رمضان المبارک کے اعمال

رمضان المبارک کے اعمال

رمضان المبارک کے اعمال

محمد جمیل اخترجلیلی ندوی

پورے گیارہ مہینوں کے بعد ایک بارپھرہم رحمتوں، برکتوں اورسعادتوں سے بھرپورمہینہ ’’رمضان المبارک‘‘ کے استقبال کے لئے کھڑے ہیں، لہٰذا اس کی خاطرداری میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہونی چاہئے، اس کی آؤ بھگت میں ذرہ برابربھی فرق نہیں آناچاہئے، ہرچیزمیں اس کے شایان شان کا خیال رکھناچاہئے، بالکل اس طرح، جس طرح آپ اپنے اس نئے مہمان کاخیال رکھتے ہیں، جس کے گھر آپ کی بیٹی کارشتہ ہونے والاہو، اس کی آمدپرکس طرح گھرآنگن کی صفائی کی جاتی ہے؟اڑوس پڑوس کواطلاع دی جاتی ہے، کھانے کے لئے مینوتیارکیاجاتاہے، رمضان المبارک کی آمد میں بھی ہمیں اسی طرح کاخیال رکھناچاہئے۔

مہمان کی خاطرتواضع کے لئے رقم صرف کیاجاتاہے؛ لیکن رمضان کی خاطرتواضع کے لئے رقوم خرچ کرنے کی بجائے مندرجہ ذیل کام کئے جانے چاہئیں:

۱-روزہ کااہتمام:روزہ ہرمکلف پرفرض ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’تم پرروزے اسی طرح فرض کئے گئے، جس طرح تم سے پہلے لوگوںپرفرض کئے گئے تھے؛ تاکہ تم تقوی والے بن جاؤ‘‘(البقرۃ:۱۸۳)، یہ روزےہرمکلف پرفرض ہوتے ہیں؛ لیکن مزدورطبقہ کے بہت سارے لوگ مزدوری کابہانہ کرکے روزہ رکھنے سے کتراتے ہیں، یادرکھئے! اللہ کے یہاں کسی بھی قسم کی بہانہ بازی نہیں چلےگی، لہٰذا روزہ کاہرحال میں اہتمام کیجئے؛ الایہ کہ کوئی شرعی عذرہوتومقامی معتبرمفتی صاحب سے رجوع کریں اوران کے کہنے کے مطابق عمل کریں۔

۲-ہرعضوکاروزہ رکھاجائے:روزہ صرف اس کا نام نہیں ہے کہ ایک شخص صبح سے شام تک بھوک کی شدت کوجھیلے اور پیاس کی تپش کو برداشت کرے اوربس؛ بل کہ روزہ کی حقیقت یہ ہے کہ انسان کا ہرہرعضوروزہ رکھے، ورنہ اسلامی اور غیر اسلامی روزہ (برت) میں کیا فرق رہ جائے گا؟ بطن (پیٹ) اورفرج (شرم گاہ) کے رو زہ سے فرض کی ادائے گی تو ہوسکتی ہے؛ لیکن روزہ کے اعلیٰ مقاصد کاحصول نہیں ہوسکتا، اعلیٰ مقصد تواُسی وقت حاصل ہوگا، جب اعلیٰ طریقہ سے روزہ رکھاجائے، حدیث پاک میں ہے:’’روزہ صرف کھانے پینے کے ترک کانام نہیں؛ بل کہ لڑائی جھگڑے اورلغوچیزوں کاترک بھی ضروری ہے، چنانچہ اگرکوئی تمہیں گالی دے یا اُجٹ پنے کے ساتھ پیش آئے توتم اس سے کہدوکہ میں  روزہ سے ہوں،نہ گالی بک سکتاہوں اورنہ ہی جھگڑا کرسکتا ہوں‘‘ (سنن کبریٰ للبیھقی، حدیث نمبر:۸۳۹۶)، پیٹ اورشرم گاہ کے روزہ کے ساتھ ساتھ آنکھ، کان، زبان، ہاتھ، پیراوردیگرتمام اعضاء کابھی روزہ ہو،حضرت جابرؓ کا قول ہے کہ جب روزہ رکھوتواپنے کان، اپنی نگاہ اوراپنی زبان کوجھوٹ اوردوسرے گناہوں سے بچاؤ( مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر:۸۹۷۳)، نگاہ ہرگزاللہ کے ذکرسے غافل کرنے والی چیز کی طرف نہ اُٹھے، کان ہرگزبے ہودہ اورفحش چیزیں نہ سنیں، زبان غیبت، چغلی، جھوٹ، ہرزہ سرائی اورگالی گلوج سے کوسوں دور رہے، آپ ﷺ کاارشادہے:ماصام من ظلّ یأکل لحوم الناس۔(المصنف لابن ابی شیبۃ، حدیث نمبر:۸۹۸۳)، اس نے روزہ ہی نہیں رکھا، جس نے غیبت کی، ہاتھ غلط کاموں کی طرف ہرگزنہ بڑھیں، پیرمکروہ اورناپسندیدہ امور کی طرف ہرگز نہ اُٹھیں، حدیث شریف میں منقول ہے:من لم یدع قول الزور والعمل بہ، فلیس للہ حاجۃ فی أن یدع طعامہ وشرابہ۔(بخاری، حدیث نمبر:۱۹۰۳)، جوشخص جھوٹ بولنا اور غلط اعمال کرنا نہ چھوڑے، اللہ تعالیٰ کو صرف اس کے کھانے پینے کے ترک ضرورت نہیں، حرام غذا پیٹ میں ہرگز نہ جانے پائے؛ بل کہ مشتبہ چیزوں سے بھی بچاجائے، یہ ہے اعلیٰ درجہ کاروزہ! یہ ہے صالحین کا روزہ!

۳-فرائض کااہتمام:اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پرجوچیزیں فرض کی ہیں، ان کی ادائے گی ہرحال میں ضروری ہے، ادانہ کرنے کی صورت میں گناہ ہوگا اوراس کی سزابھگتنی ہوگی، پھرفرائض میں بھی نمازکی بہت زیادہ اہمیت ہے اورقیامت کے دن اعمال میں سب سے پہلے اسی کے بارے میں پوچھ کچھ ہوگی، اللہ کے رسولﷺ کاارشادہے:’’قیامت کے دن بندوں کے عمل میں سے جس چیزکاسب سے پہلے حساب لیاجائے گا، وہ نمازہے‘‘(ابوداود، حدیث نمبر:۸۶۴)، گیارہ مہینے اس میں ہم سے کوتاہی ہوتی رہتی ہے، رمضان میں کوتاہی بالکل بھی نہیں ہونی چاہئے کہ رمضان میں ایک فرض کاثواب سترگنا بڑھا دیا جاتا ہے(المطالب العالیہ، حدیث نمبر:۱۰۰۶)،اورظاہرہے کہ جب ثواب بڑھایا جاتاہے توگناہ میں بھی شدت پیداہوسکتی ہے؛ اس لئے فرائض کی ادائے گی میں ہمیں کوتاہی نہیں کرنی چاہئے۔

۴-تلاوت قرآن کااہتمام:قرآن مجیدکی تلاوت بڑے ثواب کا کام ہے، اس کے ہرلفظ پردس نیکیاں ملتی ہیں، اللہ کے رسول ﷺ کا ارشادہے:من قرأحرفامن کتاب اللہ فلہ حسنۃ، والحسنۃ بعشرأمثالہا، لاأقول الم حرف؛ ولکن ألف حرف، ولام حرف، ومیم حرف۔(سنن الترمذی، حدیث نمبر:۲۹۱۰) ’’جس نے کتاب اللہ کاایک حرف پڑھا، اس کے لئے ایک نیکی ہے اور(اللہ تعالیٰ کے اصول کے مطابق ہر)نیکی دس گناہواکرتی ہے، میں نہیں کہتاکہ الم ایک حرف ہے؛ بل کہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے اورمیم ایک حرف ہے‘‘، دوسرے دنوں میں بہت سارے بھائیوں کوتلاوت کا موقع نہیں ملتاہے، اس مہینہ میں یہ موقع ہے، اس کافائدہ اٹھائیں اورجتناہوسکے، روزانہ تلاوت کامعمول بنائیں، اگرقرآن دیکھ کرپڑھ سکتے ہیں توضرورپڑھیں، اگردیکھ کرنہیں پڑھ سکتے توجتنایادہے، اسی کودہراتے رہیں، اورجوقرآن کی تلاوت کرے، اس کے پاس بیٹھ کرسنیں، اس میں بھی ثواب ہے۔

۵-ذکرواذکارکی کثرت:عام دنوں عمومی طور پر ذکرو اذکار کا اہتمام نہیں ہوپاتاہے، رمضان المبارک کے دنوں کی رعایت میں دوسرے الٹے سیدھے کاموں میں مشغول ہونے کی بجائے ذکرواذکارمیں مشغول ہوناکافی منافع بخش رہے گا، ذکرکی وجہ سے دلوں  کوسکون محسوس ہوتاہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’سن لو! اللہ کے ذکرسے دل مطمٹن ہوتے ہیں‘‘ (الرعد:۲۸)، نیزلایعنی اوربے کارچیزوں میں مشغول ہونے کے بجائے ذکرمیں مشغول رہناباعث ثواب بھی ہے، اللہ کے رسول ﷺ کا ارشادہے:جوشخص’’لاإلٰہ إلااللہ وحدہ لاشریک لہ، لہ الملک ولہ الحمدوہوعلی کل شیٔ قدیر‘‘دن میں سومرتبہ کہے تودس غلام آزاد کرنے کے برابرثواب ہے اوراس کے لئے سونیکیاں لکھی جائیں گی اورسوگناہ مٹادئے جائیں گے اوراس دن شام تک شیطان سے وہ محفوظ رہے گا‘‘(بخاری، حدیث نمبر:۶۴۰۳، مسلم، حدیث نمبر:۲۶۹۱)؛ اس لئے ہمیں ذکرکاکثرت سے اہتمام کرناچاہئے۔

۶-توبہ واستغفارکااہتمام:ہرانسان سے غلطی اورچوک ہوتی رہتی ہے، ان غلطیوں کی معافی مانگتے رہناچاہئے، خود اللہ کے رسول ﷺ دن میں سترمرتبہ سے زائد استغفار کیا کرتے تھے(بخاری، حدیث نمبر:۶۳۰۷)، جس طرح نبی کریم ﷺ خوداستغفارکرتے تھے، اسی طرح لوگوں کواس کاحکم بھی فرماتے تھے؛ چنانچہ حضرت اغربن یسارمزنیؓ حضرت ابن عمرؓ کے حوالہ سے فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:توبوا إلی اللہ واستغفروہ، فإنی أتوب فی الیوم مائۃ مرۃ۔(مسلم، حدیث نمبر:۲۷۰۲)’’اللہ سے توبہ اوراستغفارکرو، میں دن میں سو مرتبہ توبہ کرتاہوں‘‘؛ اس لئے رمضان جیسے مبارک مہینے میں کثرت سے توبہ واستغفارکرناچاہئے۔

۷-تہجدکی پابندی:رات میں نمازپڑھنے کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے،قرآن مجیدمیں بھی اس کی ترغیب دی گئی ہے(المزمل:۲۰)، اس نمازکی خاص فضیلت یہ ہے اللہ تعالیٰ سے قربت کاذریعہ ہے، ایک تونفل کے اہتمام کی وجہ سے، دوسرے نیند میں خلل پیدا کرکے رب کے سامنے سجدہ ریز ہونے کی وجہ سے، تیسرے ایسے وقت میں اس کی ادائے گی کی وجہ سے، جب کہ اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پراترآتاہے اورچوتھے اس وجہ سے کہ اس کی ادائے گی اس وقت ہوتی ہے ، جب کہ پوری دنیا خواب خرگوش میں رہتی ہے، جوشخص اس نماز کی پابندی کرتاہے، اس کاشمار’’عبادالرحمن‘‘میں ہوتاہے، اللہ کے رسولﷺ اس نماز کابہت اہتمام فرماتے تھے؛ یہاں تک کہ سفرمیں بھی ترک نہیں فرماتے تھے؛ چنانچہ حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سفرمیں (نمازقصر) دورکعتیں پڑھاکرتے تھے ؛ البتہ رات میں تہجد بھی پڑھتے تھے (مسند احمد، حدیث نمبر:۵۵۹۰)، تہجد کی پابندی کرناخاص طور پر رمضان المبارک میں ہمارے لئے مشکل نہیں ہے کہ ہم سحری کے لئے اٹھتے ہی ہیں، بس دس منٹ پہلے اٹھ جائیں اور تہجد بھی پڑھ لیں۔

۸-تراویح کااہتمام:رمضان المبارک میں قیام لیل(تہجد)کے علاوہ ایک اور نماز کا اہتمام کیاجاتاہے اوراس نماز کا اہتمام تسلسل کے ساتھ ساڑھے چودہ سوسال سے ہوتاچلاآرہاہے، آپ ﷺنے اپنے عہد میں تین دن اہتمام فرمایاتھا اورلوگوں پر فرض ہونے کے اندیشہ سے پھرترک فرمادیاتھا(بخاری، حدیث نمبر:۲۰۱۲)، اس کے بعدلوگ اپنے اعتبارسے پڑھا کرتے تھے، حضرت عمرؓ نے اپنے عہد میں تمام لوگوں کوایک امام کے پیچھے بیس رکعت پرجمع کردیاتھا، آج تک وہی اہتمام چلتا چلا آرہاہے، لہٰذا اس کی پابندی کرنی چاہئے اوررمضان المبارک کا مہینہ توبرکتوں اوررحمتوں کاہی مہینہ ہے ، پھر ہر نفل کا ثواب فرض کے برابرکردیاجاتاہے تواس ثواب کوحاصل کرنے کی ہمیں سعی کرنی چاہئے۔

۹-روزہ افطارکرانے کااہتمام:معاشرہ کے اندرکچھ لوگ غریب بھی ہوتے ہیں، دولت مندوں کوچاہئے کہ رمضان میں ان کے افطارکا بندوبست کریں، ایساکرنے سے افطارکرانے والوں کو اتناہی ثواب ملے گا، جتناکہ روزہ رکھنے والے کوملتاہے، اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے:’’جس کسی نے روزہ دار کو افطار کرایا تواس کواتناہی ثواب ملے گا، جتناکہ روزہ رکھنے والے کوملتاہے اوراس کے اجرمیں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں کی جائے گی‘‘(سنن ترمذی، حدیث نمبر:۸۰۷)، لہٰذاجولوگ صاحب استطاعت ہیں، انھیں اس موقع کافائدہ اٹھاناچاہئے۔

۱۰-صدقہ وخیرات:صدقہ وخیرات کرنے کاحکم عام دنوں میں بھی ہے، اس سے غریبوں کی مددبھی ہوتی ہے اورخیرات کرنے والابلاؤں سے محفوظ بھی رہتاہے؛ لیکن رمضان میں چوں کہ نفل کاموں کاثواب فرض کے برابرہوجاتاہے(المطالب العالیۃ، حدیث نمبر:۱۰۰۶)؛ اس لئے رمضان میں کثرت سے صدقہ وخیرات کرناچاہئے، خودرسول اللہ ﷺکے بارے میں آتا ہے کہ رمضان المبارک میں آپ ﷺ کی سخاوت ہواؤں سے تیزہوجاکرتی تھی(مسلم بشرح النووی، حدیث نمبر:۲۳۰۸)، ہم آپﷺ کی امتی ہیں، لہٰذا ہمیں بھی استطاعت کے بقدر سخاوت کرنی چاہے۔

۱۱-اعتکاف:رمضان المبارک کاایک اہم عمل ’’اعتکاف‘‘ بھی ہے، یہ حکم کے اعتبارسے سنت علی الکفایہ ہے، یعنی محلہ کی پنج وقت نمازوالی مسجد میں محلہ کے کسی فردنے بھی اعتکاف کرلیاتوتمام محلہ والوں کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گا، بہ صورت دیگرسارے محلہ والے گناہ گارہوں گے، رمضان المبارک کے اس اعتکاف کی مدت دس دن ہے، جس کی ابتداء بیس تاریخ کے سورج ڈوبنے کے بعدسے شرو ع ہوتی ہے اورشوال کاچاندنظرآنے تک اس کاوقت چلتارہتاہے، رمضان المبارک کے اس دس دن کااعتکاف خودرسول اللہﷺ بھی کیاکرتے تھے؛ چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ ﷺرمضان کے اخیرعشرہ کااعتکاف کرتے تھے(مسلم، حدیث نمبر:۱۱۷۱)، لہٰذا ہمیں بھی اس کااہتمام کرناچاہئے۔

۱۲-لیلۃ القدرکی تلاش:رمضان کے اخیرعشرہ کاایک اہم کام’’شب قدر‘‘کی تلاش ہے، یہ عددکے اعتبارسے ہے توایک رات ہے؛ لیکن قدروقیمت کے اعتبارسے ہزار مہینوں سے افضل ہے، قرآن مجید ہے:’’لیلۃ القدرہزارمہینوں سے بہتر ہے‘‘(القدر:۲)، اللہ کے رسولﷺ نے رمضان کے اخیرعشرہ کی طاق راتوں میں (21,23,25,27,29)میں اسے تلاش کرنے کا حکم فرمایاہے، ارشادفرمایا:’’اس رات کورمضان المبارک کے اخیرعشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو‘‘(الجمع بین الصحیحین، حدیث نمبر:۱۲۷۱)، اس ایک رات میں اگرکوئی عبادت کرلیتاہے تواسے ہزارمہینوں یعنی ۸۳/سال ۴/مال کی عبادت کاثواب ملتاہے، یہ تو’’کم خرچ بالانشین ‘‘والاہوا، عبادت صرف ایک رات کرنی ہے اورثواب تراسی سال کاحاصل کرناہے؛ اس لئے اس سے ضرورفائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔

۱۳-صدقۂ فطرکی ادائے گی:محتاجوں کے تعاون کی جن شکلوں کوصاحب نصاب بندوں پرلازم کیاگیاہے، ان میں سے ایک صدقۃ الفطر بھی ہے، ’’صدقۃ الفطر ‘‘ اس صدقہ کو کہا جاتا ہے، جورمضان المبارک کے روزہ افطارکی وجہ سے لازم ہوتا ہے، یعنی اس کے واجب ہونے کاسبب افطار(شوال کا چاند دیکھ کرروزہ کھولنا) ہے، اس کی دوبنیادی حکمتیں  ہیں:(۱)محتاجوں کاتعاون:صدقۃ الفطرکااہم مقصد یہ ہے کہ محتاج لوگ بھی اسی طرح خوشیاں منائیں، جس طرح مالدارحضرات عید کی خوشیاں مناتے ہیں، ان کے گھرمیں بھی اسی طرح سویاں اورلچھاتیارہوں، جس مالداروں کے گھرمیں تیارہوتے ہیں اور ان کے بچوں کے لباس بھی اسی طرح خوش منظرہوں، جس طرح مالداروںک ے بچوں کے ہوتے ہیں۔(۲)لغووبرائی سے پاک کرنے کاذریعہ:اس کادوسرامقصد یہ ہے کہ یہ صدقہ روزہ دارکے لئے ان برائیوں اورلغوامورسے پاک کرنے کاذریعہ بنے، جواس سے سرزد ہوگئے ہیں ، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’رسول اللہ ﷺ نے لغوورفث سے روزہ دارکوپاک کرنے اور مسکینوں کی غذا کے طورپرزکات فطرکوفرض کیا، جس نے (عید) کی نماز سے پہلے اسے ادا کیا تویہ مقبول زکات ہوگی، اور جس نے نماز کے بعد اداکیاتو(اس صورت میں) یہ عام صدقات کے مثل ہے‘‘(ابوداود،حدیث نمبر:۱۶۱۱)، اب ایک اہم سوال یہ پیداہوتاہے کہ صدقۃ الفطر کی ادائے گی کن چیزوں کے ذریعہ سے کی جائے گی؟اس سلسلہ میں پانچ اشیاء کاذکراحادیث میں مذکورہے:(۱)شعیر(جو)(۲)تمر(کھجور)(۳)زبیب(کشمش (۴)اقط(پنیر)(۵)طعام(غلہ)، حضرت ابوسعیدخدریؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں:’’رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں ہم ایک صاع غلہ، یا ایک صاع جو، یا ایک صاع کھجور، یا ایک صاع کشمش ، یاپھرایک صاع پنیرزکات فطر(صدقۂ فطر) میں نکالتے تھے‘‘(سنن الترمذی، حدیث نمبر:۶۷۳، صحیح البخاری، حدیث نمبر:۱۵۰۶)،جوشخص جَو، کھجور، کشمش اورپنیرسے ادا کرنا چاہے تووہ ایک صاع (تقریبا: 3.180grmsتین کلوایک سواسی گرام) کے حساب سے اداکرے؛البتہ اگرگیہوں سے ادا کرنا چاہتا ہے تونصف صاع(تقریباً:1.590grmsایک کلوپانچ سونوے گرام) کے حساب اداکرے۔یہ ہیں کچھ وہ کام، جو ہمیں رمضان المبارک میں خصوصیت کے ساتھ کرناچاہئے، اللہ تعالیٰ ہم سب کواس کی توفیق عطافرمائے، آمین!


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی