مِلْکْ بینک: شریعت کی نظر میں
محمد جمیل اختر جلیلی ندوی
موجودہ زمانہ ہراعتبارسے ترقی کی راہ پرگامزن ہے؛ لیکن اس ترقی کے نتیجہ میں بعض امور ایسے بھی وجود میں آگئے ہیں، جوعقل وقیاس کے خلاف ہیں؛ تاہم وہ لوگ، جو اللہ تعالیٰ کے حقیقی دین پر قائم نہیں ہیں، یا حقیقی دین پرتو قائم ہیں؛ لیکن انہیں دینی معلومات نہیں ، وہ عقل وقیاس کے خلاف امورکوبھی انجام دے ڈالنے سے نہیں چوکتے۔
حنفیہ کی رائے
۱-خواتین کے دودھ کی خریدوفروخت مطلقاً جائز نہیں، خواہ آزاد خاتون کا دووھ ہو یا باندی کا —– یہ فقہائے احناف کی عمومی رائے ہے، ابوبکربن علی الحدادالیمنی ؒ لکھتے ہیں:
لایجوز بیع لبن بنات آدم۔(الجوہرۃ النیرۃ، باب السلم: ۱ / ۲۶۸، ط: مکتبہ حقانیہ، ملتان)
’’بناتِ آدم کے دودھ کی بیع جائز نہیں‘‘۔
۲-آزادعورت کے دودھ کی بیع جائز نہیں، باندی کے دودھ کی بیع جائز ہے —— یہ حضرت امام ابویوسف ؒ کی رائے ہے، علامہ ابن نجیم مصریؒ لکھتے ہیں:
وعن أبی یوسف: یجوز بیع لبن الأمۃ لجواز ایراد البیع علی نفسہا، فکذا علی جزئہا۔ (البحر الرائق، باب البیع الفاسد: ۶ / ۱۳۲، ط: دارالکتب العلمیۃ، بیروت ۱۹۹۷ء)
۲-عورت کا دودھ انسانی اجزاء میں سے ہے اورانسان اپنے تمام اجزاء کے ساتھ مکرم ومحترم ہے، لہٰذا بیع کے ذریعہ سے اُس کی تذلیل نہیں کی جائے گی:لأنہ جزء الآدمی، وہوبجمیع أجزائہ مکرم مصون عن الابتذال بالبیع۔(البحرالرائق، باب البیع الفاسد:۶ / ۱۳۲، ط: دارالکتب العلمیۃ، بیروت ۱۹۹۷ء)
شوافع کی رائے
عورت کے دودھ کی بیع کے سلسلہ میں حضراتِ شوافع کے یہاں دورائیں ملتی ہیں:
۱-جائز ہے؛ کیوں کہ یہ پاک اورقابل انتفاع شیٔ ہے، اسی رائے کو’’معتمد‘‘ بھی قراردیاگیاہے، علامہ خطیب شربینیؒ لکھتے ہیں:
ویصح بیع لبن الآدمیات؛ لأنہ طاہرمنتفع بہ۔ (مغنی المحتاج، کتاب البیوع:۲ / ۱۸، ط: دارالمعرفہ، بیروت، لبنان۱۹۹۷ء)
’’عورتوں کے دودھ کی بیع درست ہے؛ کیوں کہ یہ پاک اورقابل انتفاع ہے‘‘۔
۲-جائز نہیں ہے —— اِس کے قائلین میں علامہ ماوردی، امام رویانی اورشاشی رحمہم اللہ ہیں، اِن حضرات نے امام ابوالقاسم انماطی ؒسے بھی اِسی رائے کونقل کیا ہے، امام نوویؒ لکھتے ہیں:
بیع لبن الآدمیات جائز عندنا، لاکراہۃ فیہ، ہذاہوالمذہب، وقطع بہ الأصحاب إلاالماوردی، والشاشی، والرویانی، فحکوا وجہاً شاذاعن أبی القاسم الأنماطی من أصحابنا: أنہ نجس، لایجوز بیعہ، وإنمایربی بہ الصغیر للحاجۃ۔(المجموع، باب مالایجوز بیعہ ومالایجوز: ۹ / ۳۰۴، ط: مکتبۃ الإرشاد، جدہ)
۱-یہ ایک پاک چیز ہے(اورپاک چیزکی بیع درست ہوتی ہے؛ اِس لیے عورت کے دودھ کی بیع بھی درست ہوگی)۔
فقہائے مالکیہ کے نزدیک عورت کے دودھ کی بیع جائز ہے، علامہ ابن حطاب ؒ لکھتے ہیں:
یجوزبیع لبن الآدمیات؛ لأنہ طاہرمنتفع بہ۔ (مواہب الجلیل، کتاب البیوع، ۶ / ۶۶)
’’انسانی دودھ کی بیع جائز ہے؛ کیوں کہ وہ پاک اورقابل انتفاع ہے‘‘۔
حنابلہ کی رائے
فأمابیع لبن الآدمیات،فقال أحمد:اکرہہ‘،واختلف اصحابنافی جوازہ،فظاہرکلام الخرقی جوازہ…وذہب جماعۃ من اصحابنا إلیٰ تحریم بیعہ…والأول أصح؛ لأنہ لبن طاہرمنتفع بہ۔(المغنی لابن قدامہ، کتاب البیوع، فصل: حکم بیع لبن الآدمیات:۱ /۹۲۴)
’’جہاں تک عورتوں کے دودھ کی بیع کاتعلق ہے توامام احمدؒ فرماتے ہیں: میں اسے ناپسند کرتاہوں، ہمارے اصحاب کے درمیان اِس کے جواز کے سلسلہ میں اختلاف رائے پایاجاتاہے؛ چنانچہ امام خرقی کے کلام سے جواز معلوم ہوتاہے …اورہمارے اصحاب کی ایک جماعت اُس کی بیع کوحرام سمجھتی ہے…تاہم قول اول ہی صحیح ہے؛ کیوں کہ یہ پاک اور قابل انتفاع دودھ ہے‘‘۔
۲-خصوصی استعمال: جیسے: دواکے طورپراستعمال —– یہ تمام فقہاء کے یہاں جائز ہے، احناف کے یہاں صراحتاًیہ جزئیہ مذکورہے:
لابأس بأن یسعط الرجل بلبن المرأۃ ویشربہ للدواء۔ (الفتاوی الہندیۃ: ۵ / ۳۵۵)
قول راجح
شرعی، عقلی اورسماجی اعتبارسے غورکیاجائے تواُن حضرات کی رائے زیادہ قرین ِصواب معلوم ہوتی ہے، جو عورتوں کے دودھ کی خریدوفروخت کے سلسلہ میں عدم جواز کے قائل ہیں، شرعی اعتبارسے ایک تواِس لیے کہ اُس سے ’’حرمت ِرضاعت‘‘کامسئلہ پیداہوجاتاہے؛ کیوں کہ عورت کے دودھ کااستعمال بطورغذاکے جس طورپرہو، حرمت کوثابت کرتاہے؛ چنانچہ صنعانیؒ لکھتے ہیں:
واستدل بہ(أی:من حدیث’’لایحرم من الرضاع إلا مافتق الأمعاء‘‘)علی أن التغذی بلبن المرضعۃ محرم، سواء کان شرباً، أووجوراً، أوسعوطاً، أوحقنۃً حیث کان یسد جوع الصبی، وہوقول الجمہور۔(سبل السلام، باب الرضاع:۳ / ۵۸۲)
’’حدیث’’لایحرم من الرضاع إلا مافتق الأمعاء‘‘سے یہ استدلال کیاگیاہے کہ مرضعہ کے دودھ کواس طرح غذاکے طورپراستعمال کرنا، جس سے نومولودکی بھوک مٹ جائے،حرمت کوثابت کرتاہے، خواہ (یہ استعمال)پی کرہو، یاناک اورحلق کے ذریعہ سے ہو، یاپھرحقنہ کے ذریعہ سے‘‘۔
دوسرے اِس لیے کہ اِس طرح فسادِ نکاح کاعموم ہوجائے گا؛ کیوں کہ کس عورت کا دودھ کس بچہ کے استعمال میں آرہاہے؟اِس کوقلم بندکرکے رکھناایک دشوارترین امرہے، بالخصوص اُن لوگوں کے لیے، جن کے نزدیک دین ودھرم کوئی معنی نہیں رکھتا،نیزاللہ تعالیٰ کے نزدیک’’فساد‘‘ایک ناپسندیدہ عمل ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:واللہ لایحب الفساد۔(البقرۃ:۲۰۵)’’اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا‘‘، اِس لیے دودھ کی خریدوفروخت درست نہیں ہونی چاہیے۔
عقلی اعتبارسے اِس لیے کہ دودھ کااثربچہ کے اخلاق پر پڑتا ہے؛ چنانچہ ایک مرسل حدیث میں ہے:
نھی رسول اللہ ﷺأن تسترضع الحمقاء۔(السنن الکبریٰ للبیہقی،باب ماورد فی اللبن یشبہ علیہ، حدیث نمبر:۱۶۰۹۹)
ووجہ النہی أن للرضاع تأثیراًفی الطباع، فیختارمن لاحماقۃ فیہاونحوہا۔(سبل السلام، باب الرضاع، حدیث نمبر:۱۰۶۷: ۳ / ۵۹۴)
’’ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ دودھ کا اثر طبیعتوں پرپڑتاہے، لہٰذا اس کوچناجائے، جس میں حمق نہ ہو‘‘۔
البتہ اگرضرورت بچہ کی جان کی ہلاکت کی حدتک پہنچ گئی ہواوراجرت پردودھ پلانے والی بھی دستیاب نہ ہورہی ہو تو عورت کے دودھ کی خریدوفروخت کے لیے خصوصی گنجائش اِس شرط کے ساتھ رہنی چاہیے کہ مرضعہ کانام وپتہ محفوظ رہے، تاکہ فساد نکاح کامسئلہ پیدانہ ہوسکے،ہذاماعندی، واللہ اعلم بالصواب!
ایک تبصرہ شائع کریں