مقاصدِ ضروریہ (1)حفاظتِ دین

مقاصدِ ضروریہ (1) حفاظتِ دین

مقاصدِ ضروریہ (1)

حفاظتِ دین

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

ضروریہ کامطلب یہ ہے کہ دنیاوآخرت کی مصلحتوں کی انجام دہی کے لئے اس حدتک ضروری ہیں کہ ان کے فوت ہونے سے دنیا یا آخرت کی کوئی مصلحت درستگی پرقائم نہ رہ سکے؛ بل کہ فساد و بگاڑ پیدا ہوجائے اور زندگی فوت ہوجائے، اور آخرت میں نجات وجنت سے محرومی ہاتھ آئے، امام شاطبی فرماتے ہیں: 

فأمالضروریۃ: فمعناہا أنہالابد منہافی قیام مصالح الدین والدنیابحیث إذافقدت لم تجرمصالح الدنیاعلی استقامۃ؛ بل علی فسادوتہارج وفوت حیاۃ، وفی الأخری فوت النجاۃ والنعیم، والرجوع بالخسران المبین۔ (الموافقات: ۲؍۱۷-۱۸) 

جہاں تک ضروریہ کا تعلق ہے تواس کا مطلب یہ ہے کہ دین و دنیا کے مصالح کی انجام دہی میں جواس حد تک ضروری ہوں کہ ان کے فوت ہونے سے دنیا کی مصلحتیں درستگی پرقائم نہ رہیں؛ بل کہ ان میں فساد وبگاڑ پیدا ہوجائے اورزندگی فوت ہوجائے اور آخرت میں نجات ونعمت فوت اوربھاری نقصان ہوجائے۔

معلوم یہ ہوا کہ ضروری وہ ہے، جس پرزندگی کا مدار ہو اور مصالح کی درستگی کے لئے ضروری ہو، اس کے بغیر نظام حیات میں خلل پڑجائے، لوگوں کی مصلحتیں قائم نہ رہ سکیں اور شورش و فساد برپا ہوجائے(علم أصول الفقہ للخلاف، ص:۱۹۹)، مجموعۂ ضروریہ پانچ ہیں، جن کی رعایت تمام ملتوں میں کی گئی ہے:

۱-حفظ دین۔ ۲-حفظ نفس۔

۳-حفظ عقل۔ ۴-حفظ نسل۔

۵-حفظ مال۔

مذکورہ مقاصد ضروریہ خمسہ کو اصول دین میں شمار کیا گیا ہے اور عقائد کے بعد اس کو درجہ دیا گیا ہے؛ بل کہ انھیں کی حفاظت کے لئے شریعت اتاری گئی ہے، علامہ شاطبی رقم طراز ہیں:

فقداتفقت الأمۃ -بل سائرالملل- علی أن الشریعۃ وضعت للمحافظۃ علی الضروریات الخمس، وہی: الدین، والنفس، والنسل، والمال، والعقل، وعلمہاعندالأمۃ کالضروری۔ (الموافقات: ۱؍۳۱

امت- بل کہ تمام امتیں- اس بات پرمتفق ہے کہ ضروریات خمسہ کی حفاظت کے لئے ہی شریعت بنائی گئی ہے اوروہ دین، نفس، نسل، مال اورعقل ہے،امت کے حق میں ان کی واقفیت ضروریات دین سے واقفیت کی طرح ہے۔

پھران کی حفاظت کاحکم ایجابی اورسلبی ہردوپہلوسے دیا گیا ہے، جن کوہم علاحدہ علاحدہ بیان کریں گے(مقاصدالشریعۃ الإسلامیۃ تأصیلا وتفعیلاً، ص: ۳۰۹ ومابعدہا، مقاصد الشریعۃ عندالعزبن عبدالسلام، ص:۴۶۷ومابعدہا):

حفظ دین

(الف)ایجابی:اس کے لئے تین مرتب احکام دئے گئے:

۱-ایمان:یعنی اللہ پر، اس کے ملائکہ پر، اس کی کتابوں پر، آخرت کے دن پر، تقدیر کے اچھے یابرے ہونے پر اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پرایمان رکھنا، پھران میں ایمان باللہ سب پرمقدم اوراشرف ہوگا، عزبن عبدالسلام فرماتے ہیں:

والإیمان باللہ أشرف من کل إیمان۔(شجرۃ المعارف والأحوال وصالح الأقوال والأعمال، المأمورات الباطنۃ،ص: ۴۸

ایمان باللہ تمام ایمانیات سے اشرف ہے۔

حدیث میں بھی ہے کہ جب اللہ کے رسولﷺسے سوال کیا گیا: أی الأعمال أفضل؟ (کون ساعمل افضل ہے؟) توجواب میں فرمایا: إیمان باللہ ورسولہ۔(بخاری، حدیث نمبر: ۱۴۴۷

اس حدیث کی شرح میں احمد بن عمرقرطبی فرماتے ہیں:

ولایخفیٰ أن الإیمان باللہ تعالیٰ أفضل الأعمال کلہا؛ لأنہ متقدم علیہا، وشرط فی صحتہا؛ ولأنہ من الصفات المتعلقۃ، وشرفہا بحسب متعلقاتھا، ومتعلق الإیمان: ہواللہ تعالیٰ، وکتبہ، ورسلہ، ولاأشرف من ذلک، فلاأشرف فی الأعمال من الإیمان، ولاأفضل منہ۔(المفہم لماأشکل من تلخیص کتاب مسلم، باب الإیمان باللہ أفضل الأعمال:۲؍۳۹)

یہ بات مخفی نہیں ہے کہ ایمان باللہ تمام اعمال میں افضل ہے؛ اس لئے کہ وہ تمام پرمقدم ہے اوران کے درست ہونے کے لئے شرط ہے، اوراس لئے بھی کہ وہ متعلقہ صفات میں سے ہے، اور اس کا مرتبہ اس کے متعلقات کے حساب سے ہے، اورایمان کا متعلق اللہ، اس کی کتابیں اور اس کے رُسُل ہیں، اوراس سے اشرف نہیں، لہٰذا ایمان کے مقابلہ میں کوئی عمل اشرف نہیں اورنہ اس سے افضل ہے۔

۲-تعبدی شعائرکی ادائے گی:دین کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ نے متعدد قسم کی عبادتیں مکلف بندوں پرلازم کی ہیں، جن کی تین قسمیں کی جاتی ہیں:

(الف)بدنی، جیسے:نماز، جہاد وغیرہ۔

(ب)مالی، جیسے:زکات وصدقات وغیرہ۔

(ج)بدنی ومالی، جیسے:حج۔

انھیں مذکورہ چیزوں پراسلام کی عمارت قائم ہے؛ چنانچہ اللہ کے رسولﷺنے فرمایا:

بنی الإسلام علی خمس: شہادۃ أن لاإلہ إلااللہ، وأن محمداً رسول اللہ، وإقام االصلاۃ،إیتاء الزکاۃ،والحج، وصوم رمضان۔(بخاری،کتاب الإیمان،حدیث نمبر: ۸

اسلام کی بنیاد پانچ چیزیں ہیں:لاالٰہ الااللہ اورمحمدرسول اللہ کی گواہی، نماز کا قیام، زکات کی ادائے گی، حج اوررمضان کے روزے۔

۳-تمام قسم کی طاعات:طاعت، مطیع اورفرماں بردار شخص کو خیراوراحسان کی طرف متوجہ اورخواہشات اور شہوات سے دورکرتی ہے، جس کے نتیجہ میں رب کا استحضار اور اعمال کے محاسبہ کی فکرپیداہوتی ہے اورفرائض وواجبات کی ادائے گی میں کوتاہی سے بچتاہے اورحقیقت یہ ہے کہ انسان کے معاد ومعاش کی فلاح اورسعادت کی اصل یہی طاعت ہے، علامہ ابن قیم جوزیہ فرماتے ہیں:

وأصل سعادۃ الإنسان وفلاحہ فی معاشہ ومعادہ تصدیق الخبر وطاعۃ الأمر،کماأن أصل فسادہ وشقائہ فی معاشہ ومعادہ:الشبہات والشہوات۔(مفتاح السعادۃ:۱؍۵۳

معاش ومعاد میں انسان کی اصل سعادت اور کامیابی خبرکی تصدیق اورامرکی طاعت ہے، جیساکہ معاش ومعاد میں اصل فساد اور بدبختی شبہات اورشہوات ہیں۔

ان چیزوں کاحکم دیتے ہوئے اللہ فرماتاہے:

۱-یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ آمِنُواْ بِاللّہِ وَرَسُولِہِ وَالْکِتَابِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلَی رَسُولِہِ وَالْکِتَابِ الَّذِیَ أَنزَلَ مِن قَبْلُ وَمَن یَکْفُرْ بِاللّہِ وَمَلاَئِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِیْداً۔(النساء: ۱۳۶)

۲-وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتَّی یَأْتِیَکَ الْیَقِیْن۔(الحجر: ۹۹)

۳-وَأَنَّ ہَـذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْماً فَاتَّبِعُوہُ وَلاَ تَتَّبِعُواْ السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَن سَبِیْلِہِ(الأنعام: ۱۵۳)

(ب)سلبی:منہیات سے اجتناب:یعنی جن چیزوں سے روکا گیا ہے، ان سے رک جانااورمخالفت نہ کرنا، جیسے: کفر، شرک اوردیگرگناہوں سے بچنا، اسی میں اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے جہاد اور حدود وتعزیرات کے احکام بھی شامل ہیں، اللہ تعالیٰ کاارشادہے:

۱-وَاعْبُدُواْ اللّہَ وَلاَ تُشْرِکُواْ بِہِ شَیْْئاً۔(النساء: ۳۶)

۲-وَلَکُمْ فِیْ الْقِصَاصِ حَیَاۃٌ یَاْ أُولِیْْ الأَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون۔(البقرۃ: ۱۷۹)


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی