قرآن اور ہمارا عمل

قرآن اور ہمارا عمل

قرآن اور ہمارا عمل

انسانی تاریخ میں کسی ایسی کتاب کا وجود نہیں ہوا، جس کی عظمت اس کے ماننے والوں میں قرآن کریم کی طرح پائی جاتی ہواورنہ کسی ایسی کتاب کا ذکرملے گا، جس کوقرآن مجید کی طرح پڑھا اوریاد کیا جاتا ہو، اوراس میں تعجب کی بات بھی نہیں کہ اس کا نام ہی ’’قرآن‘‘ یعنی پڑھی جانے والی کتاب کے ہیں۔

نبی کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے شکایت کرتے ہوئے کہا، جس کا تذکرہ قرآن میں اس طرح ہے:اوررسول نے کہا: اے پروردگار! میری قوم نے اس قرآن کوچھوڑ رکھاہے‘‘، رسول اللہ ﷺ کی شکایت حقیقت پرمبنی ہے اور مسلمانوں کی زندگی میں اس کے چھوڑنے کا اثربھی ظاہر ہے کہ اس پرعمل نہ کرنے کی وجہ سے وہ سراسر نقصان میں ہیں، قرآن کریم کو چھوڑ نے کی متعدد صورتیں ہوسکتی ہیں، ان میں سے:اس پر ایمان نہ لانا اورجوکچھ اس میں ہے، اس کی تصدیق نہ کرنا،اس میں غوروفکرنہ کرنا، اس کے احکام پرعمل نہ کرنا، اس میں منع کردہ چیزوں سے نہ بچنا، اپنی زندگی میں اسے حَکَم اور ثالث کے طورپرنہ دیکھنا، اس کا نہ پڑھنا ، اس کی طرف توجہ نہ دینا، اس کی حفاظت نہ کرنا اور پوری دنیا میں اس کی نشرو اشاعت کی کوشش نہ کرناوغیرہ ہیں۔

جب مسلمانوں نے اس عظیم خزانے اور کامل دستور سے اپنے آپ کو محروم کردیا توانھیں ایسے قوانین کی پناہ لینی پڑی، جو انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں اورانفرادی مصالح پرمبنی ہیں، جس کے نتیجہ میں وہ انتشار، ظلم، نفسیاتی امراض اوررنج وغم میں مبتلا ہوگئے، اپنی تاریخ کوبھول بیٹھے، کفارومشرکین اور منافقین کی حقیقی دشمنی سے غافل ہوگئے اورآزادی وشرافت کے صحیح راستے سے دورجاپڑے، لوگوں نے اللہ کوبھلادیا، جس کے نتیجہ میں خود وہ اپنے آپ کو بھول بیٹھے، قرآن کریم نے کتنی سچی بات کہی ہے:’’اورجومیری یاد سے روگردانی کرے گا، وہ تنگ گزران کا شکار ہوجائے گا‘‘۔

چنانچہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج کے مسلمان کی زندگی ایسی گزررہی ہے، جس میں وہ قرآنی علم، طورطریقے اوراس کے اجروثواب سے محروم ہیں، کتنے افسوس کی بات ہے کہ قرآن کی تلاوت غم اورماتم کے موقع سے ہی کی جاتی ہےاورقرآن کی تلاوت مُردوں کے لئے کی جاتی ہے، جب کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کوزندوں کی مصلحت اوران کے فائدہ کے لئے اتارا تھا؛ تاکہ یہ قرآن ان کے مابین فیصلہ کرسکے اور بہتروافضل راستے کی طرف رہنمائی کرسکےاورآج بھی امت اگراس کومضبوطی کے ساتھ تھام لے، اس کے طریقہ کواختیار کرلےاوراپنی زندگی کواس کی تہذیب پرڈھال لے تواللہ تعالیٰ بلندیوں کی چوٹی پراسے پہنچادےگا، سلطنت وسرداری اس کے قدم چومےگی اورجوجتنا اس سے دورہوگا، اللہ اس سے بھی دور ہوجائے گا، اللہ کے رسول ﷺ نے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:’’اس کتاب کے ذریعہ اللہ تعالیٰ بعض قوموں کو سربلند کرےگا اوربعض کی گردنیں خم کردے گا‘‘۔

لہذااے مؤمنو! اللہ سے ڈرو، اپنے رب کی کتاب کوپڑھو، اپنے بچوں کو اس کی تعلیم دو، اس کے معانی پر غور و فکر کرو اور روئے زمین میں حفظ قرآن اورتعلیم قرآن کے حلقے لگاؤ،اس کی طباعت اورنشرواشاعت کی فکرکرو؛ چنانچہ حدیث میں ہے:’’تم میں بہتروہ شخص ہے، جوقرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے‘‘، ہرمسلمان کوقرآن کے چشمہ سے روزانہ سیراب ہونا چاہئے اور نماز کے لئے مسجد میں جلد آنا چاہئے؛ تاکہ اللہ کی کتاب کی تلاوت کرسکے، اسی طرح قرآن سے ہراس وقت استفادہ کیاجاسکتاہے، جوانتظارکی گھڑیاں ہوتی ہیں، خواہ اس کوحافظہ سے یاد کرکے یاقرآن دیکھ کر یا پھر موبائل میں دیکھ کر۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی