زکات ادا نہ کرنے پروعید / زکات ٹیکس نہیں / شرائط زکات / اموال زکات

زکات ادا نہ کرنے پروعید / زکات ٹیکس نہیں / شرائط زکات / اموال زکات

زکوٰۃنہ اداکرنے پروعید

جولوگ صاحب نصاب ہونے کے باوجودزکات ادانہیں کرتے، ان کے لئے سخت سزا کی وعید آئی ہے، قرآن مجیدمیں ہے:وَالَّذينَ يَكنِزونَ الذَّهَبَ وَالفِضَّةَ وَلا يُنفِقونَها فى سَبيلِ اللَّهِ فَبَشِّرهُم بِعَذابٍ أَليمٍ يَومَ يُحمىٰ عَلَيها فى نارِ جَهَنَّمَ فَتُكوىٰ بِها جِباهُهُم وَجُنوبُهُم وَظُهورُهُم هـٰذا ما كَنَزتُم لِأَنفُسِكُم فَذوقوا ما كُنتُم تَكنِزونَ(التوبة:۳۴۔۳۵)’’اور وہ لوگ جو سونا اور چاندی کو جمع کرتے ہیں اور اس کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو ان کو دردناک عذاب کی بشارت دے دیں۔ جس دن (اس خزانے کو) جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا اور پھر اس سے ان کی پیشانیوں اور پہلوؤں اور پیٹھ کو داغا جائے گا۔ یہ وہ خزانہ ہے جو تم نے اپنے لئے جمع کیا تھا۔ پس اس کو چکھو جو تم خزانہ بناتے تھے‘‘۔

اسی طرح حدیث میں ہے، اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا:ما من صاحب ذهب ولا فضة لا يؤدي منها حقها إلا إذا كان يوم القيامة صفحت له صفائح من نار فاحمي عليها في نار جهنم فيكوى بها جنبه وجبينه وظهره  كلما بردت اعيدت له في يوم كان مقداره خمسين الف سنة حتى يقضى بين العباد(صحیح مسلم)’’جو بھی سونے اور چاندی کا مالک اس کی زکوۃ نہیں ادا کرتا، قیامت کے دن اس کے لئے آگ کی تختیاں تیار کی جائیں گی، پھر ان کو جہنم کی آگ میں مزید گرم کیا جائے گا اور اس سے ان کی پیشانیوں اور پہلوؤں اور پیٹھ کو داغا جائے گا، جب وہ تختیاں ٹھنڈی ہو جائیں گی تو دوبارہ ان کو گرم کر دیا جائے گا اور یہ سلسلہ پچاس ہزار سال کے دن میں برابر چلتا رہے گا؛ یہاں تک کہ بندوں کے درمیان(جنت یاجہنم میں جانے کا) فیصلہ کر دیا جائے گا ‘‘۔

زکوٰۃ ٹیکس نہیں

بہت سارے لوگ زکات کورٹیکس میں کوئی فرق نہیں کرتے؛ حالاں کہ دونوں میں بہت زیادہ فرق ہے،جودرج ذیل ہیں:

۱-زکات عبادت ہے، جب کہ ٹیکس عبادت نہیں۔

۲-ٹیکس وہ مالی واجبات ہیں، جوحکومت کی طرف سے لاگوکئے جاتے ہیں، جب کہ زکات اللہ کی طرف سے فرض کیا ہوا مالی واجبات میں سے ہے۔

۳-ٹیکس کے مصارف متعین نہیں ہیں، اس کی رقم کوتمام طرح کے مفادعامہ کے منصوبوں میںخرچ کیاجاتاہے، جب کہ زکات کے لئے خاص مصارف ہیں، ان سے ہٹ کراسے خرچ نہیں کیاجاسکتا۔

۴-زکات کی ادائے گی کے لئے نیت ضروری ہے، جب کہ ٹیکس کی ادائے گی کے لئے نیت ضروری نہیں ہے۔

۵-ٹیکس کی مقدارمیں تبدیلی ہوتی رہتی ہے، جب کہ زکات کی مقدارمیں تبدیلی نہیں ہوتی۔

۶-ٹیکس کامقصدعوام کی آمدنی کاایک حصہ لے کراس سے نظام حکومت کوچلاناہوتاہے، جب کہ زکات کامقصد مال کی تطہیراورنفس کاتزکیہ ہے۔

۷-ٹیکس امیروغریب ہرایک سے کچھ نہ کچھ وصول کیا جاتاہے، جب کہ زکات صرف ایسے امیرلوگوں سے وصول کی جاتی ہے، جن کے پاس ایک مخصوص مقدارمیں مال ہوتاہے۔

۸-ٹیکس آمدنی پرلگتی ہے، جس کی وجہ سے مال جمع کرنے کی ہوس پڑھتی ہے، جب کہ زکات بچت پرہوتی ہے، جس کی وجہ سے مال کی ہوس ختم ہوتی ہے۔

۹-عام طورپرٹیکس کوبوجھ سمجھاجاتاہے، جس کی وجہ سے ٹیکس چوری کی راہیں تلاش کی جاتی ہیں، جب کہ عام طورپرزکات کوبوجھ نہیں سمجھاجاتااوراسی لئے زکات چھپانے کی کوشش نہیں جاتی۔

شرائط زکوٰۃ

زکات کے فرض ہونے کے لئے شریعت نے کچھ شرطیں رکھی ہیں، جودوقسم کی ہیں، ایک کاتعلق زکات اداکرنے والے سےہے، جب کہ دوسرے کاتعلق مال سے ہے، زکات اداکرنے والےسے متعلق تین شرطیں ہیں:(۱)مسلمان ہونا(۲)عاقل ہونا (۳)اوربالغ ہونا، اگریہ تینوں شرطیں نہ پائی جائیں تو پھر زکات کی ادائے گی واجب نہ ہوگی، بالغ ہونے کی شرط احناف کے نزدیک ہے، شوافع اورحنابلہ کے یہاں نابالغ کے مال پربھی زکات واجب ہوتی ہے ، جس کی ادائے گی نابالغ کاولی کے ذمہ ہے۔

جہاں تک مال سے متعلق شرطوں کا ہے تووہ یہ ہیں: (۱)مال کا ملکیت وتصر ف میں ہونا یا ایسے حال میں ہوناکہ اس میں کسی بھی اعتبارسے تصرف کرسکتا ہو(۲)حاجت اصلیہ سےزائد ہونا، حاجت اصلیہ سے مراد ایسی ضرورت ہے، جس کے پورا نہ ہونے سے جان یا عزت جانے کا اندیشہ ہو، مثلاً: کھانا، پینا، پہننے کے کپڑے، رہنے کا مکان، اہلِ صنعت وحرفت کے لیے ان کے پیشہ کے اوزار وغیرہ۔(۳)مال کا نامی (بڑھنے والا) ہونا، یعنی مال کی موجودہ شکل ایسی ہو کہ اس میں حقیقی یاحکمی بڑھوتری اوراضافہ ہوسکتا ہو۔(۴)قرض سے فارغ ہونا، یعنی مال قرض میں ڈوباہوا نہ ہو؛ البتہ لمبی مدت کے ترقیاتی قرضے اس سے مستثنی ہیں، اس میں پورے قرض کی بجائے قسط کومنہا کیاجاتاہے، باقی پرزکات واجب ہوتی ہے۔(۵) مال کانصاب کی مقدارکوپہنچنا، یعنی مال اتناہو، جس سے زکات کا نصاب مکمل ہوتاہو، اگرنصاب سے کم ہے تواس پرزکات واجب نہیں۔(۶)نصاب پرسال کاگزرنا، یعنی زکات کےنصاب پر پورا ایک سال گزرجائے، تب ہی زکات واجب ہوگی، جسے ’’حولانِ حول‘‘ کہاجاتاہے؛ البتہ سال گزرنے میں شروع اور آخر کے دن کااعتبارہے، درمیان سال میں اگرمال میں کمی آجائے تواس کااعتبارنہیں ہوگا۔

اموالِ زکوٰۃ

جن اموال پرزکات واجب ہوتی ہے، وہ یہ ہیں:(۱) نقد رقوم یعنی کاغذی زراوروہ مالی دستاویز، جواس کے حکم میں ہو(۲) سونا چاندی یا اس کے زیورات(۳)بنکوں میں جمع شدہ رقوم(۴) کمپنیوں کے شیئرز(۵) بیمہ کمپنیوں کو ادا شدہ رقوم(۶)تجارت کی نیت سے خریدی ہوئی زمین(پراپرٹی)(۷)تجارتی سامان (اموال تجارت)۔یہ تمام وہ اموال ہیں، جن پرزکات واجب ہوتی ہے۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی