم ہے؟ ارے پرشادتووہ ہے، جسے تبرک سمجھ کربانٹ بانٹ کر کھایا جاتاہے، کئی مرتبہ ایسا دیکھنے کو ملا کہ آدمی بس میں سوارہے، گاڑی کسی مندرکے پاس رکی، کئی لوگ اترے، مندرکادرشن کرکے آئے اورہاتھ میں پرشاد بھی لے کرآئے اوربس میں سوارتمام مسافروں کوکھانے کے لئے دیا، اگراسرارکے لئے پرشاد نہیں تھا توپھریہ بانٹ کرکیوں کھایا جاتا ہے؟ دوسری بات یہ کہ مندرامن کی جگہ ہے یاقتل گاہ؟ اسے تولوگ امن وشانتی کی جگہ مانتے ہیں، پھریہاں پر پہنچنے والے شخص کو قتل کے گھاٹ کیوں اتاردیاگیا؟ یا اب مندرکاپری بھاسا بدل گیاہے؟ اسے مقتل قرار دیدیا جائے؟ پھرتویہ تمام مندروں کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔

اسرارذہنی طورپرمعذورتھا اسی لئے مندرپرشادکھانے کے لئے گیاتھا، ورنہ یقین ہے کہ وہ ایسا نہیں کرتا، اب دیکھئے انسانی نما بھیڑیوں کو، کہ انھوں نے ایک معذور شخص پرنہ صرف یہ کہ الزام لگایا؛ بل کہ اسے ہلاک ہی کردیا، اگرتھوڑی دیرکے لئے یہ مان لیاجائے کہ وہ چوری کرنے کے لئے گیاتھا؛حالاں کہ ذہنی طورپرمعذورشخص کے بارے میں کچھ نہیں کہاجاسکتا، وہ توکہیں کا سامان اٹھاسکتا ہے، کسی کابھی اٹھا سکتا ہے، اسے کیاغرض کہ کس کاہے اورکہاں کا ہے؟ پھربھی اگروہ چوری کرنے گیا تھا توکیا چورکوہلاک کرنےکاحق حکومت نے ہمیں دے رکھا ہے؟معمولی پٹائی کو تو گوارا کیا جاسکتا ہے؛ لیکن قتل کوکوئی بھی روا نہیں کہہ سکتا۔

ملک میں لاء اینڈ آرڈر کیوں ہے؟ اگراس طرح تمام لوگ اپنے ہاتھوں میں قانون کولے لیں گے توسماج اورمعاشرہ باقی رہے گا؟ عربوں کے بارے میں آتا ہے کہ اسلام سے پہلے ان کے یہاں نظم وضبط نہیں تھا، جس کانتیجہ تھا کہ معمولی معمولی باتوں میں جھگڑے اٹھ کھڑے ہوتے تھے اورچالیس چالیس سال تک چلتے تھے؛ لیکن اسلام نے انھیں قانون اور دستور دیا، جس پرچل کروہ لوگ آدھی دنیاسے زیادہ حصہ پر حکومت کرنے والے بن گئے، قانون اسی لئے ہوتا ہے کہ معاشرہ کے اندرانارکی نہ پھیلے، سماج میں جنگل راج قائم نہ ہوسکے؛ لیکن افسوس کہ ہماراملک جنگل راج بنتاجارہا ہے؛ بل کہ بن چکا ہے، یہاں ان لوگوں کی آؤبھگت کی جاتی ہے، جو مجرمین ہیں، انھیں ایوارڈ دیاجاتا ہے، ظاہر ہے کہ اس سے مجرم ’’بڑے ‘‘ بنیں گے، اورجب وہ بڑے بنیں گے توسماج کے اندر بگاڑ پیداہوگا ۔

آج ہمارے ملک کی اقلیتوں کوکیوں خطرہ محسوس ہورہا ہے؟ وہ سفرکے دوران جنگل میں چرنے والے ہرن کی طرح دیدے کیوں نچاتااورسہماسہمارہتاہے؟ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہاں قانون کی بالادستی نہیں ہے، اگرقانون کی بالادستی ہوتی تو گزشتہ 6ماہ کے دوران 250سے زائد ہیٹ اسپیچ نہیں دئے گئے ہوتے، یہ اسی  لئے دئے کہ قانون ان کی رکھیل ہے، وہ قانون کی پکڑ سے باہر ہیں، قانون بس ان لوگوں کے لئے ہے، جوکمزور ہیں، جودبے ہوئے ہیں، جواقلیت میں ہیں، اکثریت کے لئے کوئی قانون نہیں ہے، سیکڑوں اس کی مثالیں موجودہیں، اگرملک میں قانون کی بالادستی نہیں ہوگی اورمعاشرہ کے تمام افراد کوانصاف نہیں ملے گا تونہ جانے کتنے نکسل اٹھ کھڑے ہوں گے؟ کتنے ماؤں نواز نکلیں گے؟ کتنے الفا پیداہوں گے؟ جن کوگننا اورشمارکرنابھی ایک مسئلہ ہوجائے گا۔

اگرملک کواورسماج ومعاشرہ کودرستگی کے ساتھ چلانا چاہتے ہیں توقانون کی بالادستی قائم کرنی ہوگی، قانون کوسب کے لئے یکساں بناناہوگا اورسب پریکساں نافذ بھی کرناہوگا، جولوگ قانون کواپنے ہاتھ میں لیتے ہیں، انھیں قانون کی گرفت میں لینا ہوگااورجرم کے لحاظ سے سزا بھی دینی ہوگی، جتنابڑا جرم، سزابھی اسی قدر، تب جاکرمعاشرہ پرامن رہے گا، اگراس کی خلاف ورزی کی گئی توآج اگرکمزوروں کی گردن دب رہی ہے توکل زورآوربھی دبائے جائیں گے؛ کیوں کہ ایک اہم اصول ہے کہ یہاں ہربڑے سے اوپرایک بڑا ہوتا ہے، ظاہرہے کہ ہربڑا اپنی بالادستی قائم رکھنا چاہتا ہے اوراس کے لئے وہ اپنے ہم مثلوں کوضرور دبائے گا، آج نہیں توکل۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی