نظام زکات کے لئے منصوبہ بندی کی ضرورت

نظام زکات کے لئے منصوبہ بندی کی ضرورت

نظام زکات کے لئے منصوبہ بندی کی ضرورت

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

انسانی فطرت بنیادی طورپردوچیزوں کی متقاضی ہوتی ہے،ایک یہ کہ وہ ایک اچھا اورشریف انسان بن کرزندگی گزارے، اس کے لئے وہ باطنی صفائی کی طرف توجہ دیتاہے اورباطنی صفائی کے لئے اس طریقہ کواپنانے کی کوشش کرتاہے، جواس کے پیداکرنے والے نے بتایاہے؛ چنانچہ کبھی وہ نماز پڑھتاہے، کبھی روزہ رکھتاہے اورکبھی اورادواذکار میں مشغول ہوتاہے،باطنی صفائی کے اس مجموعہ کوہم ’’روحانیت‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔

دوسری چیز، جس کا انسانی فطرت تقاضا کرتی ہے، یہ ہے کہ وہ جب تک بقیدِ حیات رہے، اچھے رکھ رکھاؤ کے ساتھ رہے،کھانے پینے میں تنگی کی شکایت نہ ہو، پہننے اوڑھنے میں کمی کا احساس نہ ہو اوررہن سہن میں محتاجی محسوس نہ کرتا ہو، اس کے لئے وہ معاشی تگ ودَوْکرتاہے اوراس طریقہ پردولت کمانے کوشش کرتاہے، جواس کے پالنے والے رازق نے بتایاہے؛ چنانچہ کبھی وہ تجارت کرتاہے، کبھی مزدوری کرتاہے اورکبھی نفع کے دوسرے حلال ذرائع اختیار کرتا ہے، معاشی تگ ودَوْ کے اس مجموعہ کوہم’’مادیت‘‘ کا نام دے سکتے ہیں۔

یہ وہ دوبنیادی چیزیں ہیں،جوہرانسان کی فطرت میں کمی بیشی کے ساتھ پائی جاتی ہیں اوریہ چیزیں ایسی نہیں ہیں کہ انھیں ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھاجائے؛ کیوں کہ خوداللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے حصول کے لئے نہ صرف یہ کہ انسانوں کوطریقے بتائے ہیں؛ بل کہ ان کی یافت کے لئے دعاء بھی سکھائی ہے؛ چنانچہ ارشاد ہے:رَبَّنَاآتِنَافِیْ الدُّنْیَاحَسَنَۃً وَ فِیْ الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً(البقرۃ:201)’’ائے ہمارے پالنہار! ہمیں دنیا میں بھی ’’حسنہ‘‘عطافرمااورآخرت میں بھی ’’حسنہ‘‘سے نواز‘‘ ،اکثر اہلِ علم کے نزدیک دنیاوی حسنہ سے مراد دنیاوی نعمتیں اور اخروی حسنہ سے مراد آخرت کی نعمتیں ہیں، مفسرقرطبیؒ لکھتے ہیں:والذی علیہ أکثرأہل العلم أن المراد بالحسنتین:نعم الدنیا والآخرۃ (تفسیرقرطبی:2/432)’’اکثراہل علم کے نزدیک حسنتین سے مراد دنیاوآخرت کی نعمتیں ہیں‘‘۔

روحانیت کا تعلق مکمل طورپرانسان کی اپنی ذات سے ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کے حصول کے بعد اسے خرچ کرنے کا حکم نہیں دیاگیاہے، جب کہ مادیت انسان کی اپنی ذات کے ساتھ ساتھ دوسرے بنی آدم سے بھی متعلق ہوتی ہے، اسی لئے اسے گن گن کرجمع کرنے کی اجازت نہیں؛ بل کہ اس کے خرچ کرنے کا حکم دیاگیاہے۔ ارشاد ہے:أَنفِقُواْ مِن طَیِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ (البقرۃ:267)’’تم اپنی حلال کمائی میں سے خرچ کرو‘‘۔

اب اس کے خرچ کرنے کے دوطریقے ہوسکتے ہیں:ایک یہ کہ انسان خود مستحق کودے اوردوسرے یہ کہ ہرشخص کسی ایک خزانہ میں اپنامال جمع کرے اوروہاں سے مستحقین کو تقسیم کیاجائے، جس خزانہ میں مال جمع ہوتاہے، اسے اسلامی اصطلاح میں ’’بیت المال‘‘ کہا جاتا ہے، آپ ﷺکے زمانہ میں باقاعدہ بیت المال کا وجود نہ تھا، صدقات وغنائم جتنے آتے، مسجدِ نبوی سے سارے تقسیم کردئے جاتے تھے،حضرت ابوبکر صدیق ؓکے عہدخلافت میں گرچہ بیت المال کے وجود کا ذکر ملتاہے؛ لیکن یہ بات بھی تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے کہ اس میں مال جمع کرکے رکھنے کی نوبت نہیں آتی تھی؛ چنانچہ آپ ؓ کی تدفین کے بعد جب بیت المال کھولاگیا توبجزایک درہم کے کچھ بھی نہ تھا(دیکھئے:الطبقات الکبریٰ لمحمد بن سعد البصری:3/213،روایت نمبر:3564)؛ اس لئے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ بیت المال کا باقاعدہ نظم اولیات عمرؓ میں سے ہے، علامہ سیوطی ؒ حضرت عمرؓکی اولیات کاذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں:وأول من اتخذ بیت المال(تاریخ الخلفاء:1/123، تحقیق:محمد محی الدین عبد الحمید)’’اوراولین بیت المال بنانے والے(حضرت عمرؓ ہیں )‘‘۔

بیت المال میں جواموال جمع کئے جاتے تھے، وہ بنیادی طورپرزکوٰۃ، عشر، جزیہ، خراج، غنیمت اورفئی ہواکرتے تھے، پھران کی تقسیم بھی مختلف مصارف میں ہواکرتی تھی؛ چنانچہ زکوٰۃ اورعشرکوتواُنھیں کےمصارف میں صرف کیاجاتاتھا، جن کاذکراللہ تعالیٰ نے{إنَّمَاالصّدَقَاتُ لِلْفُقَرَائِ وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْہَاوَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِیْ الرِّقَابِ وَالْغَارِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ}(التوبۃ:60)’’بلاشبہ زکوٰۃ فقراء، مساکین، زکوٰۃ وصول کرنے والے، مؤلفۃ القلوب(جن لوگوں کی دلداری مقصودہو جیسے: نومسلم ) غلام آزاد کرنے میں اورقرض داروں کے لئے اوراللہ کی راہ میں اورمسافروں کے لئے (فرض) ہے‘‘ میں کیا ہے؛ البتہ حضرت عمرؓ نے اپنے دورخلافت میں مؤلفۃ القلوب کے مصرف کویہ کہتے ہوئے ساقط کردیاتھاکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اب اسلام کوسربلندی عطافرمادی ہے؛ اس لئے اس مصرف کی ضرورت باقی نہیں رہی(تفسیر ابن کثیر:4/167،تحقیق: سامی محمدبن سلامہ،ط:دارطیبہ للنشروالتوزیع 1420ھ، الدر المنثور:4/224، ط: دارالفکربیروت 1993ء)۔

جزیہ اورخراج سے خلفاء، عمال ، آلِ بیت اورفوجیوں کو وظیفہ دیاجاتا تھا، اسی طرح علماء وفضلاء کی بھی کفایت اسی مدسے کی جاتی تھی، غنائم اورفئی کوقرآن مجیدمیں مذکور وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَیْْء ٍ فَأَنَّ لِلّہِ خُمُسَہُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِیْ الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ(الأنفال:41)’’جان لوکہ تم جس قسم کی جوکچھ غنیمت حاصل کرو، اس میں سے پانچواں حصہ تواللہ کاہے اوررسول کا، اورقرابت داروں کا، اوریتیموں اور مسکینوں کا اورمسافروں کا‘‘اورمَا أَفَاء  اللَّہُ عَلَی رَسُولِہِ مِنْ أَہْلِ الْقُرَی فَلِلَّہِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِیْ الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ(الحشر:7)’’بستیوں والوں کا، جو(مال)اللہ تعالیٰ تمہارے لڑے بھڑے بغیراپنے رسول کے ہاتھ لگائے، وہ اللہ کاہے اوررسول کا، اورقرابت والوں کا، اور یتیموں اور مسکینوں کا، اور مسافروں کا‘‘ مصارف میں تقسیم کیا جاتا تھا، اسی مدسے غازیوں کو بھی حصہ دیا جاتا تھا، سرحدوں کی حفاظت میں بھی صرف کیا جاتا تھا، پلوں کی تعمیربھی ہوتی تھی اوردیگرعسکری ضروریات کی بھی تکمیل کی جاتی تھی(تفصیل کے لئے دیکھئے:امیرالمؤمنین عمربن الخطاب للدکتورعلی محمدصلابی: 1/208-215،نیز دیکھئے:رد المحتار،کتاب الجہاد،باب العشر و الخراج:8/348- 349)۔

ہمارے ملک ہندوستان میں زکوٰۃ اورعشرکی مدات ہی پائی جاتیں ہیں، پھران کی ادائے گی بھی فرداًفرداً کی جاتی ہے، ایسا نہیں ہے کہ فرداً زکوٰۃ دینے سے اس کی ادائے گی نہیں ہوتی، فرضیت تواداہوجاتی ہے؛ لیکن جس طرح تنہانمازپڑھ لینے سے اداتوہوجاتی ہے؛ لیکن بعض تنظیمی مقاصدفوت ہو جاتے ہیں ، اسی طرح زکوٰۃکے بھی بعض وہ مقاصد فوت ہو جاتے ہیں، جوتنظیمی طورپرضروری ہیں،یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوبکرصدیقؓ نے تمام مانعینِ زکوٰۃ سے جنگ کی؛ حالاں کہ تمام مانعینِ زکوٰۃ استمرارِوجوب کے منکرنہیں تھے؛ بل کہ بعض وہ تھے، جواستمرارِوجوب کے قائل توتھے؛ لیکن وہ بذاتِ خودزکوٰۃ دیناچاہتے تھے(دیکھئے:شرح بلوغ المرام للشیخ عطیہ سالم:2/306، نیز دیکھئے:تبصرۃ الحکام فی اصول الأقضیۃ،فصل فی احکام الخوارج والبغاۃ:5/339)؛لیکن حضرت ابوبکرصدیقؓ اگراُن کی اِس بات کوتسلیم کرلیتے تواُس اسلامی وحدت کاسررشتہ پارہ پارہ اورامامت وجماعت کانظام درہم برہم ہوجاتا، جس کواسلام نے مضبوطی کے ساتھ تھامنے کاحکم دیا ہے، آپ ﷺکا ارشاد ہے:علیکم بالجماعۃ، وإیاکم والفرقۃ، فإن الشیطان مع الواحد، وہومن الإثنین أبعد، من أراد بحبوحۃ الجنۃ، فیلزم الجماعۃ(ترمذی، باب لزوم الجماعۃ، حدیث نمبر:2145، نیز دیکھئے:المستدرک للحاکم، کتاب العلم، حدیث نمبر:387،شعب الإیمان للبیہقی،السادس والسبعون من شعب، حدیث نمبر:11085)’’جماعت کولازم پکڑو اور افتراق وانتشار سے دور رہو، بلاشبہ ایک کے ساتھ شیطان رہتاہے، جب کہ دوسے دوربھاگتاہے، جو شخص جنت کے بیچوں بیچ (قیام) پسند کرتاہو، وہ جماعت کولازم پکڑے‘‘۔

پھرزکوٰۃ کے اِن مدات کوبھی محدود مصارف میں صرف کیا جاتاہے؛ چنانچہ اکثروبیشترزکوٰۃ اورعشرفقراء ومساکین اور دینی مدارس کودئے جاتے ہیں ، فقراء اورمساکین کو دینے میں بداحتیاطی ہوتی ہے اورہراس شخص کودے دیاجاتاہے، جو کشکولِ گدائی لے کرہمارے دروازے پرآتاہے، جس کی وجہ سے حقیقی مستحق بے چارہ محروم رہ جاتاہے؛ لیکن جو غیرمستحق ہوتاہے، وہ زکوٰۃ کامال لے کردادِ عیش دیتاہے؛ کیوں کہ آج کے مصروف ترین دورمیں کس کواتنی فرصت ہے کہ حقیقی اورغیرحقیقی مستحق کی کھوج میں لگارہے؟ جوہمارے دروازے پرکشکولِ گدائی لے کرحاضر ہوجاتاہے، ہم شوق سے اپنی زکوٰۃ اسے دیدتے ہیں؛ حالاں کے حقیقی مستحق کشکولِ گدائی لے کرپھرنے والا نہیں؛ بل کہ حقیقی مستحق تووہ ہے، جوغیرت اور شرم کی وجہ سے کہیں دستِ سوال دراز نہیں کرتا، آپ ﷺکا ارشاد ہے:ولکن المسکین الذی لایجدغنی یغنیہ، ولایفطن بہ فیتصدق علیہ، ولایقوم فیسأل الناس(بخاری، حدیث نمبر:1409، مسلم، حدیث نمبر:1039)’’لیکن مسکین وہ ہے، جس کے پاس اتنامال نہ ہو، جواسے بے نیاز کردے، لوگ اُسے سمجھ بھی نہیں پاتے کہ اسے زکوٰۃ دیں اوروہ خودلوگوں کے پاس مانگنے کے لئے بھی نہیں جاتا‘‘۔

دینی مدارس میں چوں کہ بہت سارے غریب بچے بھی تعلیم حاصل کرتے ہیں؛ اس لئے اُنھیں ’’فی سبیل اللہ‘‘ کا مصرف شمارکرتے ہوئے زکوٰۃ کی رقم دی جاتی ہے؛ بل کہ اگر یوں کہاجائے توبے جا نہ ہوگا کہ آج مدارس زکوٰۃ کے پیسوں ہی سے چلتے ہیں؛ لیکن میں اسے مسلمانوں کی بدقسمتی سمجھتا ہوں؛ کیوں کہ زکوٰۃ کی رقم کوحدیث میں ’’أوساخ الناس‘‘(مسلم، باب ترک استعمال آل النبیﷺعلی الصدقۃ،حدیث نمبر:1072) ’’لوگوں کا میل کچیل‘‘ کہا گیا ہے، کیا ہم اتنے گرچکے ہیں کہ دین وایمان کی حفاظت گاہوں کے لئے تو’’میل کچیل‘‘ دیں اور دنیاوی عیش وعشرت کے سامانوں میں اپنے عمدہ اوراچھے اموال خرچ کریں؟ بیت المال کے نظام کے زمانہ میں بھی علماء اورفضلاء کی کفایت جزیہ اورخراج کے اموال سے ہواکرتی تھی، آج گرچہ یہ مدات نہیں ہیں؛ لیکن ان کی جگہ ہم عطیات تودے سکتے ہیں ، کیا سب سے گراہواشعبہ دین ہی کاشعبہ ہے کہ اس کے لئے لوگوں کی گندگیاں خرچ کی جائیں؟

بہرکیف! ہماری زکوٰۃ بس اِنھیں لوگوں میں تقسیم ہوتی ہے؛ لیکن بہت ساری وہ بیوائیں محروم رہ جاتی ہیں، جن کی غیرت گھروں سے نکلنے کے لئے مانع ہوتی ہے، بہت سارے وہ ایتام رہ جاتے ہیں، جوابھی تک سن شعور کونہیں پہنچے ہیں، بہت سارے وہ نادار رہ جاتے ہیں، جنھیں مانگنے میں عار محسوس ہوتی ہے اورآج کل بہت سارے وہ نومسلم رہ جاتے ہیں، جن کے پاس سامانِ کفایت نہیں ہوتا۔

اگرنظامِ زکوٰۃ مستحکم ہوتا تویہ سارے حضرات محروم نہیں رہتے، اِنھیں بھی زندگی گزارنے کا قرینہ مل جاتا، یہ بھی اپنے مسلمان بھائیوں پر برہمنیت کا الزام نہ لگاتے، یہ بھی پوری خود اعتمادی کے ساتھ زندگی گزارسکتے اورمعاشرہ کے لئے نیک نامی کا باعث بنتے، کاش! ہم اسی طرح بیت المال کے نظام کومستحکم کرنے کی مہم چلاتے، جس طرح نظام قضاء کومستحکم کرنے کے لئے چلاتے ہیں، کیاہمارے لئے بس اتناہی کافی ہے کہ ہماراپرسنل لاء محفوظ رہے؟ یا اس سے آگے بڑھ کرممکن حدتک اسلام کے دیگرشعبہ جات کوبھی قائم کرناچاہئے اوراس کے لئے اسی طرح کوشش کرتے رہناچاہئے، جس طرح دارالقضاء کے قیام کے لئے کرچکے ہیں اورکررہے ہیں ؟

یقینابعض علاقوں میں بیت المال کا وجودہے؛ لیکن ملک کے طول وعرض کے مقابلہ میں آٹے میں نمک کے برابر، پھر ان کادائرۂ عمل بھی محدودہے؛ اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے نظامِ زکوٰۃ کومستحکم کرنے کی کوشش کریں، انشاء اللہ مسلمانوں سے غربت کا خاتمہ بھی ہوگا، تعلیمی پسماندگی بھی دور ہوجائے گی اورپھرہم ایک ایسی قوم کی حیثیت سے سرزمین ہند میں ابھریں گے، جسے اپنے ہی وطن میں اپنی شناخت کی بقاء کے لئے جنگ نہیں کرنی پڑے گی۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی