سنتے ہی نام جن کا لرزتے تھے اہلِ زیغ (آہ! مناظراسلام مولاناطاہرحسین گیاویؒ)

سنتے ہی نام جن کا لرزتے تھے اہلِ زیغ (آہ! مناظراسلام مولاناطاہرحسین گیاویؒ)

سنتے ہی نام جن کا لرزتے تھے اہلِ زیغ
(آہ! مناظراسلام مولاناطاہرحسین گیاویؒ)

محمدجمیل اختر جلیلی ندوی

موت وحیات کی کشمکش زندگی کاخلاصہ ہے، انسان جیتا ہے، جب تک اس کی زندگی لکھی ہوئی ہے، پھردبے قدموں موت کا آکٹوپس اس سے چمٹ جاتا ہے اورجان لے کرہی واپس جاتا ہے، ہرانسان روز اس کا مشاہدہ بھی کرتا ہے اوراخبارات و سوشل میڈیا کی برقی دیواروں پراسے پڑھتا بھی اورعنکبوتی وسائل کے ذریعہ اس کوسنتا بھی ہے؛ لیکن اس کے باوجود اس حقیقت سے غافل ہی رہتا ہے:

منہ دیکھ لیا آئینے میں پر داغ نہ دیکھا سینے میں

جی ایسا لگایا جینے میں مرنے کو مسلماں بھول گئے​

موت سے غفلت اوربھولنے کامطلب یہ نہیں کہ موت آئے گی ہی نہیں، یہ تواٹل اورمحکم ہے؛ بل کہ غفلت کامطلب یہ ہے کہ اپنے جینے کے سہاروں پروہ بھروسہ زیادہ کرلیتا ہے اور موت کے بعد کام آنے والے امورسے جی چرانے لگتا ہے، دنیا میں رہتے ہوئے کوئی ایساعمل بھی نہیں کرتا، جسے روزِ قیامت وہ اپنی صفائی کے طورپرپیش کرسکے، اکثرلوگوں کا معاملہ ایسا ہی ہوتا ہے؛ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں، جومرنے کے بعد امرہوجاتے ہیں، وہ کام ہی کچھ ایسا کرجاتے ہیں کہ اُن کی زندگی میں نام نہ سننے والے لوگ بھی اُن کے جانے کے بعد اُن کوجاننے لگتے ہیں؛ بل کہ اپنے کو بدقسمت محسوس کرتے ہیں کہ اُن کی حیات میں ہی ان کو کیوں نہیں جانا؟ ان کے کاموں سے کیوں شناسائی نہیں ہوئی؟ ان کے کارناموں سے واقفیت کیوں حاصل نہیں ہوئی؟

ایسے ہی لوگوں میں ہمارے مولانا طاہرحسین گیاوی صاحب تھے، انھوں نے اپنے لئے جس میدان کو منتخب کیا، وہ بڑے جگرے والے ہی کرتے ہیں، جن کے اندرجرأت وبے باکی کوٹ کوٹ کربھری ہو، جوکسی ملامت گرکی ملامت کا اندیشہ نہیں کرتے، اس راستے میں طوفان توبہت اٹھتے ہیں؛ لیکن اس راستہ کا انتخاب وہی کرتے ہیں، جن کواندیشۂ طوفاں نہیں ہوتا، مولانا طاہرحسین گیاوی محض نام نہیں؛ بل کہ برانڈ تھے رد بدعت کے لئے، برانڈ تھے غیرمقلدیت کے لئے،اگردیکھاجائے تو اپنی زندگی میں انھوں نے پنگا ہی پنگا لیا، جس کی ابتداطالب علمی کے زمانہ سے ہی ہوگئی تھی، جس کے نتیجہ میں دارالعلوم دیوبند سے تعلیمی سلسلہ بھی منقطع کرناپڑاتھا، بعد کے ادوار میں خصوصیت کے ساتھ خوش عقیدہ لوگوں سے خوب خوب پنگے لئے اور اس چکر میں انھیں بہت کچھ سہنا بھی پڑا۔

میری ملاقات مولاناؒ سے دوتین بارہوئی، نام توبہت پہلے سے سن رکھا تھا، چرچے بھی توان کے بہت تھے، پہلی ملاقات اس وقت ہوئی، جب میں ابتدائی درجات کاطالب علم تھا اور جامعہ سید احمد شہید کٹولی ملیح آباد میں زیرتعلیم، مولانا اپنے دوصاحب زادوں عبدالناصر اورعبدالغافرکے داخلہ کے لئے تشریف لائے تھے، پہلی ملاقات یہیں پرہوئی؛ لیکن ظاہرہے کہ یہ صرف یک طرفہ عقیدت کی وجہ سے ملاقات تھی، جس کی یاد میرے ذہن میں آج تک محفوظ ہے، مولاناؒ بہت شفقت اور محبت کے ساتھ ملے اورخیرخیریت بھی پوچھی، دونوں بچوں کے داخلہ کے بعد مولاناواپس آگئے اوراس طرح مولاناکے صاحب زاد ے ہمارے ساتھی بن گئے؛ لیکن یہ سلسلہ زیادہ دنوں تک نہیں چلا؛ کیوں کہ جامعہ سید احمدشہید کے طلبہ پہلے سے ہی یہ خواب اپنی آنکھوں میں سجاکرآئے تھے کہ یہاں سے دارالعلوم ندوۃ العلماء چلے جائیں گےکہ یہ جامعہ اس وقت ندوہ کی شاخوں میں نمایاں حیثیت رکھتا تھا؛ لیکن بھلاہو جامعہ کے ناظم جناب مولانا سید سلمان حسینی ندوی صاحب کا، کہ انھوں نے اصول وفروع کارشتہ ختم کردیا اوریہ اعلان ہوگیا کہ اب جامعہ شاخ نہیں؛ بل کہ یہ خود ایک تناوردرخت بن چکا ہے، لہٰذا طلبہ اب یہیں سے سندفراغت حاصل کریں گے۔

اس اعلان کے سنتے ہی تمام طلبہ کے سجے سجائے خواب چکناچور ہوگئے، کچھ طلبہ باہمت نکلے اورانھوں نے وہیں تعلیم مکمل کرنے کاعزم مصمم کرلیا؛ لیکن ایک بڑی تعداد نے وہاں سے کوچ کرکے ندوہ کی دوسری شاخوں میں داخلہ کروالیااوراس طرح سوکھے پتوں کے بکھرنے کی طرح طلبہ بکھر گئے، بکھرنے والوں میں خود میں بھی تھا اورااسی جلومیں عبدالغافربھی تھے، پھراس کے بعد ندوہ ہی میں اس وقت ملاقات ہوئی، جب ہم دونوں منتہی درجات  میں زیرتعلیم تھے اور جہاں سے ہم دونوں نے عالمیت کی تکمیل کی۔

مولاناؒ سے دوسری ملاقات اس وقت ہوئی، جب خود میرے گاؤں میں ایک جلسہ منعقد ہوا، مولاناکے نام سے اچھی خاصی بھیڑجمع ہوئی تھی، تقریر بھی جم کرہوئی؛ لیکن چوں کہ مولانا کے خمیرمیں ردبدعت؛ بل کہ رد بریلویت کوٹ کوٹ بھراتھا؛ اس لئے سیرت کے جلسہ میں بھی کہیں نہ کہیں اس کی مثالیں آہی جاتی تھیں، اس جلسہ میں بھی بعض مثالیں آگئیں؛ بل کہ یہ مثالیں کچھ بھونڈی قسم کی ہوگئیں، جس کی وجہ سے کچھ لوگ بدمزہ بھی ہوئے؛ لیکن بنیادی طور پرجلسہ کامیاب رہا، اس موقع پر مولاناسےاچھی ملاقات رہی؛ بل کہ ان کی خدمت پربندہ ہی ماموررہا، پھرجب انھیں معلوم ہوا کہ میں ان کے لڑکے کاساتھی ہوں تومزید خوشی کا انھوں نے اظہارکیا، اس موقع پر مولانا کوخراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ایک نظم بھی ناچیز کے قلم سے نکلی تھی، جس کوسن کرمولانا خوش بھی ہوئے تھے اورحوصلہ افزائی بھی کی تھی، طالب علمی کے زمانے کی وہ نظم اس طرح تھی:

چم چم چمک رہی ہے، یہ سرزمینِ علی پور

دم دم دمک رہی ہے، یہ مثلِ کوہِ نور

مدت کی آرزو تھی، امید کی کرن تھی

چل ہی رہے ہیں جھونکے، پرکیف و پرسرور

برسوں سے جام ناصح، آیا نہیں تھا کف میں

پیتے ہی جا رہے ہیں، یہ شیخِ ناصبور

سنتے ہی نام جس کا، لرزتے ہیں بدعتی

منجدھار پر ہیں  بیٹھے، وہ آپ کے حضور

برسوں سے اس زمیں کی، باقی تھی تشنگی بھی

آیا ہے لے کے ساقی! اب جام اور خمور

سینچا ہے جس نے خون سے ، بمبیٔ کی سرزمیں

سنناہے آج ان سے، کچھ نغمۂ سرور

اخترؔ کی ہے دعا یہ، تادیر ہو فیض ان کا

یارب! انھیں سدا رکھ، پرکیف و پرسرور

مولاناؒ ایک ذہین ، فطین، زیرک،ذی استعداد، قوی الحافظہ، طلیق اللسان اوربلیغ البیان شخص تھے، ذہن اخاذ تھا، بات سے بات نکالنے اورفریق مخالف کوپھنسا کر زمیں بوس کرنے کا خوب ملکہ حاصل تھا، جوبھی بات کہتے، دلائل وبرائین سے اسے لیس کرتے اورڈنکے کی چوٹ پرکہتے تھے، پوری زندگی بدعات وخرافات کی تردید میں صرف کردی؛ لیکن اس کے لئے جس راستہ کاانتخاب کیا، وہ جدال ومناظرہ کاتھا، جس کی وجہ سے جہاں ایک طرف فریق مخالف میدان چھوڑ کربھاگ کھڑا ہوتا ہے، وہیں دوسری طرف وہ اپنے باطل عقیدہ میں اورزیادہ شدت بھی برتنے لگتا ہے(الاماشاء اللہ)، یہی وجہ ہے کہ اکثراہل علم نے نہ تواس راستے کومنتخب کیا اورنہ ہی اسے پسند کیا۔

لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ یہ راستہ بالکلیہ غلط ہے؛ بل کہ بسااوقات اس کی اشد ضرورت رہتی ہے ؛ کیوں کہ بقول فضل الرحمان ناصر:’’حقائق کی وضاحت اور واقعیت کی پہچان کے لئے مناظرہ اور آمنے سامنے بحث و گفتگو کرنا خصوصاً اس زمانہ میں جبکہ فکری اور علمی ترقی اپنے عروج پر ہے ثقافتی اغراض و مقاصد تک پہنچنے کے لئے بہترین اور مستحکم ترین راستہ ہے اور اگر فرض کریں کہ تعصب، ہٹ دھرمی اور سرکشی کی بنا پر مناظرہ کسی نتیجہ پر نہ پہنچے تو کم سے کم اتمام حجت تو ہوہی جاتی ہے؛کیوں کہ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ طاقت کے بل بوتے پر اپنے عقیدہ اور آئیڈیل کو کسی پر نہیں تھوپاجاسکتااور اگر بالفرض کوئی زبردستی قبول بھی کرلے تو چوں کہ بے بنیاد ہے جلد ہی ختم ہوجائے گا، اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس موضوع کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے، اور اس کو ایک ”عام قانون“ کے طور پر بیان کیا ہے؛چنانچہ خداوندعالم نے چار مقامات پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس طرح فرمایا ہے: ” قُلْ ہَاتُوا بُرْہَانَکُمْ إِنْ کُنتُمْ صَادِقِینَ “”ان سے کہہ دیجئے کہ اگر تم سچے ہو تو کوئی دلیل لے آوٴ“،جس وقت اسلام دوسروں کو دلیل ، برہان اور منطق کی دعوت دیتا ہے تو خود بھی اس کے لئے دلیل اور برہان ہونا چاہئے؛چنانچہ رب العالمین نے قرآن مجید میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:”اُدْعُ إِلَی سَبِیلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِی ہِیَ اٴَحْسَنُ۔۔۔“”آپ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ دعوت دیں اور ان سے اس طریقہ سے بحث کریں جو بہترین طریقہ ہے“،”حکمت“ سے مراد وہ مستحکم طریقے ہیں ، جو عقل وعلم کی بنیاد پر استوار ہوں، اور ”موعظہ حسنہ“ سے مراد معنوی و روحانی نصیحتیں ہیں، جن میں عطوفت اور محبت کا پہلو پایا جاتا ہو، اور سننے والے کے پاک احساسات کو حق و حقیقت کی طرف اُبھارے، نیز ”مجادلہ“ سے مراد ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ کر بحث میں تنقیدی گفتگو کرنا، اور یہ طریقہ کار اگر انصاف اور حق کی رعایت کرتے ہوئے ہو تو ہٹ دھرم مخالف کو خاموش کرنے کے لئے لازم اور ضروری ہے‘‘۔

بہرحال! مولاناؒنے ضرورت سمجھتے ہوئےمناظرہ کے راستہ کواختیارکیااورحق یہ ہے کہ مولانامنظورنعمانیؒ کے بعد وہ اس میدان کے مردآہن رہے، ان کے جانے سے یہ میدان بالکل خالی نظرآرہا ہے، جس کی بھرپائی شایدہی ہو، مناظرہ کے ساتھ مولاناؒ تصنیف وتالیف سے بھی شغل رکھتے تھے؛ چنانچہ ان کے قلم سے متعدد کتابیں منصۂ وجود میں آئیں، جن میں’’عصمت انبیاء اور مولانا مودودی،اعجاز قرآنی،رضاخانیت کے علامتی مسائل،احسن التنقیح لرکعات التراویح،العدد الصحیح فی رکعات التراویح،شہید کربلا اور کردار یزید، انگشت بوسی سے بائبل بوسی تک، بریلویت کا شیش محل اورحدیثِ ثقلین‘‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں، ’’شہید کربلا اور کردار یزید‘‘ ، جس کا پورا نام ’’شہید کربلا اور کردار یزید، محدث اعظمیؒ کی کتاب ’’تبصرہ برشہید کربلا اوریزید کاعلمی محاسبہ‘‘ ہے، یعنی یہ وہ کتاب ہے، جو محدث جلیل مولاناحبیب الرحمن اعظمیؒ کی کتاب ’’تبصرہ برشہید کربلا اوریزید‘‘کاناقدانہ جائزہ ہے، محدث اعظمیؒ نے یہ دراصل حضرت مولانا قاری طیب صاحب ؒ کی کتاب’’شہیدکربلا اوریزید‘‘ پرتبصرہ اورنقد کیا تھااوراس کتاب کی فروگزاشتوں کوواضح کیا تھا، حضری قاری طیب صاحبؒ کی یہ کتاب علامہ محمود احمد عباسی کی کتاب’’خلافت معاویہؓ اوریزیدؒ‘‘ کے جواب میں تحریرکی گئی تھی، گویا مولاناطاہر صاحب نے یہاں بھی پنگا لیااوروہ بھی محدث اعظمیؒ کے ساتھ، علمی محاسبہ میں وہ کہاں تک کامیاب رہے، یہ تودونوں؛ بل کہ تینوں چاروں کتابوں کے مطالعہ کے بعد ہی معلوم ہوسکتا ہے؛ البتہ مولاناؒ کے اس کتاب کابھی جواب دیاگیا، جوپاکستان کے ایک فاضل حافظ عبیداللہ نے ’’مولاناسیدطاہرحسین گیاوی(انڈیا) کی کتاب شہید کربلا اورکرداریزید کاعلمی وتحقیقی جائزہ‘‘ کے نام سے تحریرکیاہے، اس سے اتنی بات توضرورثابت ہوجاتی ہے کہ مولاناؒ کی کتابیں اوساط علمیہ میں بھی قابل اعتنا ہیں، مولاناؒ کی تقاریرکامجموعہ بھی’’خطبات مناظر اسلام‘‘ کے نام سے دوجلدوں میں مطبوع ہے۔

مولاناؒکی پیدائش بھارت کی آزادی کے سال یعنی 20 /جمادی الاولی 1366ھ مطابق 12/اپریل 1947ء کو بہ روز شنبہ موضع کابَر، کوچ، ضلع گیا، صوبہ بہار، برطانوی ہند میں ہوئی، ابتدائی تعلیم مدرسہ انوار العلوم گیا میں ہوئی، متوسطات کی تعلیم مدرسہ مظہر العلوم بنارس میں حاصل کی، جہاں پر رہتے ہوئے انھوں نے الٰہ آباد بورڈ سے فرسٹ ڈویژن کے ساتھ مولوی کا امتحان بھی پاس کیا، پھر ایک سال مظاہر علوم سہارنپور میں زیرتعلیم رہے، پھر 1386ھ مطابق 1967ء کو دار العلوم دیوبند میں داخلہ ہوا اور تقریباً ڈھائی سال تک عربی ہفتم تک پہنچ کر 1969ء کی دار العلوم دیوبند کی اسٹرائک میں پیش قدمی کی وجہ سے دار العلوم کے تعلیمی سلسلہ کومنقطع کرناپڑا، کچھ دن مدرسۃ الاصلاح سرائے میرمیں بھی رہے،بالآخر جامعہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ میں داخلہ لیا اور شعبان 1399ھ مطابق 1970ء میں وہیں سے دورۂ حدیث کی تکمیل کی، اسی درمیان میں الٰہ آباد بورڈ سے عالم و فاضل کا امتحان بھی پاس کیا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فرسٹ ڈویژن کے ساتھ ادیبِ کامل کا امتحان پاس کیا۔

تعلیم سے فراغت کے بعدتدریسی زندگی کاآغاز کیااوراس کے لئے جامعہ اسلامیہ ریوڑی تالاب کے نام قرعۂ فال نکلا، جامعہ اسلامیہ کے علاوہ بنارس کے اوربھی اداروں میں تدریس سے وابستہ رہے، پھر۱۹۸۴ء میں جھارکھنڈ کے ضلع پلاموں میں ایک ادارہ کی بنیاد رکھی، جس کانام’’دارالعلوم حسینیہ‘‘ رکھا، یہ ادارہ آج بھی اپنی جگہ پرقائم ہے اورمختلف میدانوں میں خدمت دین کافریضہ انجام دے رہا ہے( دیکھئے: شہیدکربلا اور کردار یزید، از: مؤلف، حکایات ہستی، از: مولانااعجاز احمداعظمی)۔

مولاناؒ کئی سالوں سے بیمارتھے، بعض دفعہ بیماری میں اتنی شدت آئی کہ وفات تک کی خبرگردش میں آگئی، بالآخرجس بات کادغدغہ تھا، ہوکررہا اور 10/جولائی 2023ء مطابق 21/ذی الحجہ 1444ھ بہ روز پيرکوہزاروں سوگواروں کواپنے پیچھے حز ن وملال میں چھوڑ کرداربقاء کی طرف انھوں نے کوچ کیا، نماز جنازہ اگلے دن 11/جولائی 2023ء مطابق 22/ذی الحجہ 1444ھ بہ روز منگل، بعد نماز مغرب، ولی گنج حویلی مسجد، آرہ میں ادا کی گئی اور روضہ گنج، آرہ کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا، اناللہ واناالیہ راجعون۔

اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ ان حسنات کوقبول فرمااورراہ حق میں آئے ہوئے زخموں کے بدلہ انھیں جنت الفردوس میں جگہ عطافرما اور بحیثیت انسان جوبھی خطائیں سرزد ہوئی ہیں، انھیں معاف فرمااور امت کوان کانعم البدل عطافرما ، ان کے پسماندگان کوصبرجمیل کی توفیق دے، آمین یارب العالمین!

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی