زکات کانصاب / نصاب میں معیار سونا یاچاندی؟

زکات کانصاب / نصاب میں معیار سونا یاچاندی؟

نصابِ زکوٰۃ

اموال میں نصاب کا معیارسونے اورچاندی کوماناجاتاہے، جن کے نصاب کی مقدارخود نبی کریم ﷺ نے متعین فرمائی ہے؛ چنانچہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يأخذ من كل عشرين دينارا فصاعدا نصف دينار ومن الأربعين دينارا دينارا(صحیح ابن ماجہ للألبانی، حدیث نمبر:1448)’’رسول اللہ ﷺ بیس اوراس سے زائد دینارپرنصف دیناراورچالیس دینارپرایک دینار لیتے تھے‘‘،حضرت عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی روایت میں ہے:ليس في أقل من عشرين مثقالاً من الذهب ولا في أقل من مائتي درهم صدقة(أخرجه أبو عبيد في الأموال،٤٠٩، برقم:١١١٣، وأخرجه أيضاً الدارقطني، ١٩٩، وصححه الألباني في إرواء الغليل،برقم:٨١٥)’’بیس مثقال سونے سے کم میں زکوٰۃ نہیں، نہ ہی دوسودرہم سے کم چاندی میں زکوٰۃ ہے‘‘، اسی طرح دوسری حدیث میں ہے:ليس فيما دون خمس ذود صدقة من الإبل وليس فيما دون خمس أواق صدقة وليس فيما دون خمسة أوسق صدقة(صحیح البخاری، حدیث نمبر:1447)’’پانچ اونٹ سے کم میں زکوٰۃ نہیں، پانچ اوقیہ سے کم (چاندی) میں زکوٰۃ نہیں اورپانچ وسق سے کم (پیداوار) میں زکوٰۃ نہیں‘‘۔

مذکورہ احادیث میں پیداوار، اونٹ اورسونے چاندی کا نصاب بتایا گیا ہے، چوں کہ یہاں اثمان کی زکات سے متعلق بات چل رہی ہے؛ اس لئے سونے چاندی کے نصاب پربات کی جائے گی، مذکورہ احادیث میں جونصاب بتایا گیا ہے، برصغیرکی زبان میں اسے ’ساڑھے سات تولہ سونا‘ اور’ساڑھے باون تولہ چاندی‘ کہا جاتا ہے، موجودہ گرام کے اعتبارسے اگردیکھاجائے توساڑھے سات تولہ سونا ستاسی گرام،چارسواناسی ملی گرام (87.479grm) اور چاندی چھ سوبارہ گرام ، تین سوساٹھ ملی گرام (612.360grm) کے اوزان بنتے ہیں، اگرکسی کے پاس اتنی مقدارمیں سونا یا چاندی یا ان کی قیمت کے بقدرروپے پیسے ہوں اوراس پرسال گزرجائے تووہ صاحب نصاب ہے اور اس پرزکوٰۃ اداکرناضروری ہے۔

نصاب میں معیارسونا کو مانا جائے یا چاندی کو؟

موجودہ زمانہ میں سونے اور چاندی کی قیمتوں میں آسمان اور زمین کا فرق ہے، آج (۱۰/اپریل۲۰۲۳ء) Pure Gold (24k)1 gram کی قیمت تقریباً6,022 روپے ہیں، جب کہ Silver 1 gram کی قیمت 80,2 روپے ہیں، اس فرق کی وجہ سے یہ سوچنا ضروری ہے کہ زکات کے نصاب کا معیار کس کو بنایا جائے؟ اس سلسلہ میں علماء کے دورجحان ہیں:

۱-چاندی کومعیارقراردیاجائے، جس کی دو وجہیں ہیں: (۱)چاندی کا نصاب متفق علیہ ہے اورصحیح ومشہوراحادیث سے ثابت ہے۔(۲)چاندی کومعیاربنانے میں فقراء کا زیادہ فائدہ ہے، جسے فقہی اصطلاح میں’’أنفع للفقراء‘‘ کہا گیا ہے۔اگراس رائے کوقبول کرلیاجائے توآج کے زمانہ میں تقریباً ہروہ شخص صاحب نصاب ہے، جس کے پاس تقریباً پچاس ہزار کی رقم ہو، یہ رقم ان لوگوں کے لئے توبہت زائد ہے، جن کی تنخواہ پانچ سے دس ہزارکے اندرہو؛ لیکن جن کی تنخواہیں بڑی ہیں، ان کے لئے یہ رائی کے برابرہے۔

۲-سونے کومعیارقرادیاجائے، جس کی بنیادی وجہیں یہ ہیں:(۱)سونے اورچاندی کی قیمتوں میں بےتحاشہ فرق ہے۔(۲) یہ بھی صحیح حدیث سے ثابت ہے(جیساکہ ابن ماجہ کے حوالہ سے مذکورہوا)۔(۳) یہ دوسرے انصبۂ زکات کے برابرہے، مثلاً: اونٹ کا نصاب پانچ، بکری کا نصاب چالیس، گائے نصاب تیس، اسی طرح کھجوروکشمش کا نصاب پانچ وسق(تقریباً چھ سوباون کلوپانچ سوگرام)ہے، ان کی قیمتوں کا موازنہ کیاجائے تولگ بھگ سونے کی قیمت تک پہنچتی ہے؛ اس لئے سونے کوہی معیار مانا جائے(تفصیل کے لئے دیکھیں:فقہ الزکاۃ للقرضاوی: ۱؍۲۶۳، احکام الأوراق النقدیۃ التجاریۃ فی الفقہ الإسلامی، ص:۴۵۵،موجودہ حالات میں سونا اور چاندی کانصاب: یہ کتاب اسلامک فقہ اکیڈمی سے اسی موضوع پر ہے)۔

راقم کاخیال ہے کہ:

۱-اگرکسی کے پاس خالص سونا یا اس کے زیورات ہیں اور وہ ساڑھے سات تولہ ہیں تووہ صاحب نصاب ہوگا اور اس پر زکات کی ادائے گی لازم ہوگی۔

۲-اگرکسی کے پاس خالص چاندی یا اس کے زیورات ہیں اور وہ ساڑھے باون تولہ ہیں تو وہ صاحب نصاب ہوگا اور اس پر زکات لازم ہوگی۔

۳-اگرکسی کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی اورساڑھے سات تولہ سونا نہیں ہے؛ بل کہ اس کے پاس رقوم اور سامان تجارت وغیرہ ہیں تواکابرعلماء کی مذکورہ دونوں رایوں کا لحاظ کرتے ہوئے زکات دینے میں توسونے کو معیار بنایا جائے؛ البتہ زکات لینے کے معاملہ میں چاندی کو معیار بنایا جائے، یعنی صاحب نصاب اس شخص کو قرار دیاجائے، جس کے پاس ساڑھے سات تولہ سونےکی قیمت کے برابررقوم وغیرہ ہوں، اگر ایسا شخص ہے تواس پرزکات لازم ہوگی اورزکات نہ دینے پر وہ قرآن وحدیث میں مذکور وعید کا مستحق قرارپائے گا؛ لیکن اگر کوئی شخص ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر رقوم کا مالک ہے تو اسے صاحب نصاب قرار نہیں دیا جائےگا اوراس پرزکات کی ادائے گی لازم نہیں ہوگی؛ البتہ وہ خود زکات نہیں لے سکتا، ہذاماعندی واللہ اعلم بالصواب!

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی