مصارفِ زکوٰۃ(۱)

مصارفِ زکوٰۃ (۱)

مصارفِ زکوٰۃ

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

زکات کے مصارف کوقرآن میں صراحت کے ساتھ بیان کردیا گیا ہے، ارشادباری تعالیٰ ہے:إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ(التوبۃ:۶۰)’’صدقات ( زکوٰۃ) تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے اور [زکوۃ جمع کرنے والے] عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لئے، جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر پر (خرچ کرنے کے لئے ہیں)،یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے‘‘۔

اس آیت سے معلوم ہوا زکات کا مصرف آٹھ ہیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:

۱-فقیر/۲-مسکین

قرآن مجیدنے اولین مصرف کے طورپرفقیراورمسکین کا ذکرکیاہے؛ لیکن ان کی کوئی ٹھوس تعریف نہیں کی ہے، علماء وفقہاء نے جوتعریف کی ہے، اس میں اس بات پرتواتفاق نظرآتا ہے کہ دونوں ضرورت مند ہیں؛ لیکن اس میں اختلاف ہے کہ زیادہ ضرورت مندکون ہے؟بعض نے فقیرکوزیادہ ضرورت مند قراردیاہے، جب کہ بعض نے مسکین کو،ابوہلال عسکری لکھتے ہیں:الفرقُ بين الفقير والمسكين: لا خلافَ في اشتراكهما في وصفٍ عدميٍّ، هو عدمُ وفاءِ الكسبِ بالكُلِّيَّة، والمالِ لمؤنته، ومؤونةِ عِياله. وإنّما الخلافُ في أيِّهما أسوأُ حالاً. ومنشأُ هذا الخِلاف اختلافُ أهلِ اللُّغة في ذلك.(الفروق اللّغوية (1/ 409 رقم 1645 حرف الفاء)، بہرصورت ضرورت مندہونے کے لحاظ سے دونوں’’غنی‘‘(مالدار) کی تعریف سے خارج ہیں اوردونوں مستحق زکات ہیں، اب سوال یہ ہے کہ موجودہ دور میں فقیرومسکین کسے کہاجائے گا؟ اس سلسلہ میں راقم کی رائے جمہورفقہاء کی رائے مطابق ہے کہ:’’جس شخص کے پاس اتنا مال ہو، جواس کےاوراس کے اہل وعیال کے اخراجات کے لئے کافی ہو، خواہ یہ زکات میں سے ہویاغیرزکات میں سے، یااپنی کمائی کا ہویاپھرزمین وغیرہ کے کرایہ کا، تو اس کے لئے زکات لینا درست نہیں ہے، اورجس شخص کے پاس اتنا مال نہ ہو، جو اس کے اور اس کے اہل وعیال کے لئے کافی ہو تووہ زکات کامستحق ہے، خواہ اموال زکات میں سےنصاب یااس سے زیادہ کامالک ہی کیوں نہ ہو؛ کیوں کہ اصل چیز’’کفایت‘‘ ہے، جونہیں پائی جارہی ہے، نیز’’کفایت‘‘ کے سلسلہ میں اعتبارعرف کاہوگا؛ کیوں کہ شریعت نے اس کی کوئی تحدیدنہیں کی ہے۔(تفصیل کے لئے دیکھیں:فقہ الزکاۃ،ص:۵۵۵،نوازل الزکاۃ للدکتورعبداللہ بن منصورالغفیلی، ص:۳۴۶)

۳-عاملین

اس سے مراد وہ زکات وصول کرنے والاہے، جسے حاکم وقت وصولی کے لئے متعین کیاہو، مفسرقرطبی لکھتے ہیں:قوله تعالى:{وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا} يعني السعاة والجباة الذين يبعثهم الإمام لتحصيل الزكاة بالتوكيل على ذلك.(الجامع لأحکام القرآن:8/177)’’اللہ تعالیٰ کے قول سے مراد وہ ’سعاۃ‘ اور’جباۃ‘ ہیں، جن کوامام وکیل بناکرزکات کی وصولی کے لئے بھیجتا ہے‘‘، جمہورامت بھی اسی کے قائل ہیں، ابن بطال رقم طراز ہیں:اتفق العلماء أن العاملين عليها هم السعاة المتولون لقبض الصدقة، واتفقوا أنهم لا يستحقون على قبضها جزءًا منها معلومًا سبعًا أو ثمنًا، وإنما للعامل بقدر عمالته على حسب اجتهاد الإمام(شرح ابن بطال:3/ 557) ’’علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ’عاملین‘ سے مرادوہ سعاۃ ہیں، جوزکات کی وصولی پرمامورہیں، اوراس پربھی اتفاق ہے کہ وہ لوگ زکات کے ساتویں یاآٹھویں حصہ پرقبضہ کے مستحق نہیں ہیں؛ بل کہ ان کوان کے عمالہ کے بقدرحاکم کے حکم کے لحاظ سے ملے گا‘‘، ابن بطال کی اس عبارت سے دوباتیں معلوم ہوئیں:

(۱)عاملین سے مرادزکات کی وصولی پرمامورافرادہیں۔ (۲)زکات کامتعین حصہ لینے کے وہ مستحق نہیں ہوں گے؛ بل کہ حاکم جتنی مقداردیناچاہے، وہ اس کاحق ہے، اس سے ان لوگوں کی تردید ہوجاتی ہے، جوففٹی ففٹی، فورٹی سکسٹی یا تھرٹی سیونٹی پرزکات کی وصولی کرتے ہیں۔

تاہم یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ مسلم ممالک میں تو زکات کی وصولی پرحاکم کی طرف سے تقرری عمل میں آئے گی؛ لیکن جوممالک مسلم نہیں یاجمہوری ہیں، وہاں اس کی صورت کیاہوگی؟ اس تعلق سےکافی جستجوکی گئی؛ لیکن اپنے علماء کی مجھے کوئی تصریح نہیں ملی، ہاں! ’’فتاوی فقیہ ملت‘‘(جوایک بریلوی عالم علامہ مفتی جلال الدین احمدامجدی صاحب کی مرتب کردہ ہے)میں یہ بات نظرآئی کہ’’اگرقاضی شرع انھیں(سفراءمدارس)زکات وغیرہ کی رقم وصول کرنے پرمقرر کرے تووہ وہ عامل قرارپائیں گے اوراگرقاضی شرع نہ ہوتوضلع کاسب سے بڑا سنی صحیح العقیدہ عالم، جس کی طرف مسلمان اپنے دینی معاملات میں رجوع کرتے ہوں، وہ مقررکرے توہوجائیں گے‘‘(فتاوی فقیہ ملت:۱/۲۲۳)۔

راقم کے نزدیک اس مسئلہ میں وہی صورت اختیارکی جائے، جو غیرمسلم ممالک میں قضاء کے تعلق سے کرتے ہیں، فقہاء نے اس بات کی صراحت کی ہےکہ غیرمسلم ممالک میں مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کسی لائق اورقابل آدمی کوقاضی مقررکرلیں اوروہی مسلمانوں کے مسائل کاتصفیہ کرے، علامہ ابن ہمام لکھتے ہیں:إذا لم يكن سلطان ولا من يجوز التقليد منه كما هو في بعض بلاد المسلمين غلب عليهم الكفار في بلاد المغرب كقرطبة الآن وبلنسية وبلاد الحبشة ، وأقروا المسلمين عندهم على مال يؤخذ منهم يجب عليهم أن يتفقوا على واحد منهم يجعلونه واليا فيولى قاضيا ويكون هو الذي يقضي بينهم ، وكذا ينصبون إماما يصلي بهم الجمعة.(فتح القدیر:6/ 365)’’جب (مسلم) بادشاہ نہ ہواورنہ بادشاہ کی طرف مقررایساشخص ہو، جس کی بات مانی جاتی ہو(مثلاً: قاضی)، جیساکہ بعض ان مسلم ممالک میں ہے، جن پرکفارغالب آگئے، مثلاً:بلاد مغرب میں قرطبہ، بلنسیہ اورحبشہ(توایسی حالت میں) مسلمانوں پرواجب ہے کہ وہ اپنے میں سے کسی شخص پراتفاق کرکے اس کووالی بنالیں، جوان کے لئے قاضی متعین کرے یاخود ان کے مابین فیصلہ کرے، اسی طرح ان کوچاہئے جمعہ کی نماز پڑھانے کے لئے کسی امام کومقررکریں‘‘۔

اس سلسلہ میں استاذ گرامی قدر رقم طراز ہیں:اگر کسی علاقہ پرغیرمسلموں کاقبضہ ہوجائے اورزمام اقتدار مسلمانوں کے ہاتھ میں نہ رہے تووہاں نصب قاضی کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں:اول یہ کہ اگرحکومت نے کسی مسلمان کومسلمانوں پرذمہ دار مقررکردیاہوتووہ ذمہ دار قاضیوں کاتقرر کرے، اور اگرحکومت کی طرف سے کسی مسلمان کوبحیثیت ذمہ دار مقررنہ کیاگیا ہوتوپھرمسلمانوں پرشرعی فریضہ ہے کہ وہ خود باہمی اتفاق رائے سے ایک امیرمنتخب کرلیں، اس امیرکی طرف سے قاضی کاتقرر درست ہوگا اوراگر خدانخواستہ مسلمان اپنے اوپر کسی امیرکے انتخاب میں بھی ناکام رہیں توپھرمسلمانوں میں ارباب حل وعقد باہمی اتفاق سے کسی شخص کوقاضی مقررکرلیں؛ چنانچہ ابن فرحون مالکی نے اصحاب رائے کوبھی قاضی مقررکرنے کااہل قراردیاہے۔ (قاموس الفقہ:۴/۵۱۳)

مذکورہ باتوں سے معلوم یہ ہوا کہ اگرکہیں مسلم حاکم نہ ہوتومسلمانوں کی جماعت باہمی اتفاق سے قاضی مقررکرسکتے ہیں، جوان کے مقدمات فیصل کرے گا، اسی طرح حاکم کی غیرموجودگی میں وہ امام جمعہ بھی طے کرسکتے ہیں، قضاء اورامامت جمعہ جس طرح اہم امورمیں سے ہیں، اسی طرح زکات کی وصولی بھی اہم کام ہے، یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ باقاعدہ اس کے لئے افراد مقررفرماتے تھےاوراس کے لئے بشارت بھی دیتے تھے؛ چنانچہ ایک حدیث میں ہے:العامل على الصدقة بالحق كالغازي في سبيل الله حتى يرجع إلى بيته(سنن أبی داود، حدیث نمبر:2936،سنن الترمذي، حدیث نمبر:645)’’حق کے ساتھ زکات وصول کرنےوالاگھرلوٹنے تک غازی فی سبیل اللہ کی طرح ہے‘‘، لہٰذا مسلمانوں کوچاہئے کہ وہ باہمی اتفاق سے یاپھرجس طرح قاضی کی تقرری عمل میں آتی ہے، اسی طریقہ پرعامل بھی مقررکریں، اس کے کئی فائدے ہوسکتے ہیں:

۱)زکات کی وصولی میں گڑبڑی نہیں ہوگی اورآج کل زکات کی وصولی کاجس طرح ماحول بن گیاہے، وہ ختم ہوجائے گا۔

۲)اس کے ضمن میں بیت المال کانظام وجود میں بھی آئے گااورمستحکم بھی ہوگا۔

۳)بیت المال کانظام مستحکم ہونے کی وجہ سے زکات کی رقم حقیقی مستحقین تک پہنچےگی۔

۴)ا س کی وجہ سے ففٹی ففٹی، فورٹی سکٹی یا تھرٹی سیونٹی پرزکات کی وصولی بند ہوجائے گی اورپوری زکات جمع ہوگی۔

۵)اساتذہ ومعلمین کی عزت نفس بھی مجروح ہونے سے بچ جائے گی۔

۶)اموال زکات میںجس طرح کاخردبردپایاجاتاہے، اس سے بھی حفاظت ہوجائے گی۔

۷)گڑبڑی اورخرد بردسے حفاظت کی وجہ سے جس طرح کاگناہ سرزد ہوتاتھا، اس سے بھی حفاظت ہوجائے گی۔

۸)دین کااہم شعبہ صحیح طورپروجودمیں باقی رہے گا۔

یہ اوراس طرح کے بہت سارے فوائدہمیں حاصل ہوسکتے ہیں، اگرغیرمسلم یاجمہوری ممالک میں عامل کی تقرری اس طریقہ پروجودمیں، جس طریقہ میں قضاء کانظام جاری وساری ہے؛ البتہ عامل مقررکرتے وقت درج ذیل شرطوں کاخیال رکھا جائے:

۱]وہ مسلمان ہو؛ اس لئے کہ اس میں ولایت کامسئلہ آتا ہے، جومسلمان کامسلمان پرہوسکتاہے، غیرمسلم کاکسی مسلمان پرنہیں۔

۲]وہ مکلف ہو، یعنی عاقل وبالغ ہو؛ کیوں کہ عقل وبلوغ کی وجہ سے اہلیت مکمل ہوتی ہے۔

۳]امانت دارہو، یہ اس لئے ضروری ہے کہ اس کاتعلق مال سے ہے، اورمال میں امانت داری ضروری ہے، خیانت سے دونقصان ہوں گے:ایک خائن گناہ گارہوگا، دوسرا اموال زکات میں کمی ہوجائے گی؛ اس لئے خائن، فاسق اورلالچی شخص کواس کے لئے نہ چناجائے۔

۴]احکام زکات سے واقف ہو؛ کیوں کہ ناواقف ہونے کی صورت میں کام ڈھنگ سے انجام نہیں دے گااوراسے بھی ایک عام ڈیوٹی کی طرح انجام دے گا۔

۵]کام انجام دینے پرقادرہو؛ کیوں کہ اس کے بغیراموال زکات کی وصولی نہیں سکتی۔(فقہ الزکاۃ، ص:۵۸۶-۵۸۷)

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی