بنیادی حقوق اوران کی حفاظت

بنیادی حقوق اوران کی حفاظت

بنیادی حقوق اوران کی حفاظت

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

سولہویں صدی کی صبح ہندوستان جنت نشان کے لئے بدقسمتی کا سورج لئے ہوئے طلوع ہوئی، جب برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی (British East India) کویہاں سے تجارت کرنے کا پروانہ ملا، ابتداءً ان کا تجارتی تعلق جاوااورسماتراوغیرہ سے تھا، جس کی وجہ سے انھوں نے 1613ء میں سورت میں اپنی پہلی کوٹھی قائم کی اور یہ گویا قبضہ کی پہلی بنیاد تھی، پھرجب 1623ء میں ان علاقوں میں تجارت کرنے سے انھیں روک دیا گیا توانھوں نے پوری توجہ ہندوستان کی طرف مبذول کردی۔

کہنے کوتویہ ایک تجارتی کمپنی تھی؛ لیکن پس پردہ علاقائی تسخیر کا کام بھی کرتی تھی، یہی وجہ ہے کہ اس کمپنی کے پاس اپنی فوج تھی، جن لوگوں کا مقصد صرف تجارت ہوتاہے، ان کی اپنی فوج کہاں ہوتی ہے؟ اور ہندوستان کی بد قسمتی ہے کہ اس دورمیں اس کوایسے بادشاہ میسر ہوئے، جو حکمرانی سے زیادہ اپنی عیش وعشرت کے دل دادہ تھے، نتیجہ یہ ہواکہ رفتہ رفتہ مختلف علاقوں میں باہر سے آئے ہوئے تاجر قابض ہوتے گئے اور1757ء میں جنگ پلاسی کے بعد ان کا کنٹرول بنگال کے چوبیس پرگنوں پر ہوگیا، جس کی وجہ سے ان کے حوصلے مضبوط اورمستحکم ہوتے چلے گئے، رفتہ رفتہ وہ اس پوزیشن میں آگئے کہ اپنی بات بزورطاقت منوائیں، بس پھرطاقت کے نشہ نے انھیں چور کردیا اوروہ ہندوستانی باشندوں سے غلاموں کا ساسلوک کرنے لگے، ان پرظلم وستم کے پہاڑتوڑنے لگے۔

اٹھارہ سوستاون (1857ء) تک انھوں نے ملک کے اکثر حصوں پرقبضہ جما لیا تھا،جس کے لئے انھوں نے خود ہندوستانی باشندوں کا بھی استعمال کیا تھا، اپنی فوج میں بھی انھیں جگہ دے رکھی تھی؛ لیکن دن بہ دن ملک کے مختلف علاقہ جات پر قبضہ کرنے کی وجہ سے عام لوگوں کے ذہنوں میں تشویش پیدا ہوچکی تھی اورکچھ لوگوں کے دلوں میں ان کے خلاف لاوا پکنے لگا تھا، اس لاوا کوبھڑکانے کا کام اس خیال نے کیا کہ بندوقوں میں استعمال ہونے والے کارتوس گائے اور خنزیرکی چربی سے آلودہ ہوتے ہیں، جن کو بندوقوں میں ڈالنے سے پہلے دانت سے کاٹنا ضروری ہوتا تھا،جوکہ ہندو و مسلم قوم کے لئے مذہبی اعتبارسے گوارا نہیں تھا، ان وجوہات کی بنا پر1857ء میں انگریزوں کے خلاف ہندوستانی باشندوں کی طرف سے پہلی باقاعدہ مسلح جنگ تھی، جوعدم قیادت اور دشمن کے مقابلہ میں عدم منصوبہ بندی وآلات حرب وضرب کی کمی کے نتیجہ میں ناکام رہی ، اس ناکامی کو انگریزوں نے ’’غدر‘‘ کا نام دیا۔

یہاں رک کرسوچئے! آپ کا گھر، آپ کی زمین ، آپ کی جائدادیں اور آپ کے مال ومتاع پراگرکوئی قبضہ کرلے توآپ کیا کریں گے؟ بحالی کے لئے تگ ودو کریں گے یا نہیں؟ اورآپ کی اس تگ ودو کو جائزسمجھاجائے گا یا ناجائز؟اورآپ کی اس تگ ودوکوکیا قابض شخص سے غداری کہلائے گا یا حق کے حصول کے لئے جدوجہد؟ پھراگر وہ قابض شخص آپ پردھونس بھی جمائے توآپ کب تک برداشت کریں گے؟ اورجب بے برداشت ہوکراپنے حقوق کے حصول کے لئے لڑیں گے اوراس قابض شخص کے خلاف آواز بلند کریں گے تو کیا یہ کوشش غداری کہلائے گی؟اورکیااس کے لئے آپ کوغداری کی سزادی جاسکتی ہے؟ ظاہرہے کہ دنیا کے کسی بھی قانون میں اپنے حق کے لئے کی گئی لڑائی کو غداری نہیں کہا جاتا اور آج کی دنیا میں تو بالکل بھی نہیں؛ کیوں کہ اقوام متحدہ کی جانب سے ۱۰/دسمبر۱۹۴۸ء میں’’انسانی حقوق کاعالمی منشور‘‘ منظور کر کے اس کاعام اعلان کیاگیاہے، جس کے دفعہ نمبر(۱۷) میں ہے:(۱) ہرانسان کوتنہا یا دوسرے سے مل کرجائداد رکھنے کا حق ہے۔(۲)کسی شخص کوزبردستی اس کی جائداد سے محروم نہیں کیا جائے گا، دفعہ نمبر(۱۸) میں ہے:ہرانسان کوآزادیٔ فکر، آزادیٔ ضمیر اورآزادیٔ مذہب کا پورا حق ہے، دفعہ نمبر (۱۹) میں ہے: ہرشخص کواپنی رائے رکھنے اوراظہاررائے کی آزادی کاحق حاصل ہے۔

یہ وہ حقوق ہیں، جوانسان کے بنیادی حق کے طورپراقوام متحدہ میں مظورشدہ ہیں، اب ظاہرہے کہ جس انسان سے اس کے یہ حقوق چھین لینے کی کوشش ہوگی تواسے اپنے ان حقوق کے دفاع کا پوراپوراحق حاصل ہوگا، اس کے لئے کی جانے والی کوشش حق کے حصول کی کوشش کہلائے گی، اس کے خلاف آوازبلند کرنے کی آزادی ہوگی اوراگرحق کے حصول کی اس لڑائی میں کوئی ساتھ دے تواسے دینے کا حق ہوگا اور اگر اس ساتھ دینے والے کا شکریہ ادا کیا جائے تووہ قابل مؤاخذہ نہیں گردانا جائے گا۔

بس ہر انسان کوچاہئے کہ وہ اپنے حقوق کو پہچانے اور ان کے چھینے جانے پر ان کا دفاع کرے، حقوق کی حفاظت کے لئے اولاً قانونی چارہ جوئی کرے، اگروہاں کامیابی نہیں ملتی تو پھر اس کے لئے لڑائی بھی لڑے؛ کیوں کہ آج کی دنیا طاقت کی پجاری ہے، طاقت ہے تو حقوق کی حفاظت بھی ہے اور آپ کی عزت بھی!

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی