خاندانی نظام:مشترکہ یاجداگانہ؟!

خاندانی نظام:مشترکہ یاجداگانہ؟!

خاندانی نظام:مشترکہ یاجداگانہ؟!

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

دین اسلام ایک مکمل، مرتب اورمنضبط دین ہے،جس کا اعلان حجۃ الوداع کے موقع سے نبی کریم ﷺ کی زبان مبارک سے کرایاگیا:

 الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِیْناً (المائدۃ:۳)

آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین کے طور پر پسند فرمایا۔

اس آیت میں تین چیزوں کا ذکر ہے:(۱)اکمالِ دین(۲)اتمامِ نعمت(۳)اوردین کے طورپراسلام کا انتخاب، جس سے معلوم ہوا کہ عقائد، عبادات، معاملات اوراخلاق وآداب کے تعلق سے جو بھی احکام نازل ہونے تھے، ان کے تعلق سے اصول وضوابط اور کلیات وقواعد نازل ہوچکے، اب اس کے بعد جو بھی مسائل درپیش ہوں گے، وہ انہیں کی روشنی میں حل کئے جائیں گے۔

خاندانی نظام کواسی تناظرمیں دیکھنا چاہئے؛ چنانچہ جب ہم قرآن واحادیث اورسیرت وسوانح کی طرف رجوع کرتے ہیں تو خاندانی نظام کے تعلق سے دونظام: مشترکہ اورجداگانہ کا تذکرہ پاتے ہیں، یہ بھی دیکھتے ہیں کہ دونوں نظاموں کی اپنی الگ حیثیت ہے، بعض حیثیتوں سے مشترکہ خاندانی نظام ممتاز ہے توبعض حیثیتوں سے جداگانہ خاندانی نظام نمایاں ہے، مشترکہ خاندانی نظام کی اچھائیوں میں سے اتحاد واتفاق، خاندان کے کمزورافرادکی نگہداشت، اولاد کی کفالت وسرپرستی، معاشرہ میں مالی استحکام، قناعت وکفایت شعاری کا مرقع معاشرہ اورتحمل وبرداشت وغیرہ کی صفات ہیں، جو ایک انسان کے لئے زندگی گزارنے میں بہت معاون ومفید ہوتے ہیں؛لیکن اسی کے ساتھ ساتھ اس نظام میں کچھ خرابیاں بھی ہیں، جن میں سے نظام رہائش میں نابرابری، ساس وبہو کے نزاعات، غیر محرموں کے ساتھ اختلاط وبے پردگی، مالی نظام کی گڑبڑی، رشتہ داروں کے مابین ناچاقی، والدین کا اولاد کے درمیان عدم مساوات، اولاد کی تعلیم وتربیت کا فقدان، صالح معاشرہ کی تشکیل میں رخنہ اندازی وغیرہ جگ ظاہر ہیں، جس کے نتیجے میں آل واولاد نفسیاتی بیماربن کرشعوروتمیز کی عمرکوپہنچتے ہیں، پھر اس بعد چراغوں میں روشنی نہیں رہتی۔

جداگانہ خاندانی نظام میں بھی کچھ فوائد ہیں تو نقائص بھی ہیں، اس کے فوائد میں سے گھریلومعاملات میں خواتین کی آزادی، ساس، سسر اورنندوں کی بے جا دخل اندازی سے چھٹکارہ، بال بچوں کی خواہش کی تکمیل میں آسانی، مرد کو اپنی ذمہ داری کا احساس، عورت کواپنی ذمہ داری کا احساس، کمائی کے لحاظ اخراجات میں سہولت، نظام رہائش میں اطمینان، بچوں کی تربیت میں آسانی،بچوں کو اپنے اعتبارسے زندگی جینے کے سلیقہ کاحصول، شوہرکا بیوی کی خدمت کا مرکز توجہ ہونا وغیرہ اہم ہیں، جب کہ اس کے نقصانات میں سے گھریلوذمہ داریوں میں اضافہ، خاندانی روایات سے محرومی، اخراجات میں اضافہ، بچوں کے لئے تنہائی کااحساس، بچوں کی تربیت میں کمی، تحمل وبرداشت کی کمی، اخوت وصلہ رحمی کے جذبات کا فقدان، محبت وہمدردی سے عاری وغیرہ اہم ہیں، معلوم ہوا کہ دونوں نظاموں کے اپنے فوائد بھی ہیں اورنقائص بھی، اوریہ بات بھی اہم ہے کہ یہ دونوں نظام اس وقت چلتے رہیں گے، جب تک کہ انسانیت کا وجودہے، ہاں! کہیں دھماچوکڑی مچے گی اورکہیں سکون کی سانسیں میسرہوں گی ۔

راقم حروف کا خیال یہ ہے کہ ان دونوں نظاموں کی اچھائیوں کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے اورخرابیوں کو چھوڑ کرایک ایسے نظام کو وجود میں لایا جائے، جس سے خاندان الگ رہتے ہوئے بھی ایک رہیں،جس کی آسان شکل یہ ہے کہ (ہندوستانی معاشرہ کے لحاظ سے) شادی کے بعد کچھ دنوں والدین اوردیگرافراد خاندان کے ساتھ ہی رہا جائے؛ تاکہ نئی نویلی دلہن کوخاندانی روایات معلوم ہوجائیں اوردلہن میچورڈ بن جائے، پھرآہستہ آہستہ افراد خاندان کے قریب ہی اپنا الگ آشیانہ تعمیر کیا جائے اور پھر وہاں منتقل ہوجایاجائے، اس سے ایک تومشترکہ خاندانی نظام کا بھی فائدہ حاصل گا اور جداگانہ نظام خاندان کا بھی فائدہ حاصل رہے گا، لوگ ایک دوسرے سے الگ رہ کربھی ایک رہیں گے، ہرایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوگا، بڑوں کی سرپرستی سے بھی محرومی نہیں ہوگی، اخوت وہمدردی کے جذبات سے بھی بچے عاری نہیں رہیں گے، خاتون کوبھی احساس برتری حاصل ہوگی اورسب سے اہم یہ کہ آپسی ناچاقی بالکل نہیں رہے گی، اس طرح اختلاف وافتراق کے باجود اتحاد قائم رہے گا۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی