سوداوراس کامصرف،مکان یادوکان بینک کوکرایہ پردینا

سوداوراس کامصرف،مکان یادوکان بینک کوکرایہ پردینا

سوداوراس کامصرف

بینکوں سے حاصل شدہ سودکے لینے اوراسے خیرکے کاموں میں استعمال کے تعلق سے دورجحانات ہیں:

(الف)سودی بینکوں میں روپے رکھناہی درست نہیں ہے؛ البتہ جب انسان رقوم کی حفاظت کے لئے بینکوں میں روپے رکھنے پرمجبورہو اور بغیر منافع کی شرط کے ساتھ ہوتوپھر کوئی حرج نہیں ہے اوراگرشرط کے ساتھ ہوتودرست نہیں، نیز اگرناواقفیت یا تساہل سے سودی فائدہ حاصل کرلے ، پھر اسے تنبہ ہوتو مستحق زکات کو بغیر ثواب کی نیت سے دیدیے یا خیرکے کاموں میں خرچ کردے ، اپنے مال میں شامل کرکے نہ رکھے، اسی کے قائل عالم اسلام کے مشہورمفتی شیخ ابن بازؒ ہیں(دیکھئے:مجموع الفتاوی:۱۹/۴۲۰-۴۲۲،سودی رقم کا مصرف

ان کی دلیل یہ ہے کہ سود اکبرالکبائر میں سے ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے حرام قراردیا ہے، سودی لیں دین والے سے اللہ تعالیٰ نے اعلان جنگ کیاہے، ارشادہے:

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّہَ وَذَرُواْ مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْن٭فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ فَأْذَنُواْ بِحَرْبٍ مِّنَ اللّہِ وَرَسُولِہِ وَإِن تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُؤُوسُ أَمْوَالِکُمْ لاَ تَظْلِمُونَ وَلاَ تُظْلَمُون۔(البقرۃ:۲۷۸-۲۷۹)

مومنو! اللہ سے ڈرو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو جتنا سُود باقی رہ گیا ہے اُس کو چھوڑ دو٭ اگر ایسا نہ کرو گے تو خبردار ہو جاؤ (کہ تم) اللہ اور رسول سے جنگ کرنے کیلئے (تیار ہوتے ہو) اور اگر توبہ کر لو گے (اور سود چھوڑ دو گے) تو تم کو اپنی اصل رقم لینے کا حق ہے جس میں نہ اوروں کا نقصان اور نہ تمہارا نقصان۔

دوسری جگہ ارشادہے:

یَمْحَقُ اللّہُ الْرِّبَا وَیُرْبِیْ الصَّدَقَاتِ وَاللّہُ لاَ یُحِبُّ کُلَّ کَفَّارٍ أَثِیْم۔(البقرۃ:۲۷۶)

اللہ سود کو نابود (یعنی بے برکت) کرتا اور خیرات (کی برکت)کو بڑھاتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے گنہگار کودوست نہیں رکھتاہے۔

نیز حضرت جابرؓ کی روایت ہے:

لعن رسول اللہ ﷺ آکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ،وقال:ہم سواء۔(صحیح مسلم،باب لعن آکل الرباومؤکلہ،حدیث نمبر:۱۵۹۸)

رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے اورکھلانے والے اورلکھنے اورگواہ بننے والے پرلعنت فرمائی ہے اورفرمایا:یہ سب برابرہیں۔

(ب)دوسرا رجحان یہ ہے کہ سودی منافع کا لینا اور رفاہی اداروں کو دینا جائز ہے، اسی طرح یہ بھی جائز ہے کہ یہ ادارے سود کا مطالبہ کرکے اسے استعمال کریں، اس کے قائل یوروپین مجلس برائے افتاء، اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا اوربعض معاصرعلماء ہیں؛ البتہ ان میں سے بعض نے مساجد اوراس کے کاموں کواس سے مستثنی رکھاہے۔

ان حضرات کی دلیل یہ ہے کہ یہ رقوم بہت زیادہ ہوتے ہیں، اگران کو بینکوں میں چھوڑدیا گیا تو یہ لوگ اسلام کی بیخ کنی کے لئے استعمال کریں گے، لہٰذا مصلحت یہ ہے کہ ان رقوم کو بینکوں میں نہ چھوڑاجائے، ان کووہاں سے لیاجائے اور خیرکے کاموں میں صرف کیا جائے(دیکھئے:الموسوعۃ المیسرۃ فی فقہ القضایاالمعاصرۃ،ص:۴۷۴-۴۷۶)۔

مکان یادوکان بینک کوکرایہ پردینا

ایک زمانہ میں بینک سے تعلق رکھنے کودرست قرار نہیں دیا جاتا تھا، وجہ بینک کاسودی کاروبار میں ملوث ہوناہے؛ لیکن پھرکچھ چیزوں میں گنجائش نکالی گئی، یہ گنجائش فقہ الاقلیات کے تحت ہی ہے؛ چنانچہ فینانس فراہم کرنے والے بینک، ساہوکار یا کمپنی کو مکان یا دوکان کرایہ پردینے کے تعلق سے ایک استفتاء کے جواب میں استاذگرامی قدرحضرت مولانا خالدسیف اللہ حمانی مدظلہ تحریرفرماتے ہیں:

…سودی قرض فراہم کرنے والے اداروں کواپنے شوروم میں جگہ فراہم کرنا ایک سودی معاملہ میں تعاون کرناہے؛ اس لئے یہ صورت (کرایہ پردینا) جائز نہیں(کتاب الفتاوی:۵/ ۴۰۸- ۴۰۹)۔

لیکن اب بینک کوکرایہ پردینے کی گنجائش دی گئی ہے؛ چنانچہ دارالعلوم دیوبند کے ایک استفتاء کے جواب میں ہے:

بینک یا ATMکے لئے اپنا مکان یا دوکان کرایہ پردینا شرعاً جائزہے؛ لیکن نہ دینا بہترہے، بینک کی بہ نسبت ATM کو کرایہ پردینے کا حکم اخف ہے، آمدنی بہرصورت جائزہے (مکان یا دکان بینک کو کرایہ پر دینا

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی