اردو کتب فتاوی کا مختصر تعارف

اردو کتب فتاوی کا مختصر تعارف

اردو کتب فتاوی: ایک تعارف

برصغیر میں فتوی نویسی (آخری قسط)

دارالعلوم دیوبند کا دارالافتاء اپنی قدامت، تسلسل اور مرجعیت کے اعتبارسے ملک کا ایک ممتاز دارالافتاء ہے اور یہاں سے جتنی بڑی تعداد میں فتاوی صادر ہوئے ہیں اورہوتے رہے ہیں، اس کی شاید ہی کوئی نظیر ہو؛ چنانچہ حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ کے عہد اہتمام میں’’فتاوی دارالعلوم‘‘ کی ترتیب کا باقاعدہ کام شروع ہوا اوریہ ذمہ داری ایک صاحب نظرعالم اورصاحب افتاء حضرت مولانا مفتی ظفیرالدین مفتاحی ؒ سے متعلق کی گئی، مفتی صاحب نے مفتی عزیزالرحمن صاحب کے فتاوی کومرتب کرنا شروع کیا، جس کی اب تک بارہ جلدیں (جدید مجموعہ:۱۶/ جلدیں)آچکی ہیں، یہ فتاوی کا ایک وسیع مجموعہ ہے، دارالعلوم دیوبند نے نئی تبویب وترتیب کے ساتھ اب ۱۸/ جلدوں میں شائع کیا ہے۔

مولانا مفتی محمد یاسین مبارکپوریؒ(۱۲۰۴-۱۳۲۵ھ) جامعہ احیاء العلوم مبارکپورمیں افتاء کا فریضہ انجام دیا کرتے تھے، مفتی جمیل احمد نذیری صاحب نے آپ کے فتاوی کا انتخاب ’’فتاوی احیاء العلوم‘‘ کے نام سے مرتب کیا ہے، اس میں ردبدعت پربعض تحقیقی جوابات شامل ہیں۔

فقہ وفتاوی کی دنیا سے تعلق رکھنے والی ایک عظیم شخصیت مفتی محمود صاحب(پاکستان)(پ:۱۳۳۷ھ) ہیں، اللہ تعالیٰ نے حضرت مفتی صاحب کو علم فقہ میں ایک خاص مقام عطا فرمایا تھا، اسی کانتیجہ آپ کے ہزاروں فتاوے ہیں، جو مدرسہ قاسم العلوم ملتان کی فائلوں میں موجود ہیں،جہاں آپ نے تقریباً ۲۵/ سال افتاء کے فرائض انجام دئے، مولانا محمد نعیم صاحب نے اپنے معاونین کے تعاون سے ان فتووں کومرتب کرکے گیارہ جلدوں میں شائع کیا، جوتقریباً۶۴۰۰/ صفحات پر مشتمل ہیں، اس مجموعہ میں مفتی محمود صاحب کے معین مفتیان کرام کے بھی فتاوے درج ہیں۔

چودہویں صدی ہجری کے ہندوستانی اصحاب افتاء میں ایک نمایاں نام حضرت مولانا مفتی مرغوب احمد صاحب لاجپوری (م:۱۳۷۷ھ) کا ہے، جوصوبہ گجرات کے ایک مردم خیز گاؤں لاجپور(ضلع سورت)کے رہنے والے تھے، انھوں نے ایک طویل عرصہ برما کی راجدھانی رنگون میں افتاء کی خدمت انجام دی،وہ وہاں کے مفتی اعظم کے منصب پرفائز تھے، آپ ہی کے فتاوی کا مجموعہ’’مرغوب الفتاوی‘‘ کے نام سے معرض وجود میں لایا گیا، جوچھ جلدوں پر مشتمل ہے، اس مجموعہ کوآپ کے ہم نام پوتے مفتی مرغوب صاحب نے مرتب کیا ہے۔

فتاوی کے مجموعوں میں’’جامع الفتاوی‘‘ بھی ایک گراں قدراضافہ ہے، اس کتاب کے مرتب مفتی مہربان علی بڑوتی (میرٹھ) ہیں، جنھوں نے علمائے دیوبندکے ۱۷/ کتب فتاوی کو سامنے رکھ کرترتیب دیاہے، اس مجموعہ کی چارجلدیں شائع ہونے کے بعد مرتب موصوف کا انتقال ہوگیا، اس کی تکمیل مولانا محمد اسحق صاحب ملتانیؒ(۱۹۳۵-۲۰۱۳ء) کے حصہ میں آئی اور انھوں نے ’’جامع الفتاوی‘‘ کواسم بامسمی بنا کر گیارہ جلدوں میں شائع کیا ہے۔

ملتان(پاکستان) کا خیرالمدارس ایک نمایاں نام ہے، جہاں درس وتدریس کے علاوہ افتاء کا کام بھی ہوتا ہے، اس دارالافتاء سے بھی ہزاروں فتاوے دے گئے ہیں، یہ فتاوے عارف باللہ حضرت مولانا خیرمحمد صاحب جالندھریؒ(۱۳۱۳-۱۳۹۰ھ)، مفتی عبداللہ صاحب(م:۱۴۰۵ھ) اورمولانا عبدالستارصاحب کے ہیں، ان تمام کومفتی محمدانورصاحب نے ’’خیرالفتاوی‘‘ کے نام سے مرتب کرکے ۵/جلدوں میں شائع کیا۔

ماضی قریب میں امت نے جن بزرگوں کی محرومی کا زخم کھایاہے، ان میں ایک مشہورعالم مفتی عبدالرحیم لاجپوریؒ (۱۳۲۱-۱۴۲۲ھ) ہیں، جن کے فتاوی ’’فتاوی رحیمیہ‘‘ کے نام سے بارہ جلدوں میں شائع ہوچکے ہیں، آپ کے فتاوی کافی شرح وبسط اورتحقیق پرمبنی ہوتے ہیں اوراکابرعلماء نے ان فتاوی کی تحسین کی ہے، یہ مجموعہ اردوکے علاوہ انگریزی اورگجراتی زبانوں میں بھی طبع ہوچکاہے۔

حلقۂ دیوبند کے جوفتاوی شائع ہوئے ہیں، ان میں حضرت مولانا مفتی نظام الدین اعظمی ؒ کے ’’منتخبات نظام الفتاوی‘‘ خصوصی اہمیت کی حامل ہے، یہ آپ کے ہزاروں فتاوی میں سے خود آپ ہی کا انتخاب ہے، جس کی تین جلدیں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا سے طبع ہوچکے ہیں،مفتی صاحب کے فتاوی کا ایک اورمجموعہ بھی’’نظام الفتاوی‘‘ کے نام سے طبع ہواہے، جو۶/جلدوں میں ہے۔

حضرت تھانوی اوران کے تلامذہ کے بعدجوفتاوی شائع ہوئے ہیں، ان میں علم وتحقیق کے معیارکے اعتبارسے فتاوی کاسب سے اہم مجموعہ’’احسن الفتاوی‘‘ ہے، جس کے مؤلف فقیہ عصر مفتی رشید احمد صاحب ہیں،جس کی نو جلدیں طبع ہوچکی ہیں،یہ فتاوی شرح وتحقیق ، نئے مسائل پر گفتگو اور بعض اختلافی مسائل میں سیرحاصل بحث، نیز فرق باطلہ پرمدلل رد کے اعتبارسے ایک اہم ترین مجموعہ ہے، اس مجموعہ میں کئی اہم فقہی رسائل بھی شامل اشاعت ہیں۔

حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہیؒ وسعت نظر اور عمق کے اعتبارسے اپنے معاصرعلماء میں امتیازی حیثیت کے حامل تھے، انھوں نے طویل عرصہ دارالعلوم دیوبند اور مظاہر علوم سہارنپورمیں افتاء کا فریضہ انجام دیاہے، آپ کے فتاوی کا مجموعہ’’فتاوی محمودیہ ‘‘ کے نام سے ہے، جن کوترتیب جدید کے ساتھ حضرت مفتی فاروق میرٹھی صاحب نے ۳۱/ جلدوں میں شائع کیا ہے۔

فتاوی میں ایک اہم مجموعہ’’فتاوی امارت شرعیہ‘‘ کاہے، اب تک اس کی ۵/جلدیں آچکی ہیں، پہلی جلد امارت شرعیہ کے بانی حضرت سید مولانا ابو المحاسن محم دسجادؒ کے فتاوی پر مشتمل ہے، جس کی تعداد۱۹۸/ ہے، اس مجموعہ میں بعض سیاسی مسائل، نیز فسخ وتفریق سے متعلق سوالات پربہت ہی فاضلانہ جوابات آگئے ہیں، اس کی دوسری جلد طہارت وصلاۃ سے متعلق ہے، جس میں حضرت مولانا عبدالصمد رحمانی، مولانا قاضی نورالحسن، مولانا محمد عثمان غنی (شاگرعلامہ انور شاہ کشمیریؒ) ،مفتی محمد عباسؒ اورچند فتاوی کچھ اور حضرات کے ہیں، حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ نے ان دونوں جلدوں کی ترتیب وتبویب کا کام نہایت تحقیق کے ساتھ کیا ہے اوریہ مجموعہ ان کے مقدمہ سے آراستہ ہے، بقیہ جلدوں کومفتی سعید الرحمن صاحب نے مرتب کیاہے۔

علمائے ہند میں حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کے نام اورکام سے کون صاحب علم ناواقف ہوگا، وہ نہ صرف ملت اسلامیہ ہند کے سپاہی؛ بل کہ سپہ سالار تھے؛ بل کہ اس کے ساتھ ساتھ بحرعلم کے غواص بھی تھے اورحدیث وفقہ آپ کا موضوع تھا، آپ کے فتاوی کا مجموعہ بھی مولانا مفتی محمد سلمان منصورپوری صاحب کی ترتیب وتحقیق کے ساتھ ایک جلد میں شائع ہواہے۔

گزشتہ ربع صدی میں حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ ایک معتبرصاحب نظرفقیہ کی حیثیت سے برصغیرکی فضا پرچھائے رہے، انھوں نے پوری زندگی قضاء اورفصل خصومات کی خدمات انجام دیں اوراس راہ میں ان کایہ کارنامہ آبِ زر سے لکھے جانے کے لائق اورمسافرانِ شوق کے لئے چشم کشا اورمشعل راہ ہے؛ چنانچہ مولانا امتیاز احمد قاسمی (رفیق اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا)نے’’فتاوی قاضی‘‘ کے نام سے ان کے فتاوی کو مرتب کیا ہے، جو۱۲۰/ فتاوی اور۲۴۵/ صفحات پرمشتمل ہے ۔

تحریک جماعت اسلامی کے بانی صاحب نظر مولانا مودودیؒ کے فتاوی بھی کافی اہمیت کے حامل ہیں، انھوں نے بعض جدید مسائل پربھی محققانہ گفتگو فرمائی ہے، یہ فتاوی وہ ’’ترجمان القرآن‘‘ میں لکھاکرتے تھے، جس کامستقل عنوان ’’رسائل ومسائل‘‘ کے نام سے ہو اکرتاتھا، ان کے یہ فتاوے بھی ۵/جلدوں میں شائع ہوچکے ہیں، اسی طرح ہندوستان میں جماعت اسلامی کے ترجمان ماہنامہ ’’زندگی‘‘ میں مولانا سید عروج احمد قادریؒ سوال وجواب کا کالم لکھا کرتے تھے، ان سوالات وجوابات کو بھی ’’احکام ومسائل‘‘ کے نام سے دو حصوں میں شائع کیا جاچکاہے، جس میں بہت سے نئے مسائل بھی آگئے ہیں۔

جن اداروں کے دارالافتاء کے فتووں کواعتباراوراعتماد حاصل ہے، ان میں ایک دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک(پاکستان)کا دارالافتاء بھی ہے، اس ادارہ سے جاری ہونے والے فتاوی کا مجموعہ بھی تیار کیاگیاہے، جس میں اٹھارہ ماہرمفتیان کرام کے فتاوے شامل ہیں، جن میں ایک شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق صاحب بھی ہیں، اس مجموعہ کو انھیں کی طرف منسوب کرکے اس کا نام’’فتاوی حقانیہ‘‘ رکھا گیا ہے، اس کی ۶/ جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔

اس سلسلہ کی ایک نہایت ہی اہم اورقابل ذکر کوشش مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ کی’’آپ کے مسائل اوران کاحل‘‘ ہے، مولانا موصوف روزنامہ ’’جنگ، کراچی‘‘ میں فقہی سوالات کے جوابات لکھا کرتے تھے، ان سوالات وجوابات کا مجموعہ نوجلدوں پرمشتمل ہے، مولانا مرحوم نے فرق باطلہ کے رد پر خاص توجہ دی ہے، اسی کڑی کا ایک اہم کام’’سوال وجواب- کتاب وسنت کی روشنی میں‘‘ ہے، جوصاحبزادہ قاری عبدالباسط صاحب کے جوابات ہیں، جوخلیج کے مشہور روزنامہ ’’اردو نیوز‘‘ میں وہ لکھا کرتے تھے، یہ ایک وقیع مجموعہ ہے اور خلیج میں بسنے والے تارکین وطن کی رہنمائی کے لئے اس کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔

استاذ گرامی قدرحضرت مولانا خالدسیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم کی حیثیت عصرحاضر میں نہ صرف سرمایہ ملت کے نگہ بان کی ہے؛ بل کہ اپنی قابلیت اورصلاحیت کے اعتبارسے برصغیر ہندوپاک کے لئے آیۃ من آیات اللہ سے کم نہیں، فقہ و فتاوی آپ کا اوڑھنا بچھونا ہے، خصوصیت کے ساتھ نئے مسائل کو حل کرکے امت کی رہنمائی کرنے والوں میں جن علماء و فقہاء کا نام لیا جاسکتاہے، ان میں استاذ محترم کانام نمایاں ہے، ’’جدیدفقہی مسائل‘‘ (۶/جلدیں)اس کا بین ثبوت ہے، ایک عرصہ سے آپ حیدرآباد سے شائع ہونے والاروزنامہ’’منصف‘‘ میں ’’شرعی مسائل کاحل‘‘ کے نام سے سوالات کے جوبات دیتے رہے ہیں، یہ جوابات ’’کتاب الفتاوی‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوچکے اورہورہے ہیں، اب تک اس کتاب کی ۹/جلدیں ہندوپاک سےشائع ہوچکی ہیں۔

جن معاصرعلماء میں فقہ وفتاوی کے تعلق سے نہ صرف برصغیر؛ بل کہ پوری دنیا میں جن کی طوطی بول رہی ہے، ان میں ایک نمایاں نام حضرت مولانامفتی تقی عثمانی صاحب کا ہے، ان کے رود باراشہب قلم سے بھی ہزاروں فتاوے تحریر کئے گئے ہیں، جوعربی، فارسی، انگریزی اوراردومیں ہیں، ان کے فتاوی کوبھی مرتب کیا گیا ہے، جس کی اب تک ۴/ جلدیں شائع ہوچکی ہیں، باقی فتاوے زیرترتیب بھی ہیں، جیساکہ اس کے مرتب نے ذکر کیاہے، جوممکن ہے اس کی پانچویں جلد میں سمٹ آئیں۔

فتاوی کے تعلق سے ایک اہم کام اکابرمفتیان کرام کے فتاوی میں سے خواتین سے متعلق مسائل کویک جا کردیا جانا بھی ہے، جس کا نام ’’خواتین کے مسائل اوران کاحل‘‘ یا’’فتاوی برائے خواتین‘‘ ہے، اس کے مرتب شیخ زادہ ثناء اللہ محمود فاضل جامعہ دارالعلوم کراچی ہیں، انھوں نے اس مجموعہ میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی، مفتی رشید احمد گنگوہی، مفتی عزیزالرحمن، مفتی شفیع، مولانا ظفراحمدعثمانی، مولانا عاشق الٰہی بلند شہری، مفتی یوسف لدھیانوی، مفتی رشید احمد لدھیانوی، مفتی عبدالرحیم لاجپوری، مفتی تقی عثمانی، مفتی مختارالدین کربوغہ شریف اورمفتی انورصاحب وغیرہم کے فتاوی سے استفادہ کیاہے، یہ مجموعہ اس لحاظ سے ممتاز ہے کہ اس میں صرف ان فتووی کوجمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جن کا تعلق صنف نازک سے ہے، عمومی طورپراس طرح فتاوی کواس سے قبل مرتب نہیں کیا گیاہے۔

دارالعلوم ندوۃ العلماء اپنے نصاب وفکرکے لحاظ سے ایک ممتاز ادارہ ہے، ابتداء میں یہاں دارالافتاء کی ضرورت محسوس نہیں سمجھی گئی، پھربعد میں دارالافتاء کا قیام عمل میں لایا گیا، یہاں سے ہزاروں کی تعداد میں فتوے دئے گئے ہیں، ان فتاوی کو’’فتاوی ندوۃ العلماء‘‘کے نام سے مولانا منور سلطان ندوی صاحب نے مرتب کیا ہے، جس کی اب تک تین جلدیں منظرعام پرآئی ہیں۔

معاصرمفتیان کرام میں جوکثرت فتاوی، اصحاب تقوی اور زود نویسی میں معروف ہیں، ان میں ایک نمایاں نام مفتی شبیر احمد قاسمی صاحب کا ہے، جو طویل عرصہ مدرسہ شاہی مرادآباد کے صدرمفتی ہیں، اللہ تعالیٰ نے انھیں وافرعلم سے نہ صرف یہ کہ نوازاہے؛ بل کہ ان کے اس علم کونافع بھی بنایاہے اور ڈھیروں کام بھی لئے ہیں، انھں نے چند سالوں پہلے فتاوی تاتارخانیہ کو ایڈٹ کرکے مکمل طورپر۲۰/ جلدوں میں شائع کروایا ہے، یہ پہلی مرتبہ انھیں کی ایڈٹنگ کے ساتھ شائع ہوئی ہے، مدرسہ شاہی کے دارالافتاء میں انھوں نے جوخدمات انجام دی ہیں، ان کا نتیجہ ہمارے سامنے ۲۶/جلدوں میں’’فتاوی قاسمیہ‘‘ کی شکل میں موجود ہے، اس مجموعہ میں کثرت سے نئے مسائل بھی آئے ہیں۔

انھیں معاصرمفتیان میں دوسرانام مفتی سلمان منصورپوری صاحب کا بھی ہے، یہ بھی عرصہ سے مدرسہ شاہی کے دارالافتاء میں خدمت انجام دیتے رہے، اللہ تعالیٰ نے ان کی تحریرکوبھی قبولیت سے نوازاہے، مدرسہ شاہی کے ترجمان ’’ندائے شاہی‘‘ میں بھی یہ فتوی لکھاکرتے تھے، ان کے فتاوی کامجموعہ ’’کتاب النوازل‘‘ کے نام سے اب تک۱۹/جلدوں میں شائع ہوچکاہے۔

انھیں معاصر اصحاب افتاء میں ایک اہم نام مولانا ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی صاحب کا بھی ہے، جو ماہنامہ ’’زندگی نو‘‘ میں طویل عرصہ سے استفتاء ات کے جوابات تحریرکررہے ہیں، ان کی تحریرقرآن وحدیث کے نصوص سے مزین ہونے کے ساتھ ساتھ سلیس،رواں اورعام فہم ہوتی ہے، بسااوقات فقہائے کرام کے اختلاف کوبھی واضح کیا جاتا ہے اورصاحب تحریر کے نزدیک راجح کی بھی نشاندہی کی جاتی ہے، یہ جوابات بھی کتابی شکل میں ’’زندگی کے عام فہم مسائل‘‘کے نام سے ۵/جلدوں میں شائع ہوچکے ہیں۔

اداروں میں ایک اہم نام جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا کاہے، وہاں ۱۴۲۹ھ سے دارالافتاء کا نظام قائم ہے، وہاں سے بھی کثیرتعداد میں فتاوے شائع ہوئے اورہورہے ہیں، خصوصیت کے ساتھ ان مسائل کے سلسلہ میں، جن میں لوگوں کاابتلاء عام ہے، ان فتووں کو وہاں کے صدرمفتی مولانا جعفر ملی  صاحب نے ’’المسائل المہمۃ فیما ابتلت بہ العامۃ‘‘ کے نام سے جمع کیا ہے، جس کی اب تک ۷/ جلدیں شائع ہوچکی ہیں، یہ مجموعہ اس اعتبارسے لائق مطالعہ ہے کہ زیادہ تران مسائل کوزیربحث لایا گیا ہے، جس میں عوام الناس عام طورپرمبتلاء ہیں۔

دوچارسالوں میں جوفتاوے معرض وجود میں آئے ہیں، ان میں ایک اہم نام’’محمودالفتاوی‘‘ کاہے، یہ وہ فتاوے ہیں، جو مولانا مفتی احمد خانپوری صاحب صدرمفتی جامعہ اسلامیہ ڈابھیل کے قلم بافیض سے جاری ہوئے ہیں، اس مجموعہ کی ترتیب وتبویب آپ کے شاگردمفتی عبدالقیوم راجکوٹی صاحب نے کی ہے، حضرت مفتی صاحب کے فتاوی کی تعداد تو ہزاروں میں ہے، جن کی ترتیب کا کام جاری ہے، اب تک مجموعہ کی ۵/جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔

مذکورہ سطورمیں کتب فتاوی کی ایک جھلک دکھانے کی کوشش کی گئی ہے اوربس ، استقصاء مقصود نہیں، ورنہ اتنے کتب فتاوی منصہ شہود میں آچکے ہیں، جن کے تعارف کے لئے ایک ضخیم کتاب کی ضرورت ہے۔

برصغیرمیں فتوی نویسی(قسط:۱)

برصغیرمیں فتوی نویسی(قسط:۲)

برصغیرمیں فتوی نویسی(قسط:۳)


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی