روزہ اور اس کی حقیقت

روزہ اور اس کی حقیقت

روزہ اور اس کی حقیقت

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

اللہ تبارک وتعالیٰ کی بنائی ہوئی یہ کائنات متضاد اشیاء سے بھری ہوئی ہے اور یہی متضاد اشیاء کائنات کے حسن و خوبصورتی کاباعث ہیں، اگر اشیاء کے اندر یہ تضاد نہ پایا جاتا تواتنی بڑی کائنات بے رنگ ونورنظر آتی، اللہ تعالیٰ نے جہاں ایک طرف ہموارزمین، درختوں سے بھرے ہوئے جنگلات، خاک اُڑاتی ہوئی زمین اورخوبصورت پھول پیدا کئے ہیں، وہیں دوسری طرف اونچے اونچے پہاڑ، ریت اُڑاتاہوا صحراء، بہتی ہوئی ندیاں اورزخم پہنچانے والے خار بھی بنائے ہیں، پھراُن چیزوں کے اندربھی متضاد صفتیں ودیعت کررکھی ہیں، ایک پھول ہی کولے لیجئے، کونپل سے بڑھ کرکلی چٹختی ہے، پھر پورا گل ہوکربھینی بھینی خوشبو بکھیرتاہے؛ لیکن پھرایک وقت ایسا آتاہے، جب وہ پھول مرجھا جاتا ہے، نہ وہ رنگ ہی باقی رہتا ہے اورنہ ہی وہ خوشبو!

ٹھیک یہی کیفیت اُس کی تخلیق کردہ مخلوقات میں اشرف مخلوق کے ساتھ بھی ہے، اس کے اندر جہاں نرم مزاجی کی صلاحیت بخشی ہے، وہیں درشت روی کی قوت بھی عطاکی ہے، جہاں ملکوتی صفات سے آراستہ کیا ہے، وہیں بہیمی صفات سے بھی متصف کیاہے؛ لیکن چوں کہ تمام مخلوق میں یہ اشرف مخلوق ہے، اس لئے دوسری مخلوقات کے مقابلہ میں یک گونہ امتیازی شان سے بھی سرفرازفرمایاہے، دوسری مخلوق جس صفت کے ساتھ متصف ہے، اس کی یہ صفت دائمی ہے، پھول مرجھاجاتاہے، اُسے دوبارہ حیات نہیں ملتی، بل کہ اس کی جگہ دوسرا پھول کھِل جاتاہے؛ لیکن ایک انسان جب ممنوع احکام کاارتکاب کرکے اپنی امتیازی شان کھودیتاہے، مقامِ اشرف سے مکانِ ارذل پرآپہنچتاہے، اس کے دل کی کھِلی ہوئی کلیاں مرجھاجاتی ہیں، پھرجب توبہ واستغفار کے آنسو اُن مرجھائی ہوئی کلیوں کوسَیراب کرتے ہیں توان میں حیاتِ نوپڑجاتی ہے اورمُسکراتے ہوئے جی اُٹھتی ہیں۔

انسان کے اندر یہ جودوخاص متضاد صفتیں (ملکوتی اور بہیمی) رکھی گئی ہیں، حالات اور ماحول کے اثرات کی بنیاد پر ایک دوسرے پر غالب آتی رہتی ہیں، الٰہی ماحول مل جائے توملکوتی صفت غالب آجاتی ہے اورشیطانی ماحول مل جائے تو بہیمی صفت قبضہ جمالیتی ہے، ہمارے ارد گرد کے عام ماحول پر چوں کہ ابلیسیت کا طنطنہ ہے، اس لئے سال بھر ہمارے اندر صفتِ بہیمی منھ زور گھوڑے کی طرح دُم اُٹھائے دوڑتی پھرتی ہے، اسی کی توڑ اورمقابلہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے روزے جیسی اہم چیز ہمیں عنایت کی ہے۔

  روزہ اسلامی عبادت کا تیسرارکن ہے، اسے عربی میں ’صوم‘ کہتے ہیں، صوم کے لغوی معنی الامساک یعنی رکنے کے ہیں ، اس کی شرعی تعریف ’’ترک الأکل والشرب والوطی من الصبح الی الغروب مع النیۃ‘‘(شرح الوقایۃ:۱/۲۴۲) صبح صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک کھانے، پینے اوروطی (جماع) سے نیت کے ساتھ رکنے کے ہیں، اللہ تعالیٰ کی تمام عبادتوں میں روزہ کوجومقام ومرتبہ حاصل ہے، وہ کسی دوسری عبادت کو نہیں، حدیثِ پاک میں خود اللہ تعالیٰ کا یہ قول مذکورہے:لخلوف فم الصائم أطیب عنداللہ من ریح المسک۔(مسلم، حدیث نمبر:۲۷۰۸)، روزہ دار کے منھ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبوسے بھی بہتر ہے، ایک دوسری حدیث میں ہے:کل عمل بن آدم لہ الا الصیام، فانہ لی وأنا أجزی بہ۔(مسلم، حدیث نمبر:۲۷۰۶)ابن آدم کا ہر عمل اس کے اپنے لئے ہے، سوائے روزہ کے، کہ یہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ (اجر) دوں گا،اللہ تعالیٰ نے روزہ کو اپنا عمل کیوں قراردیا؟اس کی وضاحت ایک دوسری حدیث میں ہے:یترک طعامہ وشرابہ وشھوتہ من اجلی(بخاری، حدیث نمبر:۱۸۹۴)کہ بندہ کھانا، پینااور قضائے شہوت کوصر ف میرے لئے چھوڑتاہے، حقیقت یہ ہے کہ جس قدر نفس کشی روزہ کے اندر پائی جاتی ہے، کسی دوسری عبادت میں نہیں پائی جاتی، روزہ ریا سے بھی پاک ہوتا ہے،حدیث پاک میں ارشاد ہے:الصیام لاریاء فیہ۔(شعب الایمان للبیھقی: ۳۴۴۱) روزہ میں ریاکاری نہیں ہوتی، روزہ ایک ایسا رازِسربستہ ہے، جوصرف اورصرف خدا اورروزہ دار کے درمیان رہتاہے، کسی دوسرے پر آشکار نہیں ہوتا، روزہ دار جب روزہ رکھتاہے تووہ حقیقۃً ربانی صفات کواپنے اندر منتقل کرنے کی کوشش کرتاہے کہ اللہ تعالیٰ بھی کھانے پینے سے بے نیاز ہے، روزہ دار بھی اسی ربانی صفت کا حامل بن جاتاہے۔

روزہ صرف اس کا نام نہیں ہے کہ ایک شخص صبح سے شام تک بھوک کی شدت کوجھیلے اور پیاس کی تپش کو برداشت کرے اوربس؛ بل کہ روزہ کی حقیقت یہ ہے کہ انسان کا ہرہرعضوروزہ رکھے، ورنہ اسلامی اور غیر اسلامی روزہ (برت) میں کیافرق رہ جائے گا؟ بطن (پیٹ) اورفرج (شرم گاہ) کے رو زہ سے فرض کی ادائے گی توہوسکتی ہے؛ لیکن روزہ کے اعلیٰ مقاصد کا حصول نہیں ہوسکتا، اعلیٰ مقصد تواُسی وقت حاصل ہوگا، جب اعلیٰ طریقہ سے روزہ رکھاجائے، حدیث پاک میں ہے:لیس الصیام من الأکل والشرب فقط، انماالصیام من اللغووالرفث، فان سابّک أحدأوجھل علیک فقل: انی صائم۔(سنن کبریٰ للبیھقی، حدیث نمبر: ۸۳۹۶) روزہ صرف کھانے پینے کے ترک کا نام نہیں؛ بل کہ لڑائی جھگڑے اورلغوچیزوں کاترک بھی ضروری ہے، بس اگرکوئی تمہیں گالی دے یا اُجٹ پنے کے ساتھ پیش آئے توتم اس سے کہدوکہ میں روزہ سے ہوں،نہ گالی بک سکتاہوں اورنہ ہی جھگڑا کرسکتاہوں، پیٹ اورشرم گاہ کے روزہ کے ساتھ ساتھ آنکھ، کان، زبان، ہاتھ، پیراوردیگرتمام اعضاء کابھی روزہ ہو، حضرت جابرؓ کا قول ہے کہ جب روزہ رکھوتواپنے کان، اپنی نگاہ اوراپنی زبان کوجھوٹ اوردوسرے گناہوں سے بچاؤ(مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر:۸۹۷۳)، نگاہ ہرگزاللہ کے ذکرسے غافل کرنے والی چیز کی طرف نہ اُٹھے، کان ہرگزبے ہودہ اورفحش چیزیں نہ سنیں، زبان غیبت، چغلی، جھوٹ، ہرزہ سرائی اور گالی گلوج سے کوسوں دور رہے، آپ ﷺ کاارشادہے:ماصام من ظلّ یأکل لحوم الناس۔(المصنف لابن ابی شیبۃ، حدیث نمبر:۸۹۸۳)، اس نے روزہ ہی نہیں رکھا، جس نے غیبت کی، ہاتھ غلط کاموں کی طرف ہرگزنہ بڑھیں، پیرمکروہ اورناپسندیدہ امور کی طرف ہرگز نہ اُٹھیں، حدیث شریف میں منقول ہے:من لم یدع قول الزور والعمل بہ، فلیس للہ حاجۃ فی أن یدع طعامہ وشرابہ۔(بخاری، حدیث نمبر: ۱۹۰۳)، جوشخص جھوٹ بولنا اور غلط اعمال کرنا نہ چھوڑے، اللہ تعالیٰ کو صرف اس کے کھانے پینے کے ترک کی ضرورت نہیں، حرام غذا پیٹ میں ہرگز نہ جانے پائے؛ بل کہ مشتبہ چیزوں سے بھی بچاجائے، یہ ہے اعلیٰ درجہ کاروزہ! یہ ہے صالحین کا روزہ!

آج اپنے معاشرہ پراک نظر دوڑالیجئے، روزہ کی اس حقیقت پرعمل کرناتوکجا، لوگ اس حقیقت ہی سے نا آشنا ملیں گے، عوام کالأنعام توبس صبح سے شام تک بھوک اورپیاس برداشت کرلینے ہی کوروزہ سمجھتی ہے، نہ نماز کی ادائے گی ہوتی ہے اورنہ ہی قرآن کی تلاوت، نہ نگاہ کی صیانت ہوتی ہے اورنہ ہی زبان کی حفاظت،ادھربھوک پیاس بھی برداشت کرتے رہتے ہیں، اُدھرپوراپورادن ٹیلی ویژن کے سامنےبیٹھ کر اور اب اسمارٹ موبائل پر نیم عریاں رقصوں سے اپنی نگاہیں بھی سیراب کرتے رہتے ہیں، اگرکسی سے توتو میں میں کی نوبت آجائے تو منھ سے دُشنام طرازیوں کا وہ طوفان اُمڈ تاہے کہ خدا کی پناہ! نہ ہاتھ حرام کام سے رُکتے ہیں اورنہ پیر غلط امورسے ٹھہرتے ہیں، کان تو فحش چیزیں سننے کے پہلے ہی سے عادی ہیں،یہ توبات تھی عوام بے چاری کالأنعام کی؛ لیکن بہت سارے خواص بھی ان سے کچھ کم نہیں، نماز کی ادائے گی توکرنی ہی پڑتی ہے کہ اُن کومعلوم ہے’’روزِمحشر اولِ پرشش نماز بود‘‘؛ لیکن پورے رمضان میں قرآن کے چند پاروں کی ہی تلاوت نصیب ہوتی ہے، چہ جائیکہ ذکرواذکار اوراوراد وظائف کاشغل ہوسکے، قیام اللیل کی تونوبت ہی نہیں آنے پاتی؛ الا ماشاء اللہ۔

آج جس طرح رمضان المبارک کے فضائل منبراورمحراب سے بیان کئے جاتے ہیں، ضرورت ہے کہ اسی طرح رمضان المبارک کے روزوں کی حقیقت سے لوگوں کوروشناس کیا جائے، پورے رمضان میں صرف اورصرف فضائلِ رمضان ہی کی تقریروں کا سلسلہ چلتا رہتاہے، پہلے عشرہ کی یہ فضیلتیں، دوسرے عشرے کی یہ فضلتیں  اور آخری عشرہ کی یہ فضیلتیں، کہیں اس کا ذکرنہیں کہ اس عشرہ میں یہ عمل کیا جائے تو اتنا ثواب اور اس عشرہ میں یہ عمل کیا جائے تواتنا ثواب، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عوام فضائل ہی کوسن کرمسرور ہوجاتی ہے، پھرعمل کرنے حاجت ہی محسوس نہیں کرتی، فضائل کے ساتھ عمل کی بھی ترغیب دی جائے، ان کویہ بتایا جائے کہ رمضان المبارک میں آپ ﷺ کا عمل دوسرے مہینوں کے مقابلہ میں کئی گُنا بڑھ جایا کرتا تھا، آپﷺ خود بھی راتوں کو عبادت میں گزارتے تھے اور اپنے اہل وعیال کو بھی عبادت کے لئے جگاتے تھے، اللہ تعالیٰ ہم تمام کے دلوں میں روزوں کی قدر اور خوب خوب عمل کرنے توفیق عطا فرمائے، آمین!!

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی