رمضان کے درمیانی عشرہ میں کرنے کے کام

رمضان کے درمیانی عشرہ میں کرنے کے کام

رمضان کے درمیانی عشرہ میں کرنے کے کام

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

رمضان المبارک کوتین عشروں میں تقسیم کیا گیا ہے اور پہلےعشرہ کو’’رحمت‘‘، دوسرے عشرہ کو’’مغفرت‘‘ اور تیسرے عشرہ کو’’جہنم سے خلاصی‘‘ کا مہینہ قراردیا گیا ہے، اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:ھوشهر أوله رحمة وأوسطه مغفرة وآخره عتق من النار.(صحیح ابن خزیمۃ، حدیث نمبر:۱۸۸۷)’’یہ وہ مہینہ ہے، جس کاپہلاحصہ رحمت کا، دوسرامغفرت کا اورتیسرا جہنم سے چھٹکارہ کا ہے‘‘، اس لحاظ سے ہم رمضان المبارک کے دوسرے عشرہ میں داخل ہوچکے ہیں، جومغفرت کاعشرہ ہے۔

’مغفرت‘کے معنی ’’چھپانے اورپردہ پوشی کرنے‘‘کے آتے ہیں(المعجم الوسیط، ص:۶۵۶، معجم الرائد، ص:۵۸۱)، امام رازی رحمہ اللہ اپنی تفسیر (7/ 124)میں لکھتے ہیں:’’مغفرت میں جرم پر پردہ ڈالنا ہوتا ہے؛ تا کہ شرمندگی اور رسوائی نہ ہو، گویا بندہ یہ کہتا ہے کہ: میں آپ سے معافی کا طلب گار ہوں، اور جب آپ معاف کر دیں تو میرے جرائم پر پردہ بھی ڈال دیں‘‘،علامہ کفوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’لفظ غفران ، سزا کے خاتمے اور ثواب کے حصول کا مطالبہ کرتا ہے، ان دونوں کا استحقاق صرف مومن کے پاس ہی ہوتا ہے، نیز یہ لفظ صرف اور صرف ذات باری تعالی کے بارے میں ہی استعمال کیا جاتا ہے‘‘۔(الکليات،ص 666)

دنیا کا کوئی انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ گناہوں سے پاک ہے، صرف نبیوں کومعصوم عن الخطا قرار دیا گیا ہے، پھرغلطی کا سرزد ہونا انسانی فطرت میں داخل ہے، اسی لئے ایک حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:والذي نفسي بيده لو لم تذنبوا لذهب الله بكم ولجاء بقوم غيركم يذنبون فيستغفرون الله فيغفر لهم(صحیح مسلم، کتاب التوبۃ، حدیث نمبر:۲۷۴۸) ’’قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ تعالیٰ تم کو اس دنیا سے منتقل کر دے گا اور دوسری قوم کو پیدا فرما دے گا جو گناہ کرےگی پھر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرےگی، پس اللہ ان کو بخش دیں گے‘‘، ایک دوسری حدیث میں ہے:كلُّ ابنِ آدمَ خطَّاءٌ ، وخيرُ الخطَّائينَ التَّوَّابونَ(سنن الترمذي، حدیث نمبر: ۲۴۹۹)’’تمام انسان خطاکار ہیں اور بہترین خطاکار وہ ہے، جو توبہ کرنےوالاہے‘‘، معلوم ہوا کہ ہرانسان خطاکار ہے، اب ظاہر ہے کہ خطا کی معافی بھی ہونی چاہئے، غلطی کرنابڑاجرم نہیں ہے؛ بل کہ غلطی کرکے معافی نہ مانگنا بڑاجرم ہے؛ اس لئے ہر انسان کوچاہئے کہ اپنی غلطی کی معافی اپنے پیداکرنے والے سے مانگتارہے اوررمضان المبارک کے مہینہ سے زیادہ موزوں اس کے لئے اورکون سا مہینہ ہوسکتا ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نےایک عشرہ کوہی مغفرت کاعشرہ قراردیاہے؟

یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ معافی طلب کرنے کے لئے ندامت وشرمندگی اورانکساری وفروتنی کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے اموربھی انجام دینے کی کوشش کی جاتی ہے، جن کی وجہ سے معافی جلدی مل جاتی ہے،رمضان المبارک کے اس عشرہ میں اللہ تعالیٰ سے معافی کے لئے بھی کچھ امورانجام دینے کی ضرورت ہے، جودرج ذیل ہیں:

۱)روزہ کااہتمام:رمضان المبارک کاسب سے افضل عمل روزہ رکھناہے، اللہ تعالیٰ کاارشادہے:فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُ(البقرۃ:۱۸۵)’’تو تم میں سےجو کوئی یہ مہینہ پائے تو ضرور اس کے روزے رکھے‘‘، بغیرعذرروزہ چھوڑنا درست نہیں ہے؛ بل کہ جوشخص بلاعذرروزہ ترک کردیتا ہے، وہ ایک روزہ کے بدلہ میں اگرزمانہ بھر بھی روزہ رکھے توناکافی ہے، اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا:قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:مَنْ أَفْطَرَ يَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ رُخْصَةٍ، وَلاَ مَرَضٍ لَمْ يَقْضِ عَنْهُ صَوْمُ الدَّهْرِ كُلِّهِ وَإِنْ صَامَهُ.(سنن الترمذی، حدیث نمبر:۷۲۳)’’جس نے بغیر کسی شرعی رخصت اوربغیرکسی بیماری کے رمضان کا کوئی روزہ نہیں رکھا توپورے سال کاروزہ بھی اس کو پورانہیں کرپائے گا، چاہے وہ پورے سال روزہ سے رہے‘‘؛ اس لئے معمولی معمولی عذرکی بناپرروزہ ہرگزنہیں چھوڑناچاہئے، اسی کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ روزہ کاعمل اُن امورمیں سے ہے، جس کے ذریعہ گناہوں کی معافی ہوتی ہے، اللہ کے رسول ﷺ نے ارشادفرمایا:مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر:۳۸، صحیح مسلم، حدیث نمبر:۷۶۰)’’جس نے ایمان اورثواب کی امیدکے ساتھ روزہ رکھاتواس کے پچھلے گناہ معاف کردئے گئے‘‘، اب اگرکوئی معافی چاہتاہے اپنے گناہوں کی تورمضان المبارک کے روزہ رکھنے ہوں گے، الایہ کہ کوئی عذرہو۔

۲)قیام لیل کااہتمام:قیام لیل سے مراد یہ ہے کہ بندہ رات کا اکثر حصہ جاگ کر نوافل یا قرآن پاک کی تلاوت وغیرہ میں مشغول رہ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے،حسن بن عمارشرنبلالیؒ لکھتے ہیں:ومعنی القیام أن یکون مشتغلا معظم اللیل بطاعة ، وقیل: بساعة منہ، یقرأ أو یسمع القرآن أوالحدیث أو یسبح أو یصلی علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم(مراقی الفلاح،فصل في تحيۃ المسجد وصلاۃ الضحی وإحياء الليالی، ص:۱۵۱)’’ قیام کے معنی ہیں رات کااکثرحصہ اللہ کی اطاعت میں گزارنا، اورکہاگیاہے:رات کاایک حصہ، جس میں قرآن کی تلاوت کی جائے یاسناجائے، یاحدیث پڑھی جائے یاسنی جائے، یا تسبیحات میں مشغول رہاجائے یانبی کریم ﷺ پردرود بھیجاجائے‘‘، معلوم ہوا کہ قیام لیل میں کافی گنجائش ہے، اس میں نوافل (تراویح، تہجد) بھی پڑ ھ سکتے ہیں، تلاوت قرآن کااہتمام کیاجاسکتا ہے اوراگرخود نہیں پڑھ سکتا تودوسرے سے سن سکتا ہے، اگرکوئی سنانے والا نہ ہو توعصرحاضرکے جدید ذرائع سی،ڈی، موبائل ، کمپوٹروغیرہ کے ذریعہ بھی سنا جاسکتا ہے اوران شاء اللہ اس پر ثواب ملے گا(جدید فقہی مسائل ۱:۱۱۶ مطبوعہ زم زم پبلشرز کراچی، کتاب النوازل ۲: ۲۹)، اسی طرح حدیث کی قراءت بھی کرسکتا ہے اورسن بھی سکتا ہے، تسبیحات اورذکرواذکار میں بھی مشغول ہوسکتا ہے اورنبی کریم ﷺ پردرودوسلام کابھی وردکرسکتا ہے، اوریہ تمام وہ اعمال ہیں، جن کے ذریعہ سے رمضان المبارک کے مہینہ میں گناہوں کی معافی ہوتی ہے، اللہ کے رسولﷺ کاارشادہے:مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر:۳۷)’’جس نے ایمان اورثواب کی امیدکے ساتھ قیام رمضان کیا، اس کے پچھلے گناہ معاف کردئے گئے‘‘۔

۳)توبہ واستغفار:توبہ واستغفاربھی گناہوں کی معافی کا بہترین ذریعہ ہے؛ البتہ یہ خلوص کے ساتھ ہوناچاہئے، خوداللہ تعالیٰ کاارشادہے:یٰاَیُّهَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًا(التحریم:۱۲) ’’اے ایمان والو! اللہ سے خالص توبہ کرو‘‘، توبہ کادروازہ اس وقت تک کھلارہے گا، جب تک کہ انسان کے نرخرہ سے خر خر کی آواز نہ آنے لگے، حدیث میں ہے:ان الله یقبل توبۃالعبد مالم یغرغر(سنن الترمذی، حدیث نمبر:۳۸۴۷) ’’اللہ تعالیٰ بندہ کا توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے، جب تک کہ نرخرہ سے آواز نہ آنے لگے‘‘، یعنی موت سے پہلے پہلے تک توبہ کاوقت ہے، قرآن مجیدمیں ہے:وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّىٰ إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الْآنَ(النساء:۱۸)’’ایسے لوگوں کی توبہ قبول نہیں، جوبرے کام کرتے رہیں اور جب ان میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے تو کہنے لگے کے اب میں توبہ کرتا هہوں‘‘، لہٰذا انسان کوچاہئے کہ وہ توبہ ضرورکرے، خواہ اس کاگناہ کتناہی زیادہ کیوں نہ ہو، اللہ تعالیٰ فرماتاہے:وَ مَنْ يَّعْمَلْ سُوْٓءًا اَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ يَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا(النساء:۱۱۰)’’ جب کوئی برے کام کا ارتکاب کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے، پھر وہ اللہ سے توبہ واستغفار کرلے تو اللہ کو غفور بھی پائے گا اور رحیم بھی ‘‘، زبان نبوت نے بھی فرمایا:لو أخطأتم حتى تبلغ خطاياكم السماء، ثم تبتم، لتاب الله عليكم(سنن ابن ماجہ ،حديث نمبر:4248) ’’اگرتم غلطی کرو؛ یہاں تک کہ تمہاری غلطیاں آسمان تک پہنچ جائیں، پھرتم توبہ کرو، تواللہ تعالیٰ تمہاری توبہ قبول کرے گا‘‘؛ البتہ توبہ کے لئے چارشرطوں کاخیال رکھناضروری ہے: (۱)گناہ سے فوراً رک جانا(۲)گناہ پر ندامت ہونا(۳)دوبارہ گناہ کونہ کرنے کاپختہ ارادہ کرنا(۴) اگرگناہ کاتعلق بندہ کے حقوق سے ہے تواس حق کواداکرنایامعافی طلب کرلینا، ان چارشرطوں کے ساتھ توبہ قبول ہوتی ہے، لہٰذا اس کاخیال رکھناضروری ہے۔

۴)گناہ کے بعدنیکی کاالتزام:انسان غلطی اورخطا کاپتلا ہے، اس سے غلطیاں ہوں گی؛ لیکن غلطیوں کی معافی مانگنا ضروری ہے اورمعافی کے لئے ایک اہم عمل قرآن مجید میں یہ بتلایاگیا ہے کہ برائی کے بعد نیکی کرلو، نیکی برائی کومٹادیتی ہے، اللہ تعالیٰ کاارشا دہے:اِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ (ہود:۱۱۴) ’’بے شک نیکیاں برائیوں کو دور کرتی ہیں‘‘، لہٰذا اگرکسی سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تواسے چاہئے کہ فوراً اس غلطی کے بعد کوئی نیکی کرلے، اب نیکی میں بہت سارے امورداخل ہیں، مثلاً: برائی کے بعددورکعت نماز پڑھ لے، اس سے بھی گناہ دُھل جاتے ہیں؛ چنانچہ اللہ کے رسولﷺ کاارشاد ہے: مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُذْنِبُ ذَنْبًا ثُمَّ يَتَوَضَّأُ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ يَسْتَغْفِرُ اللَّهَ تَعَالَى لِذَلِكَ الذَّنْبِ إِلَّا غَفَرَ لَهُ(مسنداحمد عن علی، حدیث نمبر:۴۷)’’کسی مسلمان سے کوئی گناہ ہوجائے، پھروہ وضوکرکے دورکعت نماز پڑھ لے تواللہ تعالیٰ اس کومعاف کردیتے ہیں‘‘،اسی طرح ذکرواذکاربھی کرسکتے ہیں، یہ بھی نیکیاں ہیں اوران سے بھی گناہوں کی معافی ہوتی ہے؛ البتہ یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ نیکی کرنے سے خود بخودجوگناہ معاف ہوتے ہیں، ان سے مراد صغائرہیں، کبائر کے لئے توبہ واستغفار اورحق العبدکے لئے حق کی واپسی یاپھراس کے معاف کرنے سے ہی معافی ہوگی۔

۵)تسبیحات کااہتمام:ذکرواذکاراورتسبیحات کےاہتمام سے ایک تودل کے اندراطمینان پیداہواتا ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُ(الرعد:۲۸)’’سن لو! اللہ کی یاد ہی سے دل چین پاتے ہیں ‘‘، دوسرے اس کے ذریعہ سے گناہوں کی معافی بھی ہوتی ہے، اللہ کے رسولﷺ کارشادہے:من قال: سبحان الله وبحمده في يوم مائة مرة حطت خطاياه وإن كان مثل زبد البحر(صحیح البخاری، حدیث نمبر:۶۴۰۵، صحیح مسلم، حدیث نمبر:۲۶۹۱)’’جو دن بھرمیں سومرتبہ سبحان اللہ وبحمدہ کہے، اس کے گناہ مٹ جاتے ہیں اگرچہ کہ وہ سمندرکی جھاگ کے برابرہوں‘‘، لہٰذاجس کسی سے گناہ سرزدہو، اسے کم از کم دن میں سومرتبہ سبحان اللہ وبحمدہ کاوردکرکے اپنے گناہ کومعاف کروالیناچاہئے۔

۶)صدقات کی کثرت:صدقہ وخیرات کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی دورہوتی ہے اورانسان بری موت مرنے سے بچ جاتا ہے، نبی کریم ﷺ کاارشاد ہے:إن الصدقة لتطفئ غضب الرَّب وتَدفع مِيتَة السُّوء(سنن الترمذی، حدیث نمبر:۶۶۴) ’’صدقہ اللہ کے غصہ کوبجھادیتا ہے اوربری موت کوروکتا ہے‘‘، صدقہ کے ذریعہ سے بیماری سے شفاملتی ہے، اللہ کے رسولﷺ کاارشاد ہے:داووا مرضاكم بالصدقة(صحیح وضعیف الجامع للألبانی، حدیث نمبر:۳۳۵۸)’’صدقہ کےذریعہ سے اپنے بیماروں کاعلاج کرو‘‘، صدقہ سے بلائیں ٹلتی ہیں، اللہ کے رسول ﷺ کاارشاد ہے:باكروا بالصدقة فإن البلاء لا يتخطّاها(مجمع الزوائد، حدیث نمبر:۴۶۰۶)’’صدقہ کرنے میں جلدی کرو؛ کیوں کہ بلائیں اس کوپارنہیں کرسکتیں‘‘، صدقہ کاایک اہم فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ سے گناہوں کی معافی بھی ہوتی ہے، اللہ کے رسولﷺکاارشاد ہے:والصدقة تطفئ الخطيئة كما يطفئ الماء النار(سنن الترمذی، حدیث نمبر:۶۱۴) ’’صدقہ گناہ اس طرح مٹادیتاہے، جس طرح پانی آگ کوبجھادیتا ہے‘‘؛ اس لئے صدقہ کے ذریعہ سے ہمیں بھی اپنے گناہوں کومٹانے کی کوشش کرنی چاہئے۔

۷) عمرہ کی ادائے گی:عمرہ ایک اعلیٰ عبادت ہے اوررمضان المبارک میں اس کی ادائے گی کاثواب ایک حج کے برابرہے، اللہ کے رسولﷺ کاارشادہے:إنَّ عُمْرَةً فيه تَعْدِلُ حَجَّةً(صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۱۷۸۲، صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۱۲۵۶)’’رمضان میں عمرہ کاثواب حج کے برابرہے‘‘، یہی وجہ ہے کہ عام دنوں کے مقابلہ میں عمرہ کی ادائے گی کے لئے رمضان میں زیدہ بھیڑہوتی ہے، پھریہ بات بھی قابل ذکرہے کہ عمرہ بھی ایسے اعمال میں سے ہے، جن سے گناہوں کی معافی ہوتی ہے، اللہ کے رسول ﷺ کاارشاد ہے :العمرة إلى العمرة كفارة لما بينهما(صحیح مسلم، حدیث نمبر:۱۳۴۹، صحیح البخاری، حدیث نمبر:۱۷۷۳)’’ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک درمیان کے گناہوں کے لئےکفارہ ہے‘‘؛ اس لئے صاحب استطاعت کوچاہئےکہ وہ اپنےگناہوں کی معافی کے لئے رمضان میں عمرہ بھی کرنے کی کوشش کریں۔

خلاصہ یہ کہ رمضان المبارک کے درمیانی عشرہ کومغفرت کاعشرہ قراردیاگیاہے، لہٰذا ہمیں چاہئے کہ اس عشرہ میں خاص اہتمام مغفرت طلب کرنے کے لئےکریں اور مذکورہ اعمال طلب مغفرت کے لئے بہترین ذرائع ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطافرمائے، آمین !


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی