تقدیرشکن قوت باقی ہے ابھی ’’ہم‘‘ میں

تقدیرشکن قوت باقی ہے ابھی ’’ہم‘‘ میں

تقدیرشکن قوت باقی ہے ابھی ''ہم‘‘ میں

محمد جمیل اخترجلیلی ندوی


اس دنیا میں کچھ انسان ایسے بھی ہیں، جن کو تقدیر پر بھروسہ نہیں ہے، جواپنے بازوپراعتماد کرتے ہیں، جوکسی بھی کام کی انجام دہی پرشکرکی بجائے زورِبازو پریقین رکھتے ہیں، یعنی ان کا کل سرمایہ ’’اپنی ذات، اپنی طاقت اوراپنی محنت‘‘ ہے، ظاہرہے کہ یہ لوگ ایک خداکوماننے سے رہے؛ کیوں کہ جوایک خدا کومانے گا، وہ تقدیرکاانکارنہیں کرے گا، تقدیر پر اس کوبھروسہ ہوگا؛ بل کہ وہ تدبیرکرنے کے بعد بھی تقدیرپرہی بھروسہ کرے گا، بات بھی صحیح ہے کہ انسان کاکوئی کام اس وقت تک وجود میں نہیں آسکتا، جب تک کہ خدائے وحدہ‘ لاشریک نہ چاہے۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ کچھ نہیں کرناہے، ہاتھ پرہاتھ دھرے منتظرفردا رہیں، ہمیں تدبیرکاحکم دیاگیاہے، سووہ تو کرنا ہی ہے، ایک انسان کوبخارآتاہے، شدت کابخار، اسے حکم ہے کہ وہ علاج کرائے، اگروہ علاج نہیں کراتا تو یہ حکم کی خلاف ورزی ہے، بخارکودورکرنے کے لئے دوادارو کرناپڑے گا، علاج ومعالجہ کے بعد بھروسہ تقدیراوراللہ کی مشیت پر کرنا ہے کہ اگراللہ چاہے گا تواس دواسے بخاراترجائے گا، کیاہم روزانہ کئی ایسے افراد کونہیں دیکھتے، جن کابخار ڈولو اور پاراسیٹامول سے اترجاتاہے؛ لیکن کئی افراد ایسے بھی نظرآتے ہیں، جنھیں انجکشن بھی دیناپڑتا ہے، تب جاکربخاراترتاہے؛ بل کہ کئی توایسے بھی مشاہدہ میں آتے ہیں کہ ہزارجتن کے بعدبھی بخارنہیں اترتا اوراسی بیماری کے بہانے وہ موت کی آغوش میں جاپہنچتا ہے۔

یہ دنیا دارالاسباب ہے؛ اس لئے یہاں تدبیرکرنے کے بعد نتیجہ کواللہ کے بھروسہ پر چھوڑناہے، پہلے امتحان کی تیاری جم کرکریں، پھرامتحان کے سارے مطلوبہ سوالات حل کریں، پھراس کے بعدیہ یقین رکھیں کہ ہم کامیاب ضرورہوں گے، بعض دفعہ ایساہوتا ہے کہ ایک انسان تیاری بھی بھرپورکرتا ہے اورجوابات بھی مکمل طورپرلکھ آتا ہے، رزلٹ بھی سوفیصد ہوتا ہے؛ لیکن بیچارہ! دردرکی ٹھوکریں کھاتاہے، نوکری نہیں ملتی؛ حالاں کہ اس کاوہ دوست نوکری کررہا ہوتا ہے، جس کے مارکس اس سے کم آتے رہے ہیں، یہی دائرہ تقدیرکاہے، ہمیں اپنی طرف سے تدبیرکرنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑنی چاہئے، پھراس کے بعد تقدیرپربھروسہ کرناچاہئے کہ اگرتقدیرمیں ہوگا توہوگا، ورنہ نہیں۔

یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ تقدیردوطرح کی ہوتی ہے، ایک وہ، جس میں تبدیلی نہیں ہوسکتی، جسے علمی اصطلاح میں’’مُبْرَمْ‘‘ کہاجاتاہے، دوسری وہ، جس میں تبدیلی ہوسکتی ہے، جسے کسی کام کے ساتھ جوڑدیاجاتاہے، جسے علمی اصطلاح میں تقدیر’’مُعَلَّقْ‘‘ کہتے ہیں، مثلاً: بندہ مانگے گا توہم دیں گے، نہیں مانگے گا توہم نہیں دیں گے، ایک ماں بھی بن مانگے اپنے پیارے اورلاڈلے کو دودھ نہیں دیتی؛ حالاں کہ وہ دنیاومافیہا سے زیادہ اسے چاہتی ہے، یہی بندوں کے ساتھ ہے، اب چوں کہ ہمیں معلوم نہیں کہ کس کام میں ہماری تقدیر مبرم ہے اورکس کام میں معلق؛ اس لئے ہمیں اپنی طرف سے تدبیر کرتے رہناچاہئے، تدبیرکرلینے کے بعد تقدیرکے حوالہ کردینا چاہئے۔

تقدیرمعلق کے بارے میں ہی یہ کہاجاسکتاہے کہ انسان اپنے ہاتھ سے اپنی تقدیرلکھتاہے، دنیامیں بہت ساری مثالیں ہیں، جہاں بظاہرایسامحسوس ہوتا ہے اورظاہری اسباب ایسے نظر آتے ہیں، جسے دیکھ کر ہرآدمی یہ کہہ اٹھتا ہے کہ اس سے اب کچھ نہ ہوپائے گا؛ لیکن وہ حوصلہ اورہمت کرتا ہے اوردنیا کے سامنے ایک نمونہ بن کرابھرتا ہے، آئن اسٹائن کے نام سے کوئی بھی پڑھالکھااوربالخصوص سائنس کاطالب علم ناواقف نہیں ہوگا، اس نے روشنی کوتوانائی کے چھوٹے چھوٹے کو نوریہ ذرات (photons) کی مددسے سمجھایا، روشنی کی رفتار 3x108m/s بتائی، طبیعیات کے مشہورترین مساواتE=mc2، جس میں مادہ اورتوانائی کاآپس میں تبدیل ممکن ہونے کا بتایا،کیاآپ کومعلوم ہے کہ ان تمام تحقیقات کا بتانے والا ایک مرض میں مبتلاتھا، جس کانام (dyslexia)ہے، جس میں انسان کے سوچنے سمجھنے کی حس عام آدمی سے کم ہوجاتی ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ اس بیماری میں مبتلاشخص کے لئے مختلف الفاظ کوپہچاننا مشکل ہوجاتا ہے، ایسے بیمارشخص نے دنیائے سائنس کووہ دیا، جوکسی دوسرے نے نہیں دیا۔

بیسویں صدی کاایک بڑا سائنس داںاسٹیفن ہاکنگ کے نام سے معروف ہے، اسے آئن اسٹائن کے ہم پلہ سمجھاجاتاہے، اس نے کائنات میں ایک ایسا’’بلیک ہول‘‘ دریافت کیا، جس سے روزانہ نئے سیارے جنم لیتے ہیں، اس بلیک ہول سے ایسی شعائیں خارج ہوتی ہیں، جو کائنا ت میں بڑی تبدیلیوں کاسبب بھی ہیں، ان شعاعوں کو اسٹیفن کی مناسبت سے ’’ہاکنگ ریڈی ایشن‘‘ کہاجاتا ہے، یہ سائنس دان بھی ایک خطرناک بیماری میں مبتلاتھا، جس کانام ’’موٹرنیوران ڈیزیز‘‘ہے، اس کی بیماری کی وجہ سے انسان کے ہاتھ پیرکام کرنابندکردیتے ہیں، زبان مفلوج ہوجاتی ہے، ہاکنگ کوبھی ایسی دشواریوں سے گزرناپڑا؛ لیکن وہ دماغی لحاظ سے صحت مند رہا اور1963سے لے کر 2018 تک اسی بیماری میں مبتلارہتے ہوئے اس نے دنیائے سائنس کو عظیم تحفہ دیا اورتمغہ وامتیازات حاصل کئے۔

ایک اورسائنس داں ہیں، جسے دنیا’’بابائے ایجادات‘‘ کے نام سے جانتی ہے، اس کانام تھامسن ایڈیسن ہے، انھوں نے بلب، آٹومیٹک ٹیلی گراف، ٹرانسمیٹرریسیور، فونوگراف، میگا فون اورسینما مشین جیسی چیزیںایجاد کیں؛ لیکن یہ انسان بہرا تھا، سماعت سے محروم؛ لیکن اس کی بیماری اس کے کاموں کے لئے حارج نہیں بنی۔

رویندرجین ہندی فلموں کے مانے جانے موسیقاراورنغمہ نگارتھے، ۲۸/ فروری ۱۹۴۴ء کواترپردیش کے علی گڑھ میں پیدا ہوئے، ان کے والد اِیندرمنی جین سنسکرت کے بڑے پنڈت اور آیُرویدآچاریہ تھے، ان کی والدہ کانام کرن جین تھا، رویندر ان کی سات اولاد میں سے تیسری اولاد تھے، یہ بچپن سے نابینا تھے، اس کے باوجود انھوں نے ہمت سے کام لیتے ہوئے ۱۹۷۲ء میں فلمی کیریئر کی شروعات کی اورنغمہ وموسیقی کی دنیا پر چھاگئے، ۱۹۸۵ء میں فلم رام تیری گنگا میلی کے لئے فلم فیئرانعام برائے بہترین موسیقاربھی ملا تھا، ۲۰۱۵ء میں ان کو پدم شری انعام سے بھی نوازاگیا، بھارتی ٹیلی ویژن کے دیومالا ئی سیریل ’’رامائن‘‘میں بھی انھوں نے ہی سنگیت دیاتھا، جس کی وجہ سے وہ بھارت کے گھرگھر میں پہچانے جانے لگے، ۹/اکتوبر ۲۰۱۵ء جمعہ کے دن ممبئی میں ان کاانتقال ہوا۔

یہ چندمثالیں ہیں، جن کے تعلق سے کہاجاسکتا ہے کہ ناموافق حالات میں انھوں نے اپنی کشتیاں چلائیں اورساحل تک پہنچے، ان لوگوں نے اپنی طاقت کے مطابق تدابیرکیں، جن کے نتیجہ میں اس مقام تک پہنچے، جہاں اچھے اچھے نہیں پہنچ سکے، یہ تقدیرنہیں توکیا ہے کہ جولوگ جسمانی لحاظ سے کمزور ہیں، جودنیاکی نظروں میں کوتاہ ہیں، جودنیا کی نگاہ میں ناقابل اعتناہیں، انھوں نے اپنی محنت، لگن اورشوق سے اپنے کو اونچے مقام تک پہنچایا، یہ تقدیرمعلق تھی، اگریہ لوگ بھی ہاتھ پرہاتھ دھرے منتظرفردا رہتے توکیادنیاان کوجان پاتی؟

ہم بھی اگرکچھ کرناچاہتے ہیں توعزم وحوصلہ اورپختہ ارادہ کے ساتھ ہمیں بھی میدان میں آناہوگا، آج ہمارے ملک میں ہماری حیثیت لئیم کے دسترخوان پر یتیم کی سی ہے، جوبھی قانون بنتاہے، ہمیں ٹارگٹ کیاجاتاہے، الیکشن کے جتنے مواقع آتے ہیں، ہرایک میں ہم ہی ٹارگٹ ہوتے ہیں، جیتنے والے ہمارے ہی نام پرجیتتے ہیں اورہارنے والے بھی ہمارے ہی نام پرہارتے ہیں، فسادات کاایک ہمالیائی سلسلہ ہے، جوآزادی سے پہلے سے شروع ہوا توآج تک بندہونے کانام نہیں لے رہا ہے، کتنی جانیں چلی گئیں، کتنے گھر اجڑ گئے، کتنے سہاگ لٹ گئے، کتنے بچے یتیم ہوگئے، کتنی ماؤوں نے اپنے لالوں کو کھویا، کتنی بہنوں نے اپنے بھائیوں کوگنوایا، تجارتیں برباد ہوگئیں، دکانیں جلادی گئیں، زمینوں پرقبضہ کرلیاگیا، اب بھی یہی سب چل رہا ہے، گائے کے نام پر، لوجہا د کے نام پر، دھرم پریورتن کے نام، حجاب کے نام پر، اورہم تقدیرپربھروسہ کئے بیٹھے ہوئے ہیں، بہت زیادہ تواپنے بوڑھے قائدین کوس لیتے ہیں اوربس، رولیتے ہیں اوربس، خود کوئی تدبیرنہیں کرتے ، خود میدان عمل میں نہیں آتے۔

حکومت وسیادت کے لحاظ سے من حیث القوم اگر دیکھا جائے تویہ کہاجاسکتاہے کہ ہماری تقدیراس بارے میں معلق ہے، آج بھی اگرہم میدان عمل میں آجائیں گے تواپنی تقدیرکوبدل سکتے ہیں، ظلم کی تاریکی چھٹ سکتی ہے، ماضی اس پر شاہد ہے، جب تک ہم تن بہ تقدیرنہیں رہے، سیادت کرتے رہے، آج ہم کو کیوں برتن کا تلچھٹ سمجھ لیاگیا ہے؟ ہمیں تواس قوم نے اپنی آغوش محبت میں پالا ہے، جس نے اپنے پاؤں تلے سرداروں کے تاجوں کوروند دیا تھا، وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ کردارکے غازی تھے اورہم گفتارکے مجاہد، ہم نے اپنے اسلاف کی میراث کو گنوا دیا ہے، جس کی وجہ سے آسمان نے ہمیں ثریا سے زمین پرپھینک دیا ہے، وقت ابھی باقی ہے، ہم اٹھ کر کھڑے ہوجائیں توتقدیربدل سکتی ہے:

تقدیرشکن قوت باقی ہے ابھی ’’ہم‘‘ میں

نادان جسے کہتے ہیں تقدیرکا زندانی

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی