غیرمسلموں کے ساتھ تحفے کالین دین
محمد جمیل اختر جلیلی ندوی
غیرمسلم بھائیوں کاتہوار(ہولی) بالکل قریب ہے، اس موقع سے وہ حضرات مٹھائیاں وغیرہ تقسیم کرتے ہیں، تقیسم کے دوران مسلم دوستوں اور پڑوسیوں کوبھی دیتے ہیں، اسی طرح بہت سارے مسلمان بھی اپنے غیرمسلم دوستوں اور پڑوسیوں کو ان کے تہوار کے موقع سے کچھ تحفے تحائف دیتے ہیں، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کی طرف سے دی جانے والی مٹھائیاں لے کر کھاسکتے ہیں یا نہیں؟ اور ایک مسلمان تہوار کے موقع سے ان کو تحفے سکتا ہے یا نہیں؟
جواب:اس سوال کے اندردو شقیں ہیں:
۱)غیرمسلموں کے تہوار کی مٹھائیاں لے کر کھا سکتے ہیں یا نہیں؟
۲)غیرمسلموں کوتحائف دینا درست ہے یانہیں؟
جہاں تک پہلی شق کا تعلق ہے تواس کا جواب غیرمسلموں کے تہواروں میں دی جانے والی مٹھائیوں کی حیثیت پرموقوف ہے، جس کی دوصورتیں ہیں:
(الف)اگریہ مٹھائیاں بتوں یا دیوی دیتاؤں پرچڑھائے ہوئے ہوں توان کا ان لینا،کھانا اوردوسروں کو دیناسب کے سب ناجائز ہیں، قرآن مجید میں اس کی حرمت پرصریح آیات موجود ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ(البقرۃ:۱۷۳، النحل:۱۱۵)
ایک دوسری آیت میں ہے:
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ(المائدۃ:۳)
ایک اورآیت میں ہے:
قُلْ لَا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنْزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ(الأنعام:۱۴۵)
مذکورہ تمام آیتوں میں ’’وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ‘‘ کے الفاظ آئے ہوئے ہیں،اس آیت کے ذیل میں حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:"یہاں ایک چوتھی صورت اور ہے جس کا تعلق حیوانات کے علاوہ دوسری چیزوں سے ہے، مثلاً مٹھائی، کھانا وغیرہ جن کو غیراللہ کے نام پر نذر (منت) کے طور سے ہندو لوگ بتوں پر اور جاہل مسلمان بزرگوں کے مزارات پر چڑھاتے ہیں، حضرات فقہاء نے اس کو بھی اشتراکِ علت یعنی تقرب الی غیراللہ کی وجہ سے "ما اہل لغیر اللہ" کے حکم میں قرار دے کر حرام کہا ہے، اور اس کے کھانے پینے دوسروں کو کھلانے اور بیچنے خریدنے سب کو حرام کہا ہے" ۔(معارف القرآن:1/ 424، ط: مکتبہ معارف القرآن کراچی)
اس کے تعلق سے علامہ مودودیؒ لکھتے ہیں:
اس کااطلاق اُس جانور کے گوشت پربھی ہوتا ہے، جسے خدا کے سوا کسی اورکے نام پرذبح کیا جائے اوراُس کھانے پربھی ہوتا ہے، جواللہ کے سوا کسی اَورکے نام پربطورنذر کے پکایا جائے۔(تفہیم القرآن:135/1)
علامہ محمد حنیف ندوی لکھتے ہیں:
وماأہل میں وہ سب چیزیں داخل ہیں، جنھیں غیراللہ کے ناموں پر مشہورکیا جائے، یہ اس لئے کہ ایسی چیزیں گوفی نفسہ حلال ہوں؛ لیکن شرک پھیلانے کا موجب بنتی ہیں۔(تفسیرسراج البیان:40/1)
لہٰذا چڑھاوے کی مٹھائیاں لینا، کھانا اور دوسروں کو دینا جائز نہیں۔
(ب)دوسری صورت یہ ہے کہ مٹھائیاں چڑھاوے کی نہ ہوں توپھران کا لینا، کھانا اوردوسروں کو دینا سب درست ہیں، اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
{لا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ}(الممتحنة:8)
اس آیت کے شان نزول کے بارے میں آتا ہے کہ حضرت اسماء بنت ابوبکرؓ کی ماں قیلہ مدینہ آئیں، اس وقت وہ مشرکہ تھیں، وہ اپنی بیٹی کے لئے کچھ ہدایا بھی لے کرآئی تھیں، جن کے لینے سے حضرت اسماء نے انکار کردیا، حضرت عائشہؓ نے اس بابت حضورﷺ سے دریافت کیا، اسی موقع سے یہ آیت نازل ہوئی، پھرآپﷺ نے ہدیہ لینے کاحکم فرمایا:
نزلت في أسماء بنت أبي بكر، وكانت لها أمٌّ في الجاهلية يقال لها: قتيلة بنت عبدالعزى، فأتتها بهدايا وصِنَابٍ وأقط وسمن، فقالت: لا أقبل لك هديةً، ولا تدخلي عليَّ حتى يأذن رسولُ الله صلى الله عليه وسلم، فذَكَرْت ذلك عائشةُ لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فأنزل الله:﴿لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ﴾ [الممتحنة:8](تفسير ابن جرير الطبري:610/25).
خود آپ ﷺ نے غیرمسلم سے ہدیہ قبول فرمایا ہے، بخاری کی روایت ہے:
عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ ، قَالَ:"غَزَوْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَبُوكَ وَأَهْدَى مَلِكُ أَيْلَةَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَغْلَةً بَيْضَاءَ، وَكَسَاهُ بُرْدًا، وَكَتَبَ لَهُ بِبَحْرِهِمْ ".( البخاري:3161، مسلم:1392)
عن أنس بن مالك أن ملك ذي يزن أهدى إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم حلة أخذها بثلاثة وثلاثين بعيرا أو ثلاث وثلاثين ناقة فقبلها(سنن ابی داود،كتاب اللباس،باب في لبس الصوف والشعر، حدیث نمبر:4034)
اسی طرح مشہور تابعی حضرت قتادہ کا قول ہے :لا بأس باکل طعام المجوسي ما خلا ذبیحتہ (مصنف عبد الرزاق:109/6)’’ذبیحہ کے علاوہ مجوسی کا کھانا کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے‘‘، امام قرطبی لکھتے ہیں:و لا بأس باکل طعام من لا کتاب لہ، کالمشرکین و عبدۃ الأوثان، ما لم یکن من ذبائحہم (الجامع لاحکام القرآن:77/6)’’ان لوگوں کا کھانا کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے، جن کے پاس کتاب نہیں ہے، جیسے مشرکین اور بت پرست، بشرطے کہ وہ ان کا ذبیحہ نہ ہو‘‘۔
امام نووی فرماتے ہیں:قبِلَ النَّبِيُّ ﷺ مِمَّنْ طَمِعَ فِي إسْلامِهِ وتَأْلِيفِهِ لِمَصْلَحَةٍ يَرْجُوها لِلْمُسْلِمِينَ وكافَأ بَعْضَهُمْ ورَدَّ هَدِيَّةَ مَن لَمْ يَطْمَعْ فِي إسْلامِهِ ولَمْ يَكُنْ فِي قَبُولِها مَصْلَحَةٌ لِأنَّ الهَدِيَّةَ تُوجِبُ المَحَبَّةَ والمَوَدَّةَ*(شرح النووي على مسلم:١٢/١١٤)اورفقہاء نے بھی غیرمسلم کے ہدیہ کو قبول کرنے کوجائز لکھا ہے؛چنانچہ فتاوی ہندیہ میں ہے:
"فقد روى محمد - رحمه الله تعالى - في السير الكبير أخبارا متعارضة في بعضها أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قبل هدايا المشرك وفي بعضها أنه صلى الله عليه وسلم لم يقبل فلا بد من التوفيق واختلفت عبارة المشايخ رحمهم الله تعالى في وجه التوفيق فعبارة الفقيه أبي جعفر الهندواني أن ما روي أنه لم يقبلها محمول على أنه إنما لم يقبلها من شخص غلب على ظن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أنه وقع عند ذلك الشخص أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم إنما يقاتلهم طمعًا في المال لا لإعلاء كلمة الله و لايجوز قبول الهدية من مثل هذا الشخص في زماننا و ما روي أنه قبلها محمول على أنه قبل من شخص غلب على ظن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أنه وقع عند ذلك الشخص أن رسول الله صلى الله عليه وسلم إنما يقاتلهم لإعزاز الدين ولإعلاء كلمة الله العليا لا لطلب المال وقبول الهدية من مثل هذا الشخص جائز في زماننا أيضا ومن المشايخ من وفق من وجه آخر فقال لم يقبل من شخص علم أنه لو قبل منه لا يقل صلابته وعزته في حقه ويلين له بسبب قبول الهدية وقبل من شخص علم أنه لايقل صلابته وعزته في حقه ولا يلين بسبب قبول الهدية كذا في المحيط لا بأس بأن يكون بين المسلم والذمي معاملة إذا كان مما لا بد منه كذا في السراجية."(كتاب الكراهية، الباب الرابع عشر في أهل الذمة والأحكام التي تعود إليهم،٥ / ٣٤٧ - ٣٤٨، ط: دار الفكر)
ان تمام وضاحتوں سے معلوم ہوا کہ غیرمسلموں کا ہدیہ اگر بتوں پر چڑھایا ہوا نہ ہو تو اسے قبول کیا جاسکتا ہے، کھایا بھی جاسکتا ہے اوران کے دئے ہوئے ہدایا کو دوسروں کوبھی دیا جاسکتا ہے۔
البتہ ہمارے ملک کے ماحول میں بعض غیرمسلم بھائی گئومتروغیرہ کا استعمال بھی کھانے پینے کی چیزوں میں کرتے ہیں، لہٰذا گرکسی کے تعلق سے یہ شبہ بھی ہوکہ وہ کھانے پینے کی چیزوں میں ایسا کچھ کرتے ہیں توان چیزوں کا نہ کھانا درست ہوگا اورنہ دوسروں کو دینا، لینے میں اگرمصلحت ہو تو لے کر اسے جانوروں کو کھلادیں یاپھرضائع کردیں، ہذا من عندی، واللہ اعلم بالصواب!
جس طرح غیرمسلموں کے تحفے قبول کئے جاسکتے ہیں، اسی طرح ان کو دئے بھی جاسکتے ہیں؛ چنانچہ آپ ﷺ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ نے حضرت ابوسفیان کواس وقت ہدیہ عنایت فرمایا ہے، جب کہ وہ حالت شرک میں تھے:
أهدى النبي صلى الله عليه وسلم تمر عجوة إلى أبي سفيان، وهو بمكة قبل أن يسلم، وكتب إليه يستهديه أدما، فأهدى إليه ابو سفيان.(أخرجه ابن زنجويه في كتاب الأموال (٢/ ٥٨٩)
اسی طرح یہ بھی ہے کہ آپﷺ نے حضرت عمرؓ کوایک قیمتی جوڑاعطاکیا، جس کوانھوں نے اپنے مشرک بھائی کو دیدیا:أهدى النبي صلى الله عليه وسلم عمر بن الخطاب حلة ثمينة، فأهداها عمر إلى أخيه بمكة كان يومئذ مشركا،(أخرجه البخاري،حدیث نمبر:٨٨٦)،مسلم، حدیث نمبر:٢٠٨٦)
امام نووی فرماتے ہیں:وفي هذادليل لجواز صلة الأقارب الكفار، والإحسان إليهم، وجواز الهدية إلى الكفار(شرح النووي على صحيح مسلم(١٤/ ٣٩)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے بارے میں آتا ہے کہ جب گھرمیں گوشت وغیرہ پکتا تواپنے گھروالوں سے پوچھتے کہ میرے یہودی پڑوسی کو ہدیہ دئے یا نہیں؟:قال عبدالله بن عمرو لأهله لما ذبحوا له شاة: أهديتم لجارنا اليهودي؟ أهديتم لجارنا اليهودي؟ فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: مازال جبريل يوصيني بالجار حتى ظننت أنه سيورثه.(أخرجه البخاري، حدیث نمبر:٦٠١٥)،مسلم، حدیث نمبر:٢٦٢٤)
اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی ایک طویل حدیث ہے:أنَّ عُمَرَ بنَ الخَطَّابِ، رَأَى حُلَّةً سِيَرَاءَ عِنْدَ بَابِ المَسْجِدِ، فَقَالَ: يا رَسولَ اللَّهِ لَوِ اشْتَرَيْتَ هذِه، فَلَبِسْتَهَا يَومَ الجُمُعَةِ ولِلْوَفْدِ إذَا قَدِمُوا عَلَيْكَ، فَقَالَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: إنَّما يَلْبَسُ هذِه مَن لا خَلَاقَ له في الآخِرَةِ ثُمَّ جَاءَتْ رَسولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ منها حُلَلٌ، فأعْطَى عُمَرَ بنَ الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عنْه، منها حُلَّةً، فَقَالَ عُمَرُ:يا رَسولَ اللَّهِ، كَسَوْتَنِيهَا وقدْ قُلْتَ في حُلَّةِ عُطَارِدٍ ما قُلْتَ؟ قَالَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: إنِّي لَمْ أكْسُكَهَا لِتَلْبَسَهَا فَكَسَاهَا عُمَرُ بنُ الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عنْه، أخًا له بمَكَّةَ مُشْرِكًا.(صحيح البخاري،الرقم:886)أخرجه مسلم (2068)
امام نووی اس تعلق سے لکھتے ہیں:في هذا دليل لجواز الهدية إلى الكفار، وفيه جواز إهداء ثياب الحرير إلى الرجال، لأنها لا تتعين للبسهم وقد يتوهم متوهم أن فيه دليلا على أن رجال الكفار يجوز لهم لبس الحرير، وهذا وهم باطل، لأن الحديث إنما فيه الهدية إلى كافر، وليس فيه الإذن له في لبسها، وقد بعث النبي صلى الله عليه وسلم ذلك إلى عمر وعلي وأسامة ـ رضي الله عنهم ـ ولا يلزم منه إباحة لبسها لهم، بل صرح صلى الله عليه وسلم بأنه إنما أعطاه لينتفع بها بغير اللبس، والمذهب الصحيح الذي عليه المحققون والأكثرون:أن الكفار مخاطبون بفروع الشرع، فيحرم عليهم الحرير كما يحرم على المسلمين.(شرح مسلم للنووي: ١٤/ ٣٩)
ان تمام وضاحتوں سے معلوم ہوا کہ جس طرح غیر مسلموں سے ہدیہ قبول کرنا درست ہے، اسی طرح ان کوعام دنوں میں ہدیہ دینا بھی درست ہے؛ البتہ ان کے خاص تہوار کے دنوں میں تحفے تحائف دینا درست نہیں کہ مبارک باد دینے کی طرح روا روی میں نہیں ہوتا؛ بل کہ اس سے اظہار خوشی لازم آتا ہے،جس سے یک گونہ توثیق وتائید سمجھ میں آتی ہے، جو درست نہیں،قال الزيلعي في "تبيين الحقائق" (حنفي) (6/228):"( والإعطاء باسم النيروز والمهرجان لا يجوز) أي الهدايا باسم هذين اليومين حرام بل كفر، وقال أبو حفص الكبير رحمه الله لو أن رجلا عبد الله خمسين سنة ثم جاء يوم النيروز، وأهدى لبعض المشركين بيضة، يريد به تعظيم ذلك اليوم، فقد كفر،وحبط عمله." انتهى.
علامہ حصکفیؒ فرماتے ہیں:والإعطاء باسم النیروز والمہرجان لا یجوز، أي الہدایا باسم ھذین الیومین حرام۔(الدر المختار ۱۰/۴۸۵زکریا)
ہذا ماعندی،واللہ اعلم بالصواب.
ایک تبصرہ شائع کریں