موت سے کس کورستگاری ہے؟ (آہ! مولانااسلام قاسمی صاحبؒ)

موت سے کس کورستگاری ہے؟ (آہ! مولانااسلام قاسمی صاحبؒ)

موت سے کس کورستگاری ہے؟

(آہ! مولانااسلام قاسمی صاحبؒ)

محمد جمیل اخترجلیلی ندوی


موت وحیات اس دنیا کا لازمہ ہے، روزاس دنیا میں ہزاروں لوگ آتے ہیں اورجتنے آتے ہیں، کم وبیش اسی قدر جاتے بھی ہیں، آنے سے گھرگھرانہ میں خوشیوں کی پھوار پڑنے لگتی ہے، چہرے دمکنے لگتے ہیں؛ لیکن جانے سے چہرے اداس ہوجاتے ہیں، گھرکی رونق ماند پڑجاتی ہے، یہی سلسلہ ہے روزوشب ، کئی چہروں پرمسکراہٹیں، توکئی چہرے جاں بلب،کہیں خوشی توکہیں غم؛ لیکن ہے ہرگھرکی یہ ریت، جہاں ہوتے ہیں غم، وہاں ہوتے ہیں گیت، کوئی گھرایسانہیں، جہاں خوشی ہی خوشی ہو اورکوئی درایسانہیں، جہاں غم ہی غم ہو:

وہ کون ہے دنیا میں جسے غم نہیں ہوتا

کس گھر میں خوشی ہوتی ہے ماتم نہیں ہوتا

جمعہ کامبارک دن، صبح کی اولین ساعتیں، یہ خبرصاعقہ اثرشمع خراشی کرتے ہوئے آئی کہ جناب مولانا محمد اسلام صاحب قاسمی اب رحمۃ اللہ علیہ ہوچکے ہیں، زبان سے بے ساختہ کلماتِ ترجیع نکلے،دل غم گین ہوگیا، قدم بوجھل ہوگئے، إنا للہ وإناإلیہ راجعون، إن للہ ماأخذ ولہ ماأعطیٰ ، وکل شیٔ عندہ بأجل مسمی، اللہم اغفرلہ، وارحمہ، وأدخلہ فی فسیح جناتہ، اللہم أنزل علیہ شآبیب رحمتک، وعزائم مغفرتک، والغنیمۃ من کل بر، والسلامۃ من کل إثم، لاتدع لہ ذنباً إلاغفرتہ، و نقِّہ کماینق الثوب الأبیض من الدنس، اللہم آنس وحشتہ، ووسع قبرہ، واجعلہ روضۃ من ریاض الجنۃ، آمین یارب العالمین!

مولانامرحوم کی ذات جھارکھنڈ کی ان قابل فخرہستیوں میں ایک تھی، جن کا نام بڑے ہی ادب واحترام کے ساتھ لیاجاتا تھا، جن کی ملاقات کو سعادت سمجھا جاتاتھا، آپ کی پیدائش جامتاڑا کے ایک گاؤں’’راجہ بھیٹا‘‘میں ۱۶/فروری ۱۹۵۴ء کو ہوئی، یہ ایک گاؤں ہے، جوشہرکی چلت پھرت سے آج بھی بہت دورہے، یہ بھی نہیں کہاجاسکتا کہ یہاں علم کاغلغلہ تھا، نہ یہ کہاجاسکتا ہے کہ یہ ولیوں کی بستی ہے، بس ایک گاؤں ہے؛ لیکن اللہ نے اسی گاؤں کے ایک بندہ کودارالعلوم جیسے مرکزی ادارہ میں نہ صرف تعلیم کی سعادت بخشی؛ بل کہ وہاں کی خدمت کے لئے بھی چنا اورخدمت بھی کونسی؟ جسے دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھاجاتاہے، اسے بس اللہ کافضل اوراس کا اکرام ہی کہاجاسکتاہے۔

مولانامرحوم سے پہلی باراس وقت شناسائی ہوئی، جب میں دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤمیں زیرتعلیم تھا، مولاناکسی کام سے لکھنؤ تشریف لائے تھے اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کے مہمان خانہ میں فروکش، عم محترم جناب مولاناآفتاب عالم ندوی صاحب سے ان کی اچھی ملاقات تھی، عم محترم اس وقت ندوہ میں ہی تھے؛ لیکن عازم سفرہونے کی وجہ سے مجھے اور برادراکبرجناب مولاناشکیل اخترندوی صاحب کومولاناکی خاطرداری کاحکم فرمایا، ہم لوگوں نے طالب علمانہ کھانا تیار کیا اورمولاناکوکمرے لے کرآئے، مولاناآئے، کھائے، گفت و شنید کی؛ لیکن کہیں سے محسوس نہیں ہوا کہ مولاناصرف مولانا نہیں، بڑے مولانا ہیں؛ بل کہ’’دارالعلوم (وقف)دیوبندکے اولین معماروں میں ہیں‘‘، اس سے مولاناکی سادگی وپرکاری کااندازہ لگایاجاسکتا ہے، یہ مولانامرحوم سے پہلی شناسائی تھی، پھراس کے بعدایک زمانہ تک نہ ان سے رابطہ رہا اورنہ شرف ملاقات ، جسے میں اپنے لئے محرومی ہی کہہ سکتا ہوں؛ البتہ فیس بک پرپھرمولاناسے ملاقات ہوئی ، بارہابندہ کے مضامین پرحوصلہ افزاکلمات بھی فیس بک کی برقی دیوار انھوں نے لکھے، بعدہ مولانا کا واٹس ایپ نمبر ملااوراس پر رابطہ ہوا، میں اپنے مضامین بھیج دیا کرتاتھا، مولانااپنی مشغولیات کے باوجود پڑھتے اورکمنٹ بھی کرتے تھے۔

گزشتہ سال بقرعیدکے موقع پرجب مولاناکی تشریف آوری جامعہ ام سلمہ دھنبادہوئی تووہاں ملاقات کاشرف حاصل ہوا، بہت ہی اپنائیت کے ساتھ ملے ، میںنے اپنی کچھ کتابیں انھیں پیش کیں توانھوں نے مزیدکام کے تعلق سے دریافت کیا، بتانے پر بہت خوش ہوئے اوربتایا کہ میری دوکتابیں: درخشاں ستارے اور حکیم الاسلام قاری طیب جلدی ہی آرہی ہیں، تمہارے لئے بھی بھیجوں گا، تم جامعہ ام سلمہ سے لے لینا، اس سے مولانا کی خودرنوازی کااندازہ کیجئے، اس موقع سے جامعہ ام سلمہ میں مولانا کا قیام کئی گھنٹے رہا، علاقہ کے معروف اہل علم بھی جمع تھے، کئی امورپرتبادلۂ خیال بھی ہوا؛ لیکن واللہ انھوں نے یہ احساس نہیں ہونے دیاکہ وہ بھارت کے ایک بہت بڑے ادارہ کے استاذ ،حدیث وفقہ پردسترس رکھنے والے، زبان وادب کے پیکر، تاریخ اورخصوصیت کے ساتھ دارالعلوم کی تاریخ کے حافظ، الداعی جیسے مجلہ کے سابق معاون مدیر وغیرہ ہیں، بس گفتگوکا اندازایسا، جیسے ہم لوگ اپنے گھر میں، اپنے بڑے بزرگوں کے ساتھ بیٹھ کرکررہے ہوں، واقعی وہ ہمارے اپنے بزرگ تھے؛ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمیں اپنے بڑوں اوربزرگوں کی قدر ان کے جانے بعد ہی ہوتی ہے، اس صفت کے حامل ہم ہی اکیلے نہیں؛ بل کہ برصغیرکی فطرت میں یہی رچی بسی ہے، زندگی میں اس وقت قدرنہیں کی جاتی، جب حقیقی قدر دانی کے وہ مستحق ہوتے ہیں؛ بل کہ اگربھولے بسرے کوئی اپنے بڑے کی قدردانی کرلے توچہ می گوئیاں شروع ہوجاتی ہیں، الزام تراشیوں سے آگے بڑھ کردشنام طرازیوں تک لوگ پہنچنے سے نہیں چوکتےاورجانے کے بعد مضامین ومقالات، تعازی وپیغامات اوراعترافات واحسانات کا ہمالیائی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، کاش! یہ سب ان کی زندگی میں ہوتا؛ تاکہ انھیں بھی خوشی ہوتی اپنی قدردانی پر!

مولانامرحوم کی سادگی، ملنساری، مجلس نوازی، بے لوثی، خوردنوازی، اپنے آپ کوبڑا بناکرپیش نہ کرنے کی فطرت، اسٹیج سے دوررہنے کی عادت، بڑے ہوکرچھوٹے بنے رہنے کی صفت اوران جیسی دسیوں اوصاف نے آج مولانا کو اتنے اونچے مقام پرپہنچادیاکہ لو گ فخرسمجھ کر ان کی طرف اپنی نسبت اور تعلق کا اظہارکرکےکچھ نہ کچھ اظہارغم کررہے ہیں، دل کے پھپھولے پھوڑرہے ہیں، ان کے رہن سہن سے لےکر، تدریس، تصنیف، مقالہ نگاری، مضمون نویسی، زبان وبیان، خوش مزاجی وخوش مذاقی، نفاست پسندی، غرض ہر ہر ادا اورہرہرطرز پر بول رہے ہیں، لکھ رہے ہیں، دوسرے کو بتارہے ہیں، تیسرے کوسنارہے ہیں، ان میں بڑے بڑے بھی ہیں اور چھوٹے ؛ بل کہ بہت چھوٹے بھی، وذلک فضل اللہ یؤتی من یشاء:

یہ رتبۂ بلندملا، جس کومل گیا

مولانامرحوم پرکئی مرتبہ فالج کاحملہ ہوا؛ لیکن جسے اللہ رکھے، اسے کون چکھے، ہربارمولاناپہلے سے زیادہ توانا ہو کر اپنے وظائف میں مشغول ہوئے، بالآخر۱۶/جون۲۰۲۳ء، بروز جمعہ ، صبح کی اولین ساعتوں میں ہزاروں شاگردوں، احباب ورشتہ داروں اوراہل تعلق کوسوگوارچھوڑکراس جہاں کے لئےرخت سفر باندھ لیا، جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، ان کے حسنات کوقبول فرمائے، ان کی اچھی عادتوں پرہمیں بھی عامل بنائے اورتمام سوگواران کوجمع خاطراورسکون قلب عطافرمائے، آمین!


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی