چلتا نہیں ہے زور کسوں کا قضا کے ہاتھ (آہ! مرشد الامتؒ)

چلتا نہیں ہے زور کسوں کا قضا کے ہاتھ (آہ! مولانارابع حسنی ندویؒ)

چلتا نہیں ہے زور کسوں کا قضا کے ہاتھ

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

موت توبرحق ہے، ہرایک کوآنی ہے، چارپل کی یہ زندگانی ہے، موت سے کسی کورستگاری نہیں، ہرایک کی ایک دن باری ہے، کل نفس ذائقۃ الموت(ہرجان کوموت کامزہ چکھنا ہے)؛ لیکن جانے جانے والے میں فرق ہوتاہے، کچھ کے جانے سے اہل وعیال اوررشتہ دار ہی مغموم ہوتے ہیں، کچھ کے جانے سے اہل شہربھی غم زدہ ہوتے ہیں، کچھ کے جانے سے قوم وملک رنج والم میں ڈوب جاتا ہے؛ لیکن کچھ کے جانے سےکئی کئی ممالک ، قرب وجوار کے بھی اوردوردراز کے بھی، اشک ریز ہوجاتے ہیں، یہ وہ ہوتے ہیں، جواس دنیا میں کام نہیں، کارنامہ کرجاتے ہیں، کار نہیں، کاہائے نمایاں انجام دے جاتے ہیں، اسی لئے ان کے جانے سے زمانہ افسوس کرتا ہے اور کہتا ہے:

موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس

یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے

آج رمضان المبارک کی اکیس تاریخ ہے، ظہرکے بعد تلاوت قرآن میں مصروف تھااوررات کی تراویح کی تیاری کر رہا تھا کہ اچانک واٹس اپ پرایک خبرگردش میں آئی کہ ’’حضرت مولاناسیدرابع حسنی ندوی انتقال فرماگئے‘‘، دل دھک سے رہ گیا، تھوڑی دیرکے لئے اوسان خطاہوگئے، یہ کیاہوگیا؟ابھی توہم بھارتیوں کوان کی سخت ضرورت تھی کہ مسلم پرسنل لابورڈ کے صدرہونے کی حیثیت سے یہ وہ نقطہ تھے، جن پر پوری ملت اسلامیہ ہندیہ کا اتفاق تھا؛ لیکن ہاتفِ اجل کواس کی پروا ہ کب ہوتی ہے کہ کس کی کب کتنی ضرورت ہے؟ یہاں توبس گھنٹی بجتی ہے اورپھرانسان ٹس سے مس نہیں ہوسکتا، فإذا جاء أجلہم لایستأخرون ساعۃ ولایستقدمون، ایک مؤمن کاشیوہ قضا و قدر کے پرفیصلہ پرراضی رہنا ہے، سوہم سب بھی اس پر راضی ہیں کہ:

تابع رضا کا اوس کی ازل سیں کیا مجھے

چلتا نہیں ہے زور کسوں کا قضا کے ہاتھ

زبان سےہم بھی وہی کلمات نکالتے ہیں اورلکھتے ہیں، جوہمیں سکھایاگیاہے،إنا لله و إنا إليه راجعون، إن للہ ماأخذ، ولہ ماأعطی، وکل شیٔ عندہ بأجل مسمی، اللهم اغفر له و ارحمه و أدخله في فسيح جناته ويلهم أهله وذويه الصبر والسلوان۔

حضرت مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندوی رحمہ اللہ کومیں بچپن سے جانتاہوں، جی ہاں! بچپن سے،لگ بھگ سات آٹھ سال کی عمرمیں عم محترم جناب مولاناآفتاب عالم ندوی دھنبادی مدظلہ کے توسط سے میراداخلہ دارالعلوم ندوۃ العلماءکےشعبۂ حفظ میں ہوا، یہ عمر بچپن کی ہوتی ہے، اور اسی وقت سے مولانا کودیکھ رہا ہوں، یہ دور قلم وقرطاس کے لحاظ سے تو حضرت مولاناسیدابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی نظامت کاتھا؛ لیکن عملی طورپرنظامت کے سارے امورحضرت مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندویؒ ہی انجام دیاکرتے تھے، منصب اہتمام پرحضرت مولانامحب اللہ لاری رحمۃ اللہ علیہ فائز تھے، یہ ان کے اہتمام کا’’چراغ سحری‘‘ دورتھا؛ کیوں کہ اسی سال۲۹/نومبر۱۹۹۳ء، صبح کی اولین ساعتوں میں وہ داربقاکی طرف کوچ کرگئے، کارگزار مہتمم حضرت مولاناسعیدالرحمٰن اعظمی ندوی مدظلہ تھے۔

حضرت مولانامحب اللہ لاری رحمہ اللہ کی وفات کے بعد منصب اہتمام کے لئے جس شخص کاانتخاب عمل میں آیا، وہ ایک سیدھا سادھا صوفی منش، جوحضرت مولانا سعید الاعظمی مدظلہ اورمولانامرتضیٰ مظاہری رحمہ اللہ کی طرح بارعب بھی نہیں تھا،جن کودیکھ کر طلبہ میں ہڑبونگ نہیں مچتی تھی، یعنی حضرت مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندویؒ، لوگوں کے سان وگمان میں بھی نہ تھا کہ وہ اس طرح اتنی جلدی طلبہ کوقابومیں کریں گے، جس طرح ماہرچرواہا بدکے ہوئے جانورکوکرلیتاہے؛ لیکن جاننے والے جانتے ہیں اوراس وقت وہاں پررہنے والے حضرات گواہی دیں گے کہ انھوں نے طلبہ کوقابومیں کیا، لباس و پوشاک اورطرز زندگی میں کافی تبدیلی آئی، اشراف اور نگرانی کے شعبے میں تبدیلی لائی گئی؛ تاکہ طلبہ پرصحیح گرفت ہوسکے، اسی زمانہ میں جالی والی ٹوپی کو ’’ندوہ دروہ‘‘ قراردیاگیا، یادپڑتا ہے کہ اس تعلق سے حضرت مہتمم صاحب (مولانارابع صاحب)نے ندوہ کی وسیع مسجد میں طلبہ کے سامنے خطاب بھی کیا اور یہ بتایا کہ اس ٹوپی سے یہودی ربیوں کی مشابہت لازم آتی ہے، وہ بھی یہی ٹوپی پہنتے ہیں اورجس طرح طلبہ بال نکال کرآدھے سرمیں پہنتے ہیں، وہ بھی اسی طرح پہنتے ہیں، گیٹ سے باہرجانے پرپابندی لگائی گئی اوراس کے لئے نگراں سے پرچی لینے کوضروری قراردیاگیا، نمازوں کے معاً بعد ہاسٹلوں میں نگرانوں کی ایک جماعت کوگشت کا پابندبنایاگیا؛ تاکہ ان طلبہ کی تنبیہ کی جائے سکے، جونمازترک کرکے کمروں میں پڑے رہتے ہیں، اس طریقہ سے بڑافائدہ ہوا اورنماز چھوڑنے والے طلبہ کی تعدادتقریباًختم ہوگئی، خلاصہ یہ کہ حضرت مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندویؒ کے دوراہتمام کوہم (اپنے مشاہدہ کی نگاہ سے)ندوہ کی نشاۃ ثانیہ کہہ سکتے ہیں، یہ دورتقریباًچھ سال پرمحیط ہے؛ لیکن ان چھ سالوں میں ندوہ کی جوکایاپلٹ ہوئی ہے، یہ کسی بھی محب ندوہ سے مخفی نہیں ہے، اس سے حضرت مولاناکی اہتمامی صلاحیت کابخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔

۳۱/دسمبر۱۹۹۹ء کو حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نوراللہ مرقدہ کی وفات حسرت آیات کے بعد ندوۃ العلماء کے ناظم کی حیثیت سے حضرت مولانارابع صاحب کومنتخب کیاگیا اوران کی جگہ مہتمم حضرت مولاناسعیدالرحمن اعظمی ندوی مدظلہ کوبنایاگیا، ایک ناظم اورمہتمم کےکام وکار اورذمہ داری ومسؤلیت میں کافی فرق ہوتا ہے اورندوہ میں یہ فرق اورزیادہ ہے؛ کیوں کہ مہتمم توصرف دارالعلوم کاہوتا ہے، جب کہ ناظم ندوۃ العلماء کا، اورندوۃ العلماء کوئی ادارہ نہیں؛ بل کہ ایک تحریک کانام ہے، جس سے اس کی وسعت کااندازہ لگایا جاسکتا ہے، حضرت مولانارابع حسنی صاحب کے لئے اس ذمہ داری کونبھانا اس لئے آسان تھا کہ برسوں سے اپنے ماموں مولانا علی میاں ندویؒ کی یہ ذمہ داری عملی طور پروہی انجام دیتے آرہے تھے، سوانھوں نے اس ذمہ داری کوبھی حسن وخوبی کے ساتھ نبھایا اوراس وقت ندوہ ظاہری ومعنوی طورپرجس اوج پرپہنچاہواہے اوراس وقت ندوہ میں جوباغ وبہار ہے، وہ حضرت ہی برکت سے ہے، حضرت نے اس ذمہ داری کوآخری وقت تک نبھایا؛ حتی کہ اس پیرانہ سالی میں بھی ایک ایک فائل کی ورق گردانی بذات خود کرتے اورجہاں دستخط کی ضرورت پڑتی، دستخط ثبت فرماتے۔

میں نے الحمدللہ حضرت کے اہتمام اورنظامت دونوں دورکوپایاہے اورجہاں تک میں سمجھتاہوں کہ دونوں دورمیں ندوہ کوجس طرح کے فردکی ضرورت تھی، حضرت اس کے بجاطورپرلائق تھے، ایک مہتمم کے لئے کچھ ضروری اوصاف ہوتے ہیں، اگرمہتمم ان اوصاف سے متصف نہ ہوتوادارہ کی عظمت توخاک میں ملتی ہی ہے، خودلفظ مہتمم کوبھی داغدار ہوناپڑتا ہے، مثلاً: مہتمم کے لئے صرف عالم ہونا ہی کافی نہیں؛ بل کہ جیدالاستعداداورہمہ جہت صلاحیتوں کامالک ہونابھی ضروری ہے، فہم وفراست کامالک ہونا اورحلم وتدبرسے لیس ہونابھی ضروری ہے، اس کے اندرمضمون نگاری اورتصنیف وتالیف کی بھی بھرپورصلاحیت ہونی چاہئے، اسےطلبہ اورادارہ کے لئے ہروقت فکرمندہونا چاہئے اوران سب سے زیادہ اس کے اندرامانت داری کی صفت ضرور ہی پائی جانی چاہئے، یہ اوران جیسے صفات سے متصف ہونا ایک مرکزی ادارہ کے مہتمم کے لئے ضروری ہے اوریہ تمام وہ اوصاف ہیں، جوحضرت میں بدرجۂ اتم موجودتھے، جس کی شہادت حضرت کے دوراہتمام کے لوگ خوب دیں گے۔

حضرت مولاناایک شریف ، نیک وصالح، متقی وپرہیز گار، ذاکر وشاغل، امانت دار، حلیم وبردبار، فہم وفراست کے پیکر، انتظام وانصرام میں ماہر، خوش اخلاق، خوش اطورا، ملنسار، چھوٹوں کے لئے مشفق ومہربان، بڑوں کے حق میں مشیروخیرخواہ، ملتے تومسکراکر، چلتے توتواضع کے ساتھ جھک کر،رشد وہدایت کاچشمہ اور کام کے قدردان تھے، گزشتہ سال میری دوکتابیں منصہ وجود میں آئیں، ایک ’’مقاصدشریعت: ایک تعارف‘‘ اوردوسری ’’عصری نظام تعلیم: مسائل اورحل‘‘، بطورتبرک حضرت ہی ہاتھوں رائے بریلی میں ان دونوں کتابوں کا رسم اجراء ہوا، جس میں تعاون استاذ محترم مولانابلال حسنی ندوی مدظلہ نے کیا، حضرت سردی کی وجہ سے گھرکے اندرون میں کمبل لپیٹے نیم دراز تھے، کتاب دیکھ کراٹھ بیٹھے، خوشی کااظہارکیا، استاذمحترم نے تعارف میں بتایاکہ یہ مولاناآفتاب دھنبادی کے بھتیجے ہیں، تواورزیادہ خوش ہوئے، عم محترم کی بھی خیریت پوچھی، یہ میرے لئے خوش قسمتی کی بات ہے کہ انھوں نے ان دونوں کتابوں کی رسم اجراء اپنے ہاتھوں سے انجام دی۔

آج حضرت ہمارے درمیان نہیں رہے، جس کاقلق اور اضطراب پورے عالم کوہے؛ لیکن یہ تواللہ تعالیٰ کی طرف سے طے شدہ ہے، جوبھی آیاجانے کے لئے ہی آیا ہے، کل من علیہا فان، ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والإکرام، اب ہمیں چاہئے کہ ہم حضرت کے مشن کوآگے بڑھائیں، ان کے لئے دعائے مغفرت کرتے رہیں اور یہ بھی دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم اخلاف کو اپنے اسلاف کے نقش قدم پرچلنے کی توفیق عطافرمائے، آمین!

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی