مصارف زکوٰۃ (۲)

مصارف زکوٰۃ (۲)

مصارف زکوٰۃ (۲)

4-مؤلفۃ القلوب

اس سے مرادوہ افرادہیں، جن کواسلام کی طرف راغب کرنے یااس پرثابت قدم رکھنے، یامسلمانوں کوان کے شرسے بچانےیاان سے دشمنوں کے خلاف مسلمانوں کی مدد اوران کا دفاع کرنے کی امید ہونے کی وجہ سے زکات کامال دیاجاتاہے، اس میں دوقسم کے افراد شامل ہوتے ہیں:

۱)کفار:اس تحت دوقسم کے لوگ آتے ہیں:

(الف) وہ کافرجس کے اسلام قبول کرنے کی امیدہو، لہٰذا اسلام کی ترغیب کے لئے اسے دیاجائے۔

(ب) وہ کافر، جس کے شرکااندیشہ ہواوراس سے بچنے کے لئے اس کودیاجائے۔

آپ ﷺ سے یہ ثابت ہے کہ آپﷺ تالیف قلب کے غیرمسلموں کومال دیا ہے؛ چنانچہ صحیح مسلم میں کئی لوگوں کے نام ہیں، جن کوعلامہ شوکانی نے نقل کیاہے:

 أنه صلّى الله عليه وسلم أعطى أبا سفيان بن حرب، وصفوان بن أمية، وعيينة بن حصن، والأقرع بن حابس، وعباس بن مرداس، كل إنسان منهم مئة من الإبل. وأعطى أيضاً علقمة ابن علاثة من غنائم حنين (نيل الأوطار:166/ 4).

اب اس کی وجہ سے فقہاء کے مابین اختلاف ہوا کہ ان غیرمسلموں کومؤلفۃ القلوب میں شامل کرکے زکات واجبہ سے دے سکتے ہیں یانہیں؟ اس سلسلہ میں فقہاء کے دورجحانات ہیں:

(الف)ترغیب اسلام کے لئے انھیں زکات دے سکتے ہیں؛ کیوں کہ آپ ﷺ نے انھیں مال دیا ہے، اس کے قائلین میں مالکیہ اورحنابلہ ہیں۔

(ب)غیرمسلموں کوزکات واجبہ سرے سے دے ہی نہیں سکتے؛ کیوں کہ اب تالیف قلب کی ضرورت نہیں، اس کے قائلین میں احناف وشوافع ہیں۔

۲)مسلمان:اس میں چارطرح کے افرادشامل ہیں:

(الف) کمزورایمان والے، ان کواس لئے دیا جائے؛ تاکہ وہ ایمان پرمضبوط ہوجائیں۔

(ب)ایسے مسلم کو، جن کودیکھ کراس کے غیرمسلم دوستوں کےاسلام لانے کی توقع ہو۔

(ج)سرحدوں میں مقیم مسلمانوں کو، جو سرحد پارکے کافروں سے ہماری حفاظت کرتے ہیں۔

(د)سرکش لوگوں سے زکات وصولی کرنے والے مسلمانوں کو، جن کی سرکشی کی وجہ سے عاملین کوان کے پاس بھیجا نہیں جاسکتا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا ان کومؤلفۃ القلوب کی مدسے زکات دی جاسکتی ہے؟ اس سلسلہ میں بھی فقہاء کی دورائیں ہیں:

(الف)نہیں دی جاسکتی؛ کیوںکہ یہ مد اب باقی نہیں رہا، حضرت عمرؓ نے اپنے زمانہ میں اسے کالعدم قراردیتے ہوئے فرمایا:إنا لا نعطي على الإسلام شيئاً، فمن شاء فليؤمن، ومن شاء فليكفر۔ اس کے قائلین میں احناف ومالکیہ ہیں۔

(ب)دی جاسکتی ہے؛ کیوں کہ یہ حکم اب بھی باقی ہے، منسوخ نہیں ہواہے، لہٰذا وقتِ ضرورت دینے کی گنجائش ہے، اس کے قائلین میں جمہور ہیں۔(تفصیل کے لئے دیکھئے: الفقہ الاسلامی وأدلتہ:۲/۸۷۱)

قول راجح

راقم حروف کے نزدیک مؤلفۃ القلوب کے مصرف کومنسوخ ماننے کی بجائے باقی رکھنا چاہئے:

ایک تواس لئے کہ آج کے حالات حضرت عمرؓ کے دورکے حالات سے بالکل مختلف ہیں، جس بات کی وجہ سے انھوں نے منع فرمایاتھا، آج وہ بات نہیں رہی؛ بل کہ اس کے برعکس ہے۔

دوسرے اس لئے کہ نسخ کادعوی محل نظرہے؛ کیوں کہ نسخ کی جودوقسمیں(نسخ منصوص اورنسخ اجتہادی) ہیں، ان میں سےیہ کسی کے دائرہ میں یہ نہیں آتا۔

لہٰذا ’’مؤلفۃ القلوب‘‘ کے مد کو برقرار رکھتے ہوئے غیرمسلمین کوزکات واجبہ سے مال دیاجاسکتاہے؛ البتہ ترجیح ان لوگوں کوہونی چاہئے، جن سے فتنہ کا اندیشہ ہو یا پھر اسلام کے تئیں ہمدردی پیداہوجائے، ہذاماعندی، واللہ اعلم بالصواب!

5-الرقاب

رقاب کے معنی گردن کے آتے ہیں، قرآن وحدیث میں غلام یا باندی کی گردن آزادکرنامرادہے، اس میں تین قسم کے لوگ داخل ہیں:

۱) مکاتب:یعنی وہ مسلم غلام یاباندی، جس نے اپنے آقا سے یہ معاہدہ کرلیا ہو کہ اتنی قیمت دینے کے بعد وہ آزادہوگا توزکات کی مدسے اس کوآزادکرنے میں تعاون کیاجائے گا۔

۲)مسلم غلام یاباندی:جومکمل طورپرابھی غلام ہی ہو، اس کو آزادکرنے کے لئے زکات کی مدسے اسے خرید کر آزاد کیا جاسکتا ہے۔

۳) مسلم قیدی:جومسلم قیدی کفارکے قبضہ میں ہو، اسے بھی زکات کی مدسے چھڑایاجاسکتاہے؛ چنانچہ الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے: أن يفتدي بالزكاة أسيراً مسلماً من أيدي المشركين , وقد صرح الحنابلة وابن حبيب وابن عبد الحكم من المالكية بجواز هذا النوع ; لأنه فك رقبة من الأسر , فيدخل في الآية ، بل هو أولى من فك رقبة مَنْ بأيدينا(الموسوعة الفقهية: ۲۳/۳۲۱)’’مشرکین کے ہاتھوں سے زکات کے ذریعہ مسلم قیدیوں کا فدیہ دیاجاسکتاہے، حنابلہ اورمالکیہ سے ابن حبیب وابن الحکم نے اس قسم کے جوام کی صراحت کی ہے, کیوں کہ یہ قیدسے گردن کوآزادکراناہے، لہٰذا آیت میں یہ بھی داخل ہے؛ بل کہ ہمارے پاس کے قیدیوں کے چھڑانے سے اولیٰ ہے‘‘۔یہی رائے ڈاکٹریوسف القرضاوی کی بھی ہے، وہ لکھتے ہیں:فإذا کان الرق قدالغی، فإن الحروب لازالت قائمۃ، والصراع بین الحق والباطل لم یزل مستمراً، وبذلک یظل فی السہم متسع لفداء الأساری من المسلمین(فقہ الزکاۃ، ص:۶۲۰)’’غلامی کادورختم ہوگیاہے؛ لیکن جنگیں ہورہی ہیں اور حق وباطل کے مابین تنازع تسلسل کے ساتھ جاری ہیں، لہٰذا مسلمان قیدیوں کوچھڑانے میں اس مصرف کے اندرگنجائش ہے‘‘۔

ڈاکٹررضی الاسلام ندوی اس سلسلہ میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:’’فقہائے کرام کو اس موضوع پر غور کرنا چاہیے، راقم کی رائے ہے کہ مذکورہ معاملہ زکوٰۃ کا مصرف بن سکتا ہے، قرآن نے ’وَ فِی الرِّقَابِ‘ (گردنیں چھڑانے میں ) کی جامع تعبیر اختیار کی ہے،زمانۂ قدیم میں اس کا انطباق غلاموں پر ہوتا تھا، موجودہ دور میں ہندوستان کے ان اسیران ِ بلا کی حالت ان سے مختلف نہیں ہے‘‘۔ (https://shariahcouncil.net/fatwa)، راقم کی رائے بھی یہی ہے ؛ البتہ اس میں یہ تفصیل کی جاسکتی ہےکہ ’’اگرکسی بے قصورکوجیل میں ڈالاگیاہوتومطلق یہ مصرف ہوناچاہئے؛ لیکن اگراپنے کسی جرم کی پاداش میں جیل میں بندہے تواسی صورت میں اسے زکات کی رقم دی جائے، جب کہ مستحق زکات ہو، ورنہ نہیں؛ تاکہ جرم کااحساس بھی ہواوراسے ترک بھی وہ کردے‘‘، ہذاماعندی واللہ اعلم بالصواب!

6-غارمین

امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک ’غارم‘ سے مراد وہ مقروض شخص ہے، جس کے پاس قرض کوچھوڑ کر اتنامال نہ ہو،جونصاب کوپہنچتا ہو توایسے شخص کی مدد زکات کے مد سے کی جائے گی(البحرالرائق، باب مصرف الزکاۃ، الجوہرۃ النیرۃ، )، جب کہ ائمۂ ثلاثہ کےنزدیک اس کی دوقسمیں ہیں:

(۱)اپنی ذات کے لئے قرض لینے والا، مثلاً: نفقہ، کسوہ، شادی، علاج، تعمیرمکان، گھریلوسامان یابچوں کی شادی کے لئے قرض لے، یا بھوک چوک سے کسی دوسرے کاسامان ضائع کردیاہوتواس کی بھرپائی کی ضرورت ہو، یاآفت سماوی کی وجہ سے نقصان ہواہو، جس کی وجہ سے محتاج یامقروض ہوگیاہوتوایسی صورت میں بقدر ضرورت زکات اسے دی جائے گی۔

(۲)معاشرہ کے لئے قرض لینے والا: جیسے: کسی نے دوگروہوں کے درمیان صلح کے لئے کسی سے قرض لیا، یابذات خود اس نیت سے ان کوکچھ دیا کہ بعد میں زکات سے وصول کرلیں گے، توایسے شخص کوبھی زکات دی جائے گی۔(مصارف الزکاۃ فی الإسلام فی ضوء الکتاب والسنۃ للدکتورسعید بن علی القحطانی، ص:۴۱، المختصر فی أحکام الزکاۃ ومسائلہا المعاصرۃ، ص: ۸۸، فقہ الزکاۃ للقرضاوی، ص:۶۲۲)

7-سبیل الله

اس مصرف سے کیامرادہے؟ اس سلسلہ میں علماء وفقہاء رحمہم اللہ کے پانچ اقوال ہیں:

۱-اس سے مراد’’جہاد‘‘ ہے، اس کے قائلین امام ابویوسف، مالکیہ اورشوافع ہیں اوریہی ایک حنابلہ کی بھی ایک روایت ہے، اسی کوابن قدامہ نے راجح قراردیاہے۔

۲-اس سے مراد’’جہاد‘‘، ’’حج‘‘ اور’’عمرہ‘‘ ہے، اس کے قائل محمدبن الحسن حنفی ہیں اوریہی حنابلہ کامسلک ہے۔

۳-اس سے مرادتمام قربات وطاعات ہیں، یہ بعض فقہاء اوربہت سارے معاصرین کی رائے ہے۔

۴-اس سے مراد’’مصالح عامہ‘‘ ہے، یہ بعض معاصرین (جیسے: شیخ رشید رضا اورشیخ محمودشلتوت وغیرہ) کاقول ہے۔

۵-اس سے جہادکے عمومی معنی مراد ہیں، یعنی جہاد بالید، جہاد بالمال اورجہادباللسان وغیرہ، لہٰذا جنگ وقتال اور دعوت الی اللہ بھی اس میں داخل ہے، مجمع الفقہ الإسلامی کی یہی تجویزہے(نوازل الزکاۃ للدکتور عبداللہ بن منصور الغفیلی، ص:۴۳۸)۔

راقم کے نزدیک پانچواں قول یعنی جہادکے عمومی معنی مراد لینازیادہ مناسب ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ سبیل اللہ کا استعمال جہاد کے علاوہ معنی کے لئے بھی ہواہے؛ چنانچہ انفاق اورہجرت کے لئے بھی استعمال ہواہے، جس سے معلوم ہوا کہ جہادکوصرف اس کے خاص معنی میں ہی استعمال کی بجائے عمومی معنی میں استعمال کیاجائے کہ یہ وقت کی ضرورت بھی ہے، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹریوسف القرضاوی لکھتے ہیں:

فہٰذہ القرائن کلہا کافیۃ فی ترجیح أن المراد من سبیل اللہ فی آیۃ المصارف ہوالجہاد، کماقال الجمہور ۔۔۔۔۔۔ إن الجہادقد یکون بالقلم واللسان، کمایکون بالسیف والسنان، قد یکون الجہاد فکریاً، أو تربویاً، أو اجتماعیاً، أو اقتصادیاً، أو سیاسیاً، کمایکون عسکریاً۔ (فقہ الزکاۃ، ص:۶۵۷)’’(مذکورہ)تمام قرائن اس بات پردلیل ہیں کہ آیت مصارف میں سبیل اللہ سے جہاد کی مراد کوترجیح دی جائے، جیساکہ جمہور کامسلک ہے؛ تاہم جہادسیف وسنان کی طرح قلم ولسان سے بھی ہوتا ہے، اسی طرح یہ عسکری ہونے کے ساتھ ساتھ فکری، تربیتی، معاشرتی، اقتصادی اورسیاسی بھی ہوتا ہے‘‘۔

8-ابن السبیل

اس سے مراد وہ مسافرہے، جس کامال دوران سفرختم ہوجائے اورسفرسے واپسی اس کے لئے دشوار ہوجائے، اگرچہ کے وہ اپنے گھرمیں مالدار ہو، تاہم ابن السبیل کے مفہوم میں درج ذیل لوگوں کوشامل کیاگیاہے:

۱)حجاج ومعتمرین۔

۲)طالب علم۔

۳)مریض ۔

۴)داعی الی اللہ۔

۵)غازی فی سبیل اللہ۔

۶)بے گھر لوگ؛ یہاں تک کہ وہ اپناکوئی مسکن بنالیں۔

۷)تارکین وطن، جب کہ وہ واپس اپنے علاقہ میں آناچاہیں اورپہنچنے کے لئے اخراجات نہ ہوں۔

۸)رہائش گاہوں(وطن اقامت) سے بھگائے ہوئے بے گھر لوگ۔

۹)وہ مہاجرین(جودین کی حفاظت کے لئے گھر چھوڑ کر گئے ہوں)، جن کوگھر یا مال تک پہنچنےسے روک دیاگیاہو۔

۱۰)رپورٹراروصحافی، جومیڈیاکے جائز مفادات کے لئے بھاگ دوڑ کرتے ہیں۔(نواز ال الزکاۃ، ص:۴۵۵۔۴۵۶)


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی