کتبِ فقہ حنفی کے درجات/برصغیر میں فتوی نویسی (قسط:۲)

کتبِ فقہ حنفی کے درجات/برصغیر میں فتوی نویسی (قسط:۲)

صحت واستناد کے لحاظ سے کتبِ فقہ حنفی کے درجات

برصغیر میں فتوی نویسی (قسط:۲)

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

ہندوستان کے حکمرانوں میں علم دوست کی حیثیت سے جو معروف ہوئے ہیں، ان میں ایک ظہیرالدین محمد بابر (عہد حکومت:۳۰/اپریل ۱۵۲۶-۲۶/دسمبر۱۵۳۰ء)بھی ہیں، ہندوستان میں مغل بادشاہت کی بنیاد انھوں نے رکھی، بابرسفروحضر میں کتب خانہ ساتھ رکھتا تھا، علم دین اورفقہیات سے اسے دلچسپی تھی، اسی لئے اس کے دل میں خواہش پیداہوئی کہ مسائل فقہیہ پر مشتمل فارسی زبان میں ایک کتاب منصہ شہود میں آنی چاہئے، اس کے لئے شیخ نورالدین خوافی تیارہوئے اور مستند روایتوں اور کتابوں کی مدد سے مسائل شرعیہ کی جمع وتدوین کا کام شروع کیا اور ہدایہ، الکافی، شرح وقایہ، شرح مختصر الوقایہ، الخزانہ اورفتاوی قاضی خاں وغیرہ کتب فقہ کے تعاون سے ایک کتاب تیارکی، جس کانام’’فتاوی بابری‘‘ رکھا گیا، اس فتاوی کاتعارف جناب شیخ فریداحمد صاحب برہانپوری نے جولائی۱۹۵۰ء کے معارف (اعظم گڑھ) میں ایک مختصر تعارف پیش کیا ہے۔(برصغیرمیں علم فقہ، ص:۲۵۳- ۲۵۵)

فتاوی کی اس کڑی میں ایک اہم نام ’’فتاوی عالم گیری‘‘ یا ’’فتاوی ہندیہ‘‘ کاہے، یہ فتاوی اورنگ زیب عالم گیر (عہد حکومت:۳۱/جولائی ۱۶۵۸-۳/مارچ ۱۷۰۷ء)کے عہدحکومت میں مرتب کیا گیا، عالم گیرایک باکمال عالم تھے، مسائل فقہیہ کا پورا استحضار تھا، کئی رسائل بھی انھوں نے مرتب کئے ہیں، اپنے ہاتھوں سے کتابت کرکے قرآن مجید کا ایک نسخہ مکہ مکرمہ اور دوسرا نسخہ مدینہ منورہ بھی بھجوایا تھا، احکام اسلام کے نافذ اورعلم دین کی نشرواشاعت کے تعلق سے یہ جس قدرمشہو رہیں، اسی قدرغیروں کی طرف سے ان پر لگائے ہوئے اتہام اورالزام تراشی کے سلسلہ میں مظلوم بھی ہیں، اسی مشہور مغل حکمراں کے زمانہ میں یہ فتاوی مرتب کیا گیا، اس فتاوی کواس دورکے معروف علمائے کرام اور مستند فقہائے عظام کی ایک جماعت نے ترتیب دیا، فتاوی عربی زبان میں ہے اور چھ جلدوں میں ہے، یہ بات مشہورہے کہ اس کی ترتیب و تدوین میں دوسال کی مدت صرف ہوئی، اس لحاظ سے اس کی تالیف کا آغاز۱۰۷۷ھ یا ۱۰۷۸ھ میں ہوا اورتکمیل ۱۰۸۰ھ یا ۱۰۸۱ھ میں ہوئی، اس فتاوی کے مرتبین تقریباً اٹھائیس افراد ہیں، جن کے سرخیل ملانظام الدین برہانپوری تھے، چوں کہ اس فتاوی کی تدوین عالم گیرکے زمانہ میں اسی کے حکم وسعی سے ہوئی ؛ اس لئے اس کا نام ’’فتاوی عالم گیری‘‘ رکھا گیا، اس فتاوی کی تدوین کے بعد اس کے نسخے بنوائے گئے اور مختلف علاقوں میں بھیجے گئے، عالم عرب میں بھی بھیجا گیا، اس کی ترتیب کے بعد عالم گیرنے اپنے دائرۂ حکمرانی میں یہ اعلان کردیا کہ اب افتاء وقضاء اسی کتاب کی روشنی میں سر انجام دئے جائیں گے، اس فتاوی کا فارسی زبان میں بھی ترجمہ ہوا اوراردو زبان میں بھی۔(برصغیرمیں علم فقہ،ص:۲۶۱ وما بعدہٗ)

یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ فتاوی کے نام سے جن کتابوں کا تعارف ہوا ہے، وہ دراصل اصطلاحی فتوے کی کتابیں نہیں ہیں؛ بل کہ مذہب حنفی میں’’فتاوی وواقعات‘‘ کے نام سے ایک الگ اصطلاح ہے، اسی الگ اصطلاح کو سامنے رکھ کربہت ساری کتابوں کے نام کا جزء’’فتاوی‘‘ ہے، اصل میں فقہ حنفی کی روشنی میں جو کتابیں مرتب کی گئی ہیں، ان کوصحت واستناد کے لحاظ سے تین درجات میں تقسیم کیا گیا ہے:

۱-پہلے درجہ میں امام محمدؒ کی چھ کتابوں کورکھاگیاہے، جنھیں’’ظاہرالروایہ‘‘ اور’’اصول‘‘ بھی کہا جاتاہے، وہ یہ ہیں: المبسوط، الزیادات، الجامع الصغیر، الجامع الکبیر، السیرالصغیر اورالسیرالکبیر، اسی زمرہ میں حاکم شہیدکی’’کتاب المنتقیٰ‘‘ اور’’کتاب الکافی‘‘کوبھی رکھاگیاہے۔

۲-دوسرے درجہ میں مذکورہ کتابوں کے علاوہ امام محمدؒ کی دیگر کتابیں ہیں، جنھیں’’نوادرات‘‘ یا ’’غیرظاہرالروایہ‘‘ کہا جاتا ہے،وہ یہ ہیں:کیسانیات،ہارونیات،جرجانیات،رقیات وغیرہ، ان کے علاوہ امام ابوحنیفہؒ کے بعض دوسرے شاگردوں کی کتابیں بھی اس زمرہ میں شامل ہیں،جیسے:حسن بن زیاد کی ’’المجرد‘‘، امام ابویوسف کی ’’کتبِ امالی‘‘وغیرہ، اسی طرح اسی زمرہ میں دیگروہ متفرق روایات بھی ہیں، جوامام محمد کے شاگردوں نے ان سے روایت کی ہیں اور جواصول کے مخالف ہیں،جیسے:روایاتِ ابن سماعۃ، نیز نوادرمیں ’’نوادر ابن سماعہ‘‘، ’’ نوادرہشام‘‘ اور’’نوادرابن رستم‘‘ وغیرہ کوبھی شامل کیاجاتا ہے۔

۳-تیسرے درجہ کی کتابوں کو’’واقعات‘‘ اور’’فتاوی‘‘ بھی کہا جاتا ہے، ان کتابوں میں وہ مسائل درج ہیں، جن کوامام ابویوسف اورامام محمد کے شاگردوں اوران کے شاگردوں کے شاگردوں، نیز متاخرین نے امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف اورامام محمد رحمہم اللہ کے کسی مسئلہ میں اقوال نہ ہونے کی صورت میں جو مسائل اخذ واستنباط کئے ہیں، اس زمرہ میں سرفہرست امام ابواللیث سمرقندی کی’’النوازل‘‘ہے، جس میں انھوں نے اپنے شیوخ اورمشائخ الشیوخ جیسے:عصام بن یوسف، ابوسلیمان جوزجانی،ابوحفص بخاری،محمدبن مقاتل رازی،محمد بن مسلمہ، ابوالنصر قاسم بن سلام اورنصیربن یحی وغیرہم کے فتاوے اور اجتہادات کو جمع کیاہے، پھربعد کے مشایخ نے بھی اس تعلق سے کتابیں مرتب کیں، جیسے:احمدبن موسی بن عیسیٰ کی ’’مجموع النوازل‘‘، جس میں انھوں نے ’’فتاوی ابواللیث السمر قندی‘‘، فتاوی أبی بکربن فضل‘‘ اور’’فتاوی ابوحفص الکبیر‘‘ وغیرہ کوجمع کیا ہے، احمدبن محمد عمرو الناطفی کی ’’الواقعات‘‘ اور صدرالشہید عمربن عبدالعزیز بن مازہ کی ’’الواقعات‘‘۔(النافع الکبیر للإمام اللکھنوی،ص:۱۷-۱۸، شرح عقود رسم المفتی حاشیتہ،ص:۷۳-۷۸،مصطلحات المذاہب الفقہیۃ لمریم محمدصالح الظفری، ص:۱۰۷)

مذکورہ سطورسے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اوپرکی ذکر کردہ فتاوی کی کتب کاتعلق اسی تیسرے درجہ سے ہے، یعنی یہ باقاعدہ مروج اصطلاحی فتاوی کی کتابیں نہیں ہیں، تاہم ان کتابوں کا یک گونہ تعلق اصطلاحی فتاوی سے بھی ہے؛ اس لئے برصغیرکے ان کارناموں کا تذکرہ بھی کردیا گیا، باقی اصطلاحی فتوی نویسی کی ابتدا کب سے ہوئی؟ اس تعلق سے استاذ گرامی قدرحضرت مولاناخالد سیف اللہ رحمانی دامت براتہم رقم طراز ہیں:

’’برصغیرمیں فتوی نویسی کے کام اورفتاوی کے مجموعوں کی ترتیب کی تاریخ بہت قدیم ہے، اس سلسلہ میں غالباً پہلانام حضرت شاہ عبدالعزیزمحدث دہلویؒ (م:۱۱۵۹ھ)کے ’’فتاوی عزیزی‘‘ کا لیا جاسکتا ہے، اس کی اصل زبان فارسی ہے اوراردو میں اس کاترجمہ کیاگیا ہے، شاہ صاحب کے فتاوی میں ردبدعت پرخاص طورسے زوردیاگیا ہے۔(کتاب الفتاوی، مقدمہ:۱ / ۲۳۸)

برصغیرمیں فتوی نویسی(قسط:۱)

برصغیرمیں فتوی نویسی(قسط:۳)

برصغیر میں فتوی نویسی(قسط:۴)


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی