غیرمسلم نعت گوشعراء

غیرمسلم نعت گوشعراء

غیرمسلم نعت گوشعراء

(قسط:۴)

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

عرشؔ ملسیانی:

نام بال مکند، تخلص عرشؔ ، ادبی دنیا میں عرشؔ ملسیانی کے نام سے مشہور ہیں، ۲۰/ستمبر۱۹۰۸ء کوپیداہوئے، آ پ کے والد جوشؔ ملسیانی مشہورشاعر اورادیب ہیں، عرشؔ کو بچپن ہی سے شعرگوئی کاشوق رہا، پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کاامتحان پاس کیا، اوورسیر کی ٹریننگ حاصل کی اورنہرکے محکمے میں ملازم ہوگئے؛ لیکن ایک سال کی مدت میں تین بار ملازمت ترک کی، بالآخراس سے قطع تعلق کرلیا، اس کے بعدایک صنعتی مدرسے میں بارہ سال تک مدرس رہے، پھرحکومت ہند کے دفتروں میں ملازمت اختیار کی، ۱۹۴۸ء ماہنامہ’’آج کل‘‘ سے بحیثیت نائب مدیر منسلک ہوگئے، عرشؔ کو شاعری میں کسی سے تلمذ حاصل نہیں رہا، والد کے فیضان سے شاعری کے اس مقام پر پہنچے، انھوں نے نعتیہ شاعری میں بھی اپنا الگ مقام اورپہچان بنائی ہے، ان کے نعتیہ کلام مجموعہ’’آہنگ حجاز‘‘۱۹۵۳ء میں شائع ہوا، عرشؔ اپنی شاعری کی داد جوشؔ ملیح آبادی، مولانا نیاز فتحپوری اور پروفیسر رشید احمد صدیقی جیسے سخن فہموں سے حاصل کر چکے ہیں، ان کے کلام کے دومجموعے:’’ہفت رنگ‘‘ اور ’’چنگ وآہنگ‘‘ ان کی کارآگہی پر شاہد ہیں،مزاحیہ مضامین کا ایک مجموعہ’’پوسٹ مارٹم‘‘ کے نام سے بھی شائع ہوا ہے، عرشؔ کی نعت گوئی پرخلوص، پراثر اورپرمغز شعری دل آویزیوں سے مالامال ہے، جس کی گواہی مولانا عبد الماجد دریابادی کے اس تبصرہ سے ملتا ہے کہ: ’’مسلموں اور غیر مسلموں کوملا کربھی جومختصر فہرست منتخب نعت گوشعراء کی تیار کی جائے گی، یقین ہے کہ ذوق سلیم اس میں بھی ایک جگہ ان کے لئے مخصوص رکھے گا‘‘۔(اردو میں نعتیہ شاعری، ص:۶۳۰)، کلام کانمونہ:

رخ مصطفی کاجمال اللہ اللہ

زبان کاوہ حسن مقال اللہ اللہ

نگاہوں پہ جادو، دلوں پرتسلط

جمال اللہ اللہ ، جلال اللہ اللہ 

جہاں کے لئے مژدۂ عید عرفان

عرب کے فلک کا ہلال اللہ اللہ

جہاں ذکراحمدسے لبریز مستی

سرور مئے ، وجد، وحال اللہ اللہ

یہ نورہدایت، یہ تفسیر وحدت

عمل سے بھی افضل خیال اللہ اللہ

اترآئے عرش وکرسی سے جلوے

نبوت کا اوج کمال اللہ اللہ


جگن ناتھ آزادؔ:

۵/دسمبر۱۹۱۸ء کو عیسیٰ خیل، ضلع میانوالی (پاکستان) میں پیداہوئے، ابتدائی تعلیم اپنے ناموروالد پروفیسر تلوک چند محرومؔ کے زیرنگرانی حاصل کی، پنجاب یونیوسٹی لاہور سے فارسی میں ایم اے کیا، اپنے وقت کے ممتاز صاحبان علم مولانا تاجورؔ نجیب آبادی، ڈاکٹرشیخ محمد اقبالؔ، ڈاکٹرسید عبداللہ، پروفیسر علیم الدین سالکؔ، صوفی غلام مصطفی تبسمؔ اور سید عابد علی سے اکتساب فیض کیا، تقسیم ملک کے بعد دہلی میں رہائش اختیار کی اورمختلف سرکاری عہدوں پرمامور رہے، مارچ ۱۹۶۷ء میں پریس انفارمیشن بیورو میں ڈپٹی پرنسپل انفارمیشن آفیسر مقررہوئے، ۱۹۶۸ء میں اسی عہدہ پرخدمت انجام دیتے ہوئے سری نگرآئے، جہاں۱۹۷۷ء میں ڈائریکٹرپبلک ریلیشنز گورنمنٹ آف انڈیا کی حیثیت سے ریٹائرہوئے، ان کا خاص موضوع اقبالیات ہے، جس میں انھوں نے تقریباً دس کتابیں لکھی ہیں، ان کی کتابوں کی تعداد ستر (۷۰) سے بھی زیادہ ہیں (بہرزماں بہرزباں، ص:۱۴۶، ہمارے رسول، ص:۲۵۶)، ان کے بہت سارے نعتیہ کلام ہیں، ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے ان کو فرانسیسی زبان ترجمہ کرکے شائع بھی کیا ہے، سلام کانمونہ:

سلام اس ذات اقدس پر، سلام اس فخردوراں پر

ہزاروں جس کے احسانات ہیں دنیائے امکاں پر

سلام اس پرجوحامی بن کے آیا غم نصیبوں کا

رہا جوبیکس کا آسرا مشفق غریبوں کا

مددگار ومعاون بے بسوں کا، زیردستوں کا

ضعیفوں کا سہار ااورمحسن حق پرستوں کا

سلام اس پر جوآیا رحمۃ للعالمین بن کر

پیام دوست لے کر، صادق الوعد وامیں بن کر


دلورام کوثریؔ:

مشہور نعت گوشاعر دلورام ولد بھورا رام بشنوئی قصبہ نانڈڑی ضلع حصار، ہریانہ میں ۱۸۸۳ء میں پیدا ہوئے، انٹرنس تک تعلیم حاصل کی، ان کاپیشہ زراعت تھا، لاہورکے ایک عالم سے دوبرس تک علم عروض پڑھا، مولاناسید عنایت علی مجتہد العصر سے دس بارہ سال فارسی، علم عروض اورفن شعر کی تعلیم حاصل کی، ۲۹/سال کے عمر میں وطن واپس آئے اور غزلیں کہنا شروع کیں، اسلامی موضوعات اورروایات پرنظمیں لکھیں اورحیدآباد دکن، بھوپال، بہاولپور، رامپور اورپٹیالہ کے درباروں میں کلام پڑھا اورانعامات وخلعت اوراعزازات سے نوازے گئے، پیرجماعت علی شاہ صاحب علی پوری نے انھیں ’’حسان الہند‘‘کاخطاب دیا،کوثریؔ خود کہتے ہیں:

ہے حسانؔ پہلا تومیں دوسرا ہوں

نہیں فرق اول میں ثانی میں رکھا

خدا نے اسے سونپی محفل عرب کی

مجھے بزم ہندوستانی میں رکھا

’’گلبن نعت کوثری‘‘آپ کاایک نعتیہ مجموعہ ہے، جو۱۳۵۸ھ میں مدینہ پریس مدراس سے شائع ہواتھا، ایک دیوان غیرمنقوط ردیف اورآں حضرتﷺ اورآل نبی کی مدح میں لکھا، ان کاانتقال ۲۸/دسمبر۱۹۳۱ء کوسرائے محمد شفیع انار کلی لاہور میں ہوا اورمیانی میں سپرد خاک ہوئے، پروفیسر سید یونس شاہ، پروفیسر ممتاز حسن، پروفیسر خالد بزمی، ظہیرالدین احمد قریشی، ممتاز محقق راجارشید محمود اورڈاکٹرسیدصفدر حسین نے لکھا ہے کہ آخری عمر۱۹۲۹ء میں انھوں نے اسلام قبول کرلیا تھا اوراس کا اعلان بھی سید حبیب مدیرسیاست لاہور کو حیدرآباد دکن سے ایک خط لکھ کرکردیاتھا۔(ہمارے رسول، ص:۵۰۷، بہرزماں بہرزباں، ص:۵۰۵)، نمونۂ کلام:

مدینے میں مجھ کو بلا یا محمد

ذرا اپنا کوچہ دکھا یامحمد

مجھے لوگ کہتے ہیں دیوانہ تیرا

کہوں اورکیا ماجرا یامحمد

نہیں پادشاہوں کی کچھ مجھ کو پروا

ترے در کا ہوں میں گدا یا محمد

تمہاری بدولت خدا مجھ کوبخشے

ہومقبول میری دعا یامحمد

ترا کوثریؔ رہتا ہے ہندوؤں میں

ہے ظلمت میں آب بقا یامحمد

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی