ظلم بھی لاعلاج نہیں
ہمارامانناہے کہ اس دنیامیں ہردردکی دواہے، ہرچوٹ کا مرہم ہے، ہربیماری کاعلاج ہے، ہرمصیبت سے چھٹکارہ ہے، ہرغم سے نجات ہے، کوئی پریشانی اورپیچیدگی ایسی نہیں، جس کاحل نہ ہو، ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ ہم میں سے بہت سارے اس دوا، اس مرہم، اس چھٹکارہ، اس نجات اوراس حل تک پہنچ نہ سکیں، نہ پہنچ پانااس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ لاعلاج ہے، پہلے زمانہ میں ٹی بی کی بیماری کولاعلاج تصورکیاجاتاتھا؛ لیکن آج علاج ہے اورسوفیصد علاج ہے، کسی زمانہ میں کینسر کولاعلاج سمجھاجاتاتھا، آج اس کابھی علاج ہے اور لوگ ٹھیک بھی ہورہے ہیں، ایڈس جیسے موذی مرض کوبھی ٹھیک کردیا جاتا ہے، توبات یہ ہے کہ ہردردکی دواہے، بس کھوج کرنے اورڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔
اس وقت ہم لوگ اپنے اُس ملک میں، جسے ہمارے آباء و اجداد نے سونے کی چڑیا بنایا تھا،ایسی زندگی گزاررہے ہیں، جس کاکوئی پرسان حال نہیں، کہیں بھی بے دھڑک ہماری جان لے لی جارہی ہے، گولیوں سے بھون دیاجارہا ہے، حجاب پر جملے کسے جارہے ہیں، عوامی مقامات پر، جہاں ہنومان چالیسہ کا پاٹھ ہوسکتاہے، ہم نماز نہیں پڑھ سکتے، کھلے عام سبھاؤوں میں ہمیں مارنے اورکاٹنے کی بات کی جارہی ہے، پولیس کی موجودگی میں ہمارے خلاف نعرہ بازی کی جارہی ہے، ہمیں گالیاں دی جارہی ہیں،پولیس کی موجودگی میں مسجد میں گھس کرمسجد کی حرمت کوپامال کیا جارہا ہے اورائمہ ومؤذنین کو شہید کردیا جارہا ہے، سماجی بائیکاٹ کا اعلان کیاجارہا ہے، ہماری بہن بیٹیوں کوارتداد کا رستہ اپنانے مجبورکیاجارہا ہے، حد تویہ ہے کہ ہمارے پی ایم اپنے من کی بات میں کھلے عام یہ کہتے ہیں کہ ا س سال رکھشابندھن میں مسلم خواتین سے راکھی بندھوائیں، جس کے لئے پورے ملک میں اسٹیج بھی سجائے گئے اورنہ جانے کتنی مسلم خواتین نے غیرمسلم مردوں کے ہاتھوں میں راکھی بھی باندھی۔
اگریہ کہاجائے کہ راکھی باندھنا توایک اچھی بات ہے، اس کے ذریعہ سے توبھائی بہن کاتصورقائم ہوتا ہے، جس سے پیارومحبت اوربھائی چارہ میں اضافہ ہی ہوگا، پھر اس میں اعتراض کیوں؟ اس کاسیدھاجواب یہ ہے کہ اسلامی شریعت میں جب لے پالک کومحرم قرارنہیں دیاگیا، توایک راکھی باندھنے سے بھائی کیسے بن سکتا ہے؟ دوسری بات: جس طرح بھائی چارہ کوفروغ دینے کے لئے آپ راکھی بندھوارہے ہیں، کیاآپ اس کی اجازت دیں گے کہ ہم بھی بھائی چارہ کوفروغ دینے کے لئے اپنی تمام غیرمسلم بہنوں کے سروں پرحجاب ڈال دیں؟ اس کی توآپ اجازت نہیں دیں گے؛ بل کہ آپ اسے’’حجاب جہاد‘‘ کہہ دیں گے، کیوں؟ کیوں کہ اس کا تعلق مذہب سے ہے، تو کیا راکھی کا تعلق مذہب سے نہیں ہے؟ گویاآپ مسلم بہنوں کو اپنے مذہبی امورانجام دلواکرآہستہ آہستہ دائرۂ اسلام سے نکال دیں گے، جیساکہ ہورہاہے، اورظاہرہے کہ یہ درست نہیں ہے۔
بہرحال! بات سے بات نکل گئی، ورنہ اصل بات یہ ہے کہ اتنے سارے امورمسلمانوں کے ساتھ انجام دئے گئے ؛ لیکن مجال ہے کہ ہماری طرف سے کھل کرکوئی بولنے والا بھی بولے، آج تک کھل کران سب موضوعات پرکسی نے بات نہیں کی، لوگ اپنے بڑوں کی طرف ٹکٹکی باندھ کردیکھتے رہے؛ لیکن نگاہیں پتھرا گئیں، پلٹ پلٹ کرواپس آگئیں، اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ ہماری اکثریت نے اپنے آپ کوحالات کے رخ پر ڈال دیاہے، جوہوگا، دیکھاجائے گا، سب سہہ رہے ہیں، ہم بھی سہہ لیں گے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، جب کسی کا کوئی نہیں ہوتا ہے تواس کے پاس دوہی راستے ہوتے ہیں: یاتووہ کسی کے بھروسہ پر ظلم سہتا رہے، یا پھر ظلم کے مقابلہ کے لئے اپنے کوتیارکرلے،ہمارے سامنے فلسطین کے باشندوں کی مثال موجودہے، جب انھوں نے دیکھا کہ چھپن ممالک بھی ہمارے ساتھ کھڑے نہیں ہیں تو انھوں نے خودہی ظالموں سے مقابلہ کافیصلہ کیا ، کیا چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کے ہاتھوں کے پتھروں میں ہمارے لئے سبق نہیں ہے؟ یہ چھوٹے بچے کس طرح بندوق کی نال کے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں اورآنکھوں میں آنکھیں ڈال کرباتیں کرتے ہیں؟ ظالم جب گھرمیں گھس آئے تواس کااستقبال نہیں کیاجاتا، اس کامقابلہ کیاجاتا ہے، اوریہ دنیا کے ہر شہری کاحق ہے، اسے سیلف ڈیفینس کاحق کہا جاتا ہے، اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کردہ ’’انسانی حقوق کا عالمی منشور‘‘ کے دفعہ:۳ میں ہے:’’ہرشخص کواپنی جان، آزادی اورذاتی تحفظ کاحق ہے‘‘(ص:۴)، خود ہمارے ملک کے قانون میں ہے:’’کسی شخص کواس کی جان یاشخصی آزادی سے قانون کے ذریعہ قائم کئے ہوئے ضابطہ کے سوا کسی اورطریقہ سے محروم نہ کیاجائے‘‘(بھارت کاآئین(مترجم)، دفعہ نمبر:۲۱،ص:۴۹)۔
ایسے حالات میں، جب سب ساتھ چھوڑجائیں اورظالم آپ کے دروازہ تک پہنچ جائے توسب سے پہلے آپ کو، اپنے ذہن ودماغ کواورعقل اورسوچ کومضبوط ومستحکم کرناہے، پھراس کے بعدمقابلہ کرناہے، کب تک دوسروں کی راہ دیکھتے رہیں گے ہم؟ کب تک اس بھروسہ پرہاتھ پرہاتھ دھرے رہیں گے کہ ہمارے قائدین ظلم کے خلاف بولیں گے، اپنا منھ کھولیں گے؟ بھروسہ کوچھوڑیئے اوراپنے ذہن میں یہ راسخ کرلیجئے کہ ظلم ہم پرہوتومقابلہ بھی ہمیں خود کرنی ہوگی، ایک باراگرظالم کے سامنے سینہ سپرہوگئے توظالم دم دباکربھاگے گا، ظالم طاقت ور نہیں ہوتا، وہ بزدل ہوتا ہے، ڈرپوک ہوتاہے، بس آپ کواپنے اندر کے ڈرکو بھگانا ہے، اگرہم نے ایساکرلیاتوہم کبھی مظلومیت کا رونانہیں رئیں گے۔
اس سلسلہ میں سیرت کے ایک واقعہ سے ہمیں سبق ملتا ہے، صلح حدیبیہ کی تکمیل کے بعد جب رسول اللہﷺمدینہ پہنچ گئے توابوبصیرؓکفارقریش کی قید سے بھاگ کرمدینہ پہنچے، قریش نے فوراًاِن کی واپسی کے لئے دولوگوں کومدینہ روانہ کیا(کیوں کہ معاہدہ کی ایک شق یہ بھی تھی کہ قریش کا جومرد مسلمان ہوکراپنے اولیاء اورموالی کی اجازت کے بغیرمدینے آجائے، اُسے واپس کردیاجائے گا)، آپﷺ نے ایفائے عہدکرتے ہوئے ابوبصیرؓکواُن کے ساتھ مکہ کے لئے روانہ کردیا، ابوبصیرؓاُن کے ساتھ روانہ توگئے؛ لیکن راستہ میں اُن میں سے ایک کوقتل کردیا، جب دوسرے نے یہ حال دیکھا تو بھاگ کھڑاہوااورسیدھامدینہ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: میراساتھی توماراگیااوراب میں بھی ماراجانے والا ہوں، اُسی کے پیچھے ابوبصیرؓبھی مدینہ پہنچے اور حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضرہوکرعرض کیا:ائے اللہ کے رسولﷺ! اللہ تعالیٰ نے آپ کے عہدکوپوراکردیا، آپ نے تو مجھے اُن کے حوالے کردیاتھا۔ پھراللہ تعالیٰ نے اُن سے نجات کی میرے لئے ایک سبیل مہیا فرمادی ہے، میں نے یہ جوکچھ کیا، محض اس لئے کیاکہ میرے اوراِن کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہے، آپﷺنے فرمایا: ویل أمہ!مسعرحرب،لوکان لہ أحد!’’ناس ہو! جنگ بھڑکانے والاہے،کاش! کوئی اِس کے ساتھ ہوتا‘‘، حضرت ابوبصیرسمجھ گئے کہ آپ ﷺ کو میرا یہاں ٹھہرنا پسند نہیں؛ چنانچہ اُنھوں نے ساحل سمندرکوٹھکانہ بنایا، اب جوبھی مکہ سے فرارہوکرآتا، سیدھے ساحل پرپہنچتا، اِس طرح ستر(۷۰) یاتین سو(۳۰۰)لوگوں کی ایک بڑی تعداد اکٹھی ہوگئی، یہ ساحل مکہ سے شام جانے والے تاجرین ِقریش کی راہ میں پڑتاتھا؛ چنانچہ اِن لوگوں نے اُن کے مال واسباب کو اپنی غذائی قلت دورکرنے کاذریعہ بنایا، جب قریش اِن سے تنگ آگئے تو آپ کواِن لوگوں کواپنے پاس بلالینے اجازت دیدی اور اِس طرح معاہدہ کی اس شق کو اُن لوگوںنے خود ہی کالعدم قرار دے دیا، جومکہ سے مسلمان ہوکرآنے کے بعد واپس کئے جانے کے تعلق سے تھی۔
اس پورے واقعہ میں دیکھئے کہ مشرکین مکہ سے جو معاہدہ ہواتھااورجس میں بظاہرمسلمانوں نے دب کرصلح کی تھی، اس کی پوری پاس داری کرتے ہوئے مکہ سے مسلمان ہو کرآئے ہوئے ایک فرد ابوبصیرکومسلمانوں نے واپس بھیج دیا تھا؛ حالاں کہ انھیں معلوم تھاکہ مکہ میں ان کے ساتھ ظلم روا رکھاجاتاہے، انھیں ستایاجاتاہے، جب ابوبصیرنے دیکھاکہ اب پھراسی جہنم میں جاناپڑے گا، جہاں سے کسی طرح جان بچا کر بھاگ نکلاتھاتوانھوں نے ظلم نہ سہنے کاتہیہ کرکے ایک پلاننگ کی ؛ کیوں کہ ظالم اورمظلوم کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہوتا، اوراگرخدانخواستہ معاہدہ ہوبھی جائے توصرف کاغذی ہوتاہے، مظلوم تواس کی پاس داری کرتاہے اور کرنا چاہتاہے؛ لیکن ظالم اپنے اناکے خول سے باہر نکلنا گوارا نہیں کرتا، وہ تو بس ظلم کے نشہ میں چورہوتاہے اورمظلوم پر قہر برپا کرناجانتاہے، اس کی بہت ساری مثالیں موجودہیں، کتنے معاہدہ ہوئے؟ لیکن ہربار ظالم کی طرف سے اس کی خلاف ورزی ہی کی گئی۔
اس واقعہ سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ اگرحوصلہ ہوتوظالم کا ظلم سہنے کی بجائے اس کوجھکنے پرمجبورکرسکتے ہیں؛ اس لئے ظلم سے گھبرایئے نہیں، مظلومیت کارونامت رویئے، ظلم کابھی علاج ہے، بس علاج کوڈھونڈنے کی ضرورت ہے، اس پرلگ جایئے اورظالم کے ظلم سے نجات پایئے۔
ایک تبصرہ شائع کریں