سوشل میڈیا کے ذریعہ سے پیسے کمانا

سوشل میڈیا کے ذریعہ سے پیسے کمانا

سوشل میڈیا کے ذریعہ سے پیسے کمانا

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

سائنسی ترقیات اور جدید ٹکنالوجی نے کمائی کے ذرائع میں بھی وسعت پیدا کی ہیں، جس کمائی کے لئے آج تک لوگ گھنٹوں محنت کیا کرتے تھے، آج اسی کمائی کے لئے بس سوشل میڈیا کا ایک پلیٹ فارم کافی ہے، کہیں جانا بھی نہیں پڑتا اور گھر بیٹھے بیٹھے لوگ آسانی سے روزانہ ہزاروں روپے کمارہے ہیں، اسی پس منظر میں یہ سوال ہے کہ آج کل سوشل میڈیا پر جو بعض آڈیو یا ویڈیو ڈالے جاتے ہیں، کوئی شخص اسے سنے یا دیکھے یا کسی اورکوبھیجے تو کمپنی اسے پیسہ دیتی ہے، کیا اس ذریعہ سے روپیہ کمانا جائز ہوگا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر جو آڈیو یا ویڈیو اپ لوڈ کئے جاتے ہیں، ان کی دوقسمیں ہوتی ہیں:

۱-دینی اور اخلاقی مضامین پرمشتمل آڈیو یا ویڈیو، جیسے:قراء ت، تقاریر، نعت وحمد وغیرہ۔

۲-غیرشرعی اورغیراخلاقی چیزوں پرمشتمل آڈیو یا ویڈیو، جیسے: فلم، ماڈلنگ شوز وغیرہ۔

جہاں تک پہلی قسم کے آڈیواور ویڈیو کا تعلق ہے تواس طرح کی چیزوں کے سننے یا دیکھنے یا دوسروں کوبھیجنے کی صورت میں اگر کمپنی پیسے دے تویہ روپیہ حلال ہے اور اس طریقہ پرپیسے کمانا بھی درست ہے، اللہ کے رسول ﷺ کا ارشادہے:

أحق ماأخذتم علیہ أجراً کتاب اللہ۔(رواہ البخاری فی باب مایعطی فی الرقیۃ علی أحیاء العرب بفاتحۃ الکتا عن ابن عباس تعلیقاً)

سب سے زیادہ جس چیز پرتم اجرت کے مستحق ہو، وہ کتاب اللہ ہے۔

علامہ ابن بطال اس کی شرح میں لکھتے ہیں:

ہوعام یدخل فیہ إباحۃ التعلیم وغیرہ۔(شرح ابن بطال: ۶ / ۴۰۶)

یہ عام ہے، اس میں تعلیم وغیرہ کی اباحت داخل ہے۔

حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں:

واستدل بہ الجمہور فی جواز أخذ الأجرۃ علی تعلیم القرآن۔(فتح الباری،فی الإجارات:۴ /۵۳۰)

اس کے ذریعہ سے جمہور نے تعلیم قرآن کی اجرت پراستدلال کیاہے۔

مذکورہ حدیث اوراس کی شرح سے یہ بات معلوم ہورہی ہے کہ دینی مضامین کی نشرواشاعت پر پیسے لئے جاسکتے ہیں اور یوٹیوپ پر یہی کیا جارہا ہے؛ اس لئے یہ پیسہ لینا اور اس کے ذریعہ سے کمائی کرنادرست ہے۔

جہاں تک دوسری صورت کی بات ہے توچوں کہ یہ ویڈیو اور آڈیو غیرشرعی امور پرمشتمل ہیں، جو بالکل درست نہیں، لہٰذا ان کے ذریعہ سے پیسے کمانا بھی درست نہیں ہوگا؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:

 وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَی الإِثْمِ وَالْعُدْوَان۔(المائدۃ:۲)

گناہ اورزیادتی پرتعاون نہ کرو۔

اسی طرح دوسری جگہ ارشادہے:

کُلُوا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحاً۔ (المؤمنون:۵۱)

حلال کھاؤ اورنیک اعمال کرو۔

نیزاللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:

شرالکسب مہر البغی و ثمن الکلب وکسب الحجام۔(صحیح مسلم،حدیث نمبر: ۱۵۶۸ )

بدترین کمائی زانیہ کا مہر، کتے کی قیمت اورحجام کی کمائی ہے۔

پھریہ بھی اصول ہے:

ماحرم فعلہ، حرم طلبہ۔(الأشباہ والنظائر، ص: ۱۳۲)

جس کا کرنا حرام، اس کا مطالبہ بھی حرام۔

مذکورہ وضاحت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ غیرشرعی امور پر مشتمل ویڈیوز کے ذریعہ سے پیسے کمانا درست نہیں ہے۔

سوشل میڈیا سے روپے کمانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کمپنی آپ کے چینل اور پیجیز پراشتہار لگاتی ہے اورجتنے لوگ اس اشتہار کو دیکھتے ہیں، اس حساب سے کمپنی پیسے دیتی ہے، کمپنی کے اشتہارکی وجہ سے جو پیسے ملتے ہیں، وہ نہ تو مطلق مباح ہیں اورنا ہی مطلق نادرست؛ بل کہ اشتہارکی نوعیت پر اس کے جواز اورعدم جواز کا انحصارہے،اگر اشتہار شرعی قباحتوں سے پاک ہوتواس کے ذریعہ سے آنے والی آمدنی درست ہے اوراگر شرعی قباحتوں سے پاک نہ ہوتو بہرصورت وہ کراہت سے خالی نہیں؛ اسلام ویب کے ایک فتوی میں ہے:

وإن کان بعض الإعلانات محرماً وبعضہامباحاً، فأجرۃ المباح مباحۃ، وأجرۃ المحرم محرمۃ۔(https://www.islamweb.net،فتوی نمبر:۱۲۴۷۲۸)

اوراگربعض اشتہارات حرام اوربعض مباح ہوں تومباح کی اجرت مباح اورحرام کی اجرت حرام ہے۔

انشورنس اورعلمائے ہند کے فیصلے

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی