زکاتِ واجبہ سے غیرمسلم کا تعاون

زکاتِ واجبہ سے غیرمسلم کا تعاون

زکاتِ واجبہ سے غیرمسلم کا تعاون

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

غیرمسلم کوزکات واجبہ دینے اورنہ دینے کے تعلق سے فقہاء وعلماء امت کی دورائیں ہیں:

۱)غیرمسلم کوزکاتِ واجبہ نہیں دےسکتے، اس کے قائلین جمہورہیں، جن کے دلائل یہ ہیں:

عن ابن عباس رضي الله عنهما لما بعثه النبي صلى الله عليه وسلم إلى اليمن قال له : (أَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ ) رواه البخاري (1395)ومسلم(19).

اس حدیث میں ’’فقرائہم‘‘ کا لفظ آیاہوا ہے، جس کے اشارۃ النص سےمعلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد مسلمان فقراء ہیں؛ چنانچہ امام نووی فرماتے ہیں:

" فيه أن الزكاة لا تدفع إلى كافر " انتهى من " شرح مسلم " (1/197) .

ابن منذر اورابن قدامہ رحمہمااللہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے:

يقول ابن المنذر رحمه الله :"أجمعوا على أن الذمي لا يعطى من زكاة الأموال شيئا " انتهى من الإجماع "(ص/8).

ويقول ابن قدامة رحمه الله :"لا نعلم بين أهل العلم خلافا في أن زكاة الأموال لا تعطى لكافر ولا لمملوك " انتهى من " المغني " (2/487).

۲)غیرمسلم کوزکات واجبہ دے سکتے ہیں، اس کے قائلین میں امام زہری، ابن سیرین اوراحناف میں سے امام زفررحمہم اللہ ہیں،ان حضرات کے دلائل درج ذیل ہیں:

روى ابن أبي شيبة في "المصنف"(2/402) قال:حدثنا يزيد بن هارون، قال:أخبرنا حبيب بن أبي حبيب، عن عمرو بن هرم، عن جابر بن زيد، قال:سئل عن الصدقة فيمن توضع ؟ فقال: في أهل المسكنة من المسلمين وأهل ذمتهم، وقال:(وقد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقسم في أهل الذمة من الصدقة والخمس).

وهذا إسناد صحيح ، ولكنه مرسل، فجابر بن زيد من الطبقة الوسطى من التابعين، توفي سنة(93هـ)، ولا تعرف الواسطة بينه وبين النبي صلى الله عليه وسلم.

روى ابن أبي شيبة في "المصنف" (4/288) قال: حدثنا أبو معاوية، عن عمر بن نافع، عن أبي بكر العبسي، عن عمر، في قوله تعالى:(إنما الصدقات للفقراء) التوبة/ 60، قال: هم زمنى أهل الكتاب.

وروى أبو يوسف في "الخراج" (ص139) الأثر بسياق أطول فيه إنصاف عمر لليهودي الذمي وقوله له: (مَا أَنْصَفْنَاهُ أَن أكلنَا شيبته ثُمَّ نَخُذُلُهُ عِنْدَ الْهَرَمِ).وروى الطبري نحوه في " جامع البيان " (14/308) من تفسير عكرمة .

لیکن اس کی سند ضعیف ہے، قال الذهبي رحمه الله : " أبو بكر العبسي عن عمر : مجهول "انتهى من "ميزان الاعتدال"(4/499)، وانظر:" الجرح والتعديل" لابن أبي حاتم (9/341).

ما رواه البلاذري (ت279هـ) في "فتوح البلدان" قال: حدثني هِشَام بْن عمار أنه سمع المشايخ يذكرون أن عُمَر بْن الخطاب عند مقدمه الجابية من أرض دمشق مر بقوم مجذومين منَ النصارى، فأمر أن يعطوا منَ الصدقات، وأن يجرى عليهم القوت. ولكنه إسناد ضعيف لجهالة المشايخ عن عمر، ثم إن قوله ( يعطوا من الصدقات) يحتمل أنها الصدقات المستحبة، وليست الزكاة الواجبة.

يقول السرخسي الحنفي رحمه الله:"لا يعطى من الزكاة كافر إلا عند زفر رحمه الله، فإنه يُجَوِّز دفعها إلى الذمي، وهو القياس؛ لأن المقصود إغناء الفقير المحتاج على طريق التقرب، وقد حصل "انتهى من المبسوط"(2/202) ثم رد على ذلك بالحديث الذي استدل به الجمهور.

یہ توزکات کے عام مسئلہ سے متعلق بات تھی؛ لیکن اس مسئلہ سے متعلق خاص بات یہ ہے کہ زکات کے مصارف ثمانیہ میں سے ایک مصرف ’’مؤلفۃ القلوب‘‘ بھی ہے، جس کے اندر چھ طرح کے افراد کو شمار کیاجاتا ہے، جن میں سے دوکا تعلق کفار سے ہے، جب کہ چار کا تعلق مسلمانوں سے ہے، کفارسے تعلق رکھنےہ والے دویہ ہیں:

۱)وہ کافر، جس کے خیرکی امیدہو۔

۲)وہ کافر، جس کے شرکااندیشہ ہو۔

آپ ﷺ سے یہ ثابت ہے کہ آپﷺ تالیف قلب کے غیرمسلموں کومال دیا ہے؛ چنانچہ صحیح مسلم میں کئی لوگوں کے نام ہیں، جن کوعلامہ شوکانی نے نقل کیاہے:

 أنه صلّى الله عليه وسلم أعطى أبا سفيان بن حرب، وصفوان بن أمية، وعيينة بن حصن، والأقرع بن حابس، وعباس بن مرداس، كل إنسان منهم مئة من الإبل. وأعطى أيضاً علقمة ابن علاثة من غنائم حنين (نيل الأوطار: 166/ 4.).

اب اس کی وجہ سے فقہاء کے مابین اختلاف ہوا کہ زکات واجبہ سے غیرمسلموں کومؤلفۃ القلوب میں شامل کرکے دے سکتے ہیں یا نہیں؟ اس سلسلہ میں فقہاء کے دورجحانات ہیں:

(الف)ترغیب اسلام کے لئے انھیں زکات دے سکتے ہیں؛ کیوں کہ آپ ﷺ نے انھیں مال دیا ہے، اس کے قائلین میں مالکیہ اورحنابلہ ہیں۔

(ب)غیرمسلموں کوزکات واجبہ سرے سے دے ہی نہیں سکتے؛ کیوں کہ اب تالیف قلب کی ضرورت نہیں، اس کے قائلین میں احناف وشوافع ہیں۔

جن مسلمانوں کومؤلفۃ القلوب میں شمار کیاگیا ہے، وہ درج ذیل ہیں:

۱)کمزورایمان والے، ان کواس لئے دیا جائے؛ تاکہ وہ ایمان پرمضبوط ہوجائیں۔

۲)ایسے مسلم کو، جن کودیکھ دوسروں کواسلام لانے کی توقع ہو۔

۳)سرحدوں میں مقیم مسلمانوں کو، جوسرحد پار کے کافروں سے ہماری حفاظت کرتے ہیں۔

۴)سرکش لوگوں سے زکات وصولی کرنے والے مسلمانوں کو، جن کی سرکشی کی وجہ سے عاملین کوان کے پاس بھیجا نہیں جاسکتا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا ان کومؤلفۃ القلوب کی مدسے زکات دی جاسکتی ہے؟ اس سلسلہ میں بھی فقہاء کی دورائیں ہیں:

(الف)نہیں دی جاسکتی؛ کیوں کہ یہ مد اب باقی نہیں رہا، حضرت عمرؓ نے اپنے زمانہ میں اسے کالعدم قراردیتے ہوئے فرمایا:إنا لا نعطي على الإسلام شيئاً، فمن شاء فليؤمن، ومن شاء فليكفر۔ اس کے قائلین میں احناف ومالکیہ ہیں۔

(ب)دی جاسکتی ہے؛ کیوں کہ یہ حکم اب بھی باقی ہے، منسوخ نہیں ہواہے، لہٰذا وقتِ ضرورت دینے کی گنجائش ہے، اس کے قائلین میں جمہور ہیں۔(تفصیل کے لئے دیکھئے:الفقہ الاسلامی وأدلتہ:۲/۸۷۱)

قول راجح

راقم حروف کے نزدیک مؤلفۃ القلوب کے مصرف کو منسوخ ماننے کی بجائے باقی رکھنا چاہئے:

ایک تواس لئے کہ آج کے حالات حضرت عمرؓ کے دورکے حالات سے بالکل مختلف ہیں، جس بات کی وجہ سے انھوں نے منع فرمایا تھا، آج وہ بات نہیں رہی؛ بل کہ اس کے برعکس ہے۔

دوسرے اس لئے کہ نسخ کادعوی محل نظرہے؛ کیوں کہ نسخ کی جودوقسمیں(نسخ منصوص اورنسخ اجتہادی) ہیں، ان میں سے کسی کے دائرہ میں یہ نہیں آتا۔

لہٰذا ’’مؤلفۃ القلوب‘‘کے مدکوبرقراررکھتے ہوئے غیرمسلمین کوزکات واجبہ سے مال دیا جاسکتا ہے؛ البتہ ترجیح ان لوگوں کوہونی چاہئے، جن سے فتنہ کااندیشہ ہویاپھراسلام کے تئیں ہمدردی پیداہوجائے، ہذاماعندی، واللہ اعلم بالصواب!

انشورنس اورعلمائے ہند کے فیصلے

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی