اردو کی نعتیہ شاعری اور غیرمسلم شعراء
محمد جمیل اختر جلیلی ندوی
ڈاکٹرستنام سنگھ خمارؔ:
۱۹۳۵ء میں چک سرجن سنگھ ضلع ساہیوال میں پیدا ہوئے، آپ کے والد سردار سُرجن سنگھ بہت بڑے زمیندارتھے، ۱۹۴۷ء کے ہنگامی دور میں آپ نے بھی اپنے وطن کوخیرباد کہا، کچھ عرصے فیروز پور میں رہے، پھردہلی آکرمستقل قیام کیا، خالصہ کالج سے بی اے کیا،پنجاب یونیورسٹی سے نفسیات میں ایم اے کیا،دلی سے ریسرچ میتھوڈا لوجی اورجدیدفارسی کے کورس کئے، گورونانک یونیورسٹی سے سائیکو فرموکا لوجی کی فیلڈ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی، پھر این سی ای آر ٹی میں افسرمقررہوئے، اس کے بعدویش کالج، بھوانی، ہریانہ میں صدرشعبۂ نفسیات کی حیثیت سے کام انجام دئیے اوروہیں سے ریٹابھی ہوئے، ۲۳/ مارچ ۱۹۹۷ء کواپنی بیمارکے لئے موپیڈ پردوائی لانے جارہے تھے کہ ایک گاڑی نے چوراہے پرٹکرماردی، جس کی وجہ سے وہیںجاں بحق ہوگئے، شام کوبدنصیب ماں بھی چل بسی۔
آپ اردوشعر وشاعری کے رمزشناس تھے، ساری عمر اردو کی خدمت گزاری، گاہ گاہ نثربھی لکھتے رہتے تھے، شاعری میں فاضل شاعر حضرت شمیمؔ کرہانی سے تلمذ اور اکتساب فن کاشرف حاصل ہوا،غزلوں اورنظموں کا مجموعہ ’’لمحات کابہتادریا‘‘ کے نام سے بحروف ہندی اوراردو شائع ہو کرمقبول عام ہوا، جس پر ہریانہ سرکار نے گرانقدر اسٹیٹ ایوارڈ بھی پیش کیا، غزلوں کادوسرے مجموعہ’’محسوس کرو مجھ کو‘‘ بھی ۱۹۸۵ء میں شائع ہوا، ’’اپناکتااپناچور‘‘ کے نام سے افسانوں کا ایک مجموعہ بھی ہے۔(اردو ادب میں سکھوں کاحصہ، ص:۴۸، رأس المال، ص:۸۳، محسوس کرومجھ کرو، ص:۶، ہمارے رسولﷺ، ص:۳۳۷)، نعتیہ نمونۂ کلام:
حجاب دل میں نہیں، چہرے پرنقاب نہیں
شعورِ عشق محمد، ترا جواب نہیں
تراغلام ہوں اسے نفس مطمئن کب سے
مرے پیالے میں بہکی ہوئی شراب نہیں
میں پرخطا ہوں، گنہگار ہوں بہت لیکن
مجھے یقین ہے، مٹی میری خراب نہیں
ہماری راتوں کوصبحوں کی روشنی دے دے
فلک میں کوئی کہیں تجھ سا آفتاب نہیں
وہ ننگے پاؤں ہے کیوں کے چلے گا کانٹوں پر
نبی کاعشق اگر اس کا ہم رکاب نہیں
خمارؔ دور سے ان کاکروں گا نظارہ
انہیں قریب سے دیکھوں نظر میں تاب نہیں
درشن سنگھ دُگلؔ:
۱۴/ستمبر۱۹۲۱ء کوسیدکسراں ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے، آپ سنت کرپال سنگھ مہاراج صدرورلڈفیلوشپ آف ریلیجنس کے صاحبزادے ہیں، بی اے آنر گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا،بعد میں مرکزی حکومت ہند ڈپٹی سکریٹری کے اعلی عہدہ پرفائز رہے، ۱۹۳۸ء سے شاعری کے میدان میں قدم رکھا؛ لیکن ۱۹۴۷ء کے بعد جب دلی میں مستقل سکونت اختیار کی توشعر وسخن کی طرف زیادہ توجہ دینے کاموقع ملا، ۱۹۳۸ء کے ابتدائی دورمیں صوفی غلام مصطفی تبسمؔ سے کسب فیض کیااورشعروشاعری سے وابستگی ہوئی، دہلی میں حضرت شمیم ؔکرہانی سے مشورۂ سخن کیا، درشنؔ کے کلام کا بیشترحصہ ان کے صوفیانہ خیالات کی ترجمانی کرتا ہے،ان کے نظموں کاایک مجموعہ’’تلاش نور‘‘ کے نام سے ۱۹۶۵ء میں شائع ہوا ہے، جس میں غزلیں بھی ہیں اورقطعات بھی؛ لیکن زیادہ تر حصہ نظموں پرمشتمل ہے، انھوں نے ہرمذہب کے رہنماؤں، بزرگوں اورعظیم شخصیتوں کی مدح میں نظمیں کہی ہیں، باقی اوربھی مجموعے ہیں، جو’’جادۂ نو‘‘(۱۹۹۲ء)، ’’منزل نور‘‘(۱۹۷۰ء)اور’’متاع نور‘‘(۱۹۸۸ء) کے نام سے مطبوع ہیں، آپ کاانتقال ۳۰/مئی ۱۹۸۹ء کوہوا۔ (اردوادب میں سکھوں کاحصہ، ص:۵۵، ہمارے رسولﷺ،ص:۳۴۶)، نعتیہ کلام کانمونہ ان کی کتاب ’’جادۂ نور‘‘ص:۱۶۳/سے:
نہ توعرب کے لئے تھا نہ عجم کے لئے
اک آستیں تھا زمانے کی چشم نم کے لئے
ترے نفس سے ہے دنیا ودیں میں بیداری
بنے ہیں کون ومکاں ایک تیرے دم کے لئے
پھرایک بار ہوباران رحمت اے سرورؐ
تڑپ رہاہے زمانہ ترے کرم کے لئے
ترا کرم ہے امیروغریب پریکساں
تمام قوموں کی خاطر، سبھی اُمم کے لئے
تری عبا کا جودامن زمیں پہ پھیلا ہے
بنی ہے مسندِ نوعشق کے حشم کے لئے
یہاں تومہرووفا کے خزانے بٹتے ہیں
یہ آستانہ نہیں دام اوردرم کے لئے
جوتیرے سائے میں آئے ، پناہ پاتا ہے
فضائے امن ہمسایۂ حرم کے لئے
دیا ہے وحدت انسانیت کاتونے پیغام
جودرشنؔ اب بھی ہے اکسیر درد وغم کے لئے
سردارگوربخش سنگھ مخمورؔجالندھری:
۱۹۱۵ء جالندھر پنجاب میں پیدا ہوئے، ان کی ابتدائی زندگی مشکلوں سے گھری ہوئی تھی، کالج کی تعلیم ادھوری چھوڑ کرانجینئرنگ کرنے کے لئے بمبئی گئے؛ مگردوسال بعداسے بھی ادھوراچھوڑ کرواپس آگئے، اس کے بعد روزگارحاصل کرنے کے لئے چھوٹے چھوٹے کام کئے؛ لیکن کسی میں بھی کامیابی نہیں ملی، بالآخر انھوں نے صحافت اورترجمے کاپیشہ اختیارکیا اوراسی سے ان کی شناخت قائم ہوئی، انھوں نے مغربی اورہندوستانی زبانوں سے اردو میں کئی اہم ترین تراجم کئے ہیں، مخمورؔ نے شاعری بھی کی اوردلؔ شہاہ جہاں پوری اورسیمابؔ اکبرآبادی سے مشورۂ سخن کیا، ان کی شاعری حلقۂ ارباب ذوق اورترقی پسند فکرکے امتزاجی تخلیقی مزاج کی شاعری ہے، ’’جلوہ گاہ‘‘، ’’تلاطم‘‘، ’’مختصر نظمیں‘‘ اور’’پھلجھڑیاں‘‘ ان کے شعری مجموعے ہیں، اس کے علاوہ کئی مجموعے افسانوں کے ہیں، جیسے: بوڑھی چڑیل، چمگادڑ، خوفناک پرچھائیاں،خواب گاہ میں، لاش کے ٹکڑے، پہلی محبت (مترجم) اورزوربا (مترجم)وغیرہ، یکم جون۱۹۷۹ء کودہلی میں انتقال کیا۔(ریختہ ویب سائٹ، اردوادب میں سکھوں کاحصہ، ص:۱۵۷، ہمارے رسول،ص:۵۲۶، بہرزماں بہرزباں، ص:۵۴۲)،نمونۂ کلام:
پھیلا افق پہ نور رسالت مآب کا
ہیبت سے منھ اترنے لگا آفتاب کا
سیاحِ عرش، سائرِ کون ومکاں ہے تو
روح الامیں ہے نام ترے ہم رکاب کا
وحدت کا ایک مغنیٔ آتش نوا ہے تو
ہرنغمہ کفر سوز ہے تیرے رباب کا
تاروں میں روشنی ہے توپھولوں میں تازگی
یہ وقت ہے ظہور رسالت مآب کا
ظلمت کدوں میں ہیں سحرنوکی تابشیں
یہ فیض ہے ولادتِ حتمی مآب کا
مخمورؔ کیفِ نورِ رسالت سے مست ہوں
سب جانتے ہیں میں نہیں خوگرشراب کا
ایک تبصرہ شائع کریں